اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ "وہی ہے جس نے اپنے رسولکو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے، پارہ9 آیت"61، اسلامی ریاست کیسی ہوتی ہے؟ صداقت، امانت، عدل، احسان، قوت و جرات اسلامی ریاست کی بنیاد ہے، جھوٹ، بے ایمانی، بددیانتی، خوشامد، اقربا پروری، رزق حرام، عدل سے فرار یہ سب آنکھوں،کانوں، دلوں، زبانوں کی مہریں ہیں، پردے ہیں، جو ان بدبختیوں کا قیدی ہے اسلامی معاشرہ میں اس کا کوئی وقار نہیں، بقول حضرت علامہ اقبال۔
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حرکی آنکھ ہے بینا
اﷲ تعالی نے ظلم و جبر ختم کرکے عدل کا نظام قائم کرنے کیلئے جہاد فرض کیا ہے،تو وہ احکم حاکمین ہے اگر ہم اس کے احکامات اور اس کے عائد کردہ فرائض کو پورا نہیں کرتے تو اس پر وہ قادر ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو لے آئے جو اس کے ہر حکم کو بجالانے والے ہوں،غور طلب امر یہ ہے کہ اﷲ ایسے لوگوں کو آگے لے آیا تو ہمارے لیڈروں اور ان کی جماعتوں کا کیا حشر ہوگا، افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے دانشور اور نام نہاد لبرل جماعتوں کے راہنما کہتے ہیں کہ عصر حاضر کے انسانی معاشرہ میں اسلامی نظام کیسے نافذ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں آج کے دور کے تقاضوں سے اسلام کا نظام اور شریعت ہم آہنگ نہیں ہیں، آج کے دور کے کیا تقاضے ہیں ،کیا اس عہد میں صداقت و امانت کی ضرورت نہیں ہے،کیا رواں عہد میں عدل و انصاف ، احسان و سخاوت اور شجاعت کی ضرورت نہیں ہے، اگر واقعی آج ان اقدار کی ضرورت نہیں تو پھر واقعی اسلام دور حاضر کے تقاضے پورے نہیں کرتا،کیونکہ اسلام میں تو ان ہی اقدار کی حکومت ہوسکتی ہے جب ان اقدار سے انحراف ہوگا تو پھر کربلا تو سجے گی،شائد وہ وقت قریب آ چکا ہے کہ میکاولی کے پجاری سیاست دانوں سے اﷲجلّ شانہ نجات دلانے کے اسباب پیدا کر دے، ایک عجیب شور و غوغا ہے جو ہمارے سیاست کاروں نے مچا رکھا ہے،ہر ایک اپنے اندر ایک فرعون کو لئے پھر رہا ہے، جس کے ارد گرد قارونوں کا حصار ہے جنہیں سیاسی اصطلاح میں الیکشں لڑنے والے گھوڑے کہا جاتا ہے،کسی سیاسی جماعت کا کوئی نظریہ ہے نہ منشور ہے، جنرل یحیٰ خاں کے دست راست کے ہنر آشنا بیٹے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اقتصادی و معاشی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں، جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ہدایت پر بن رہی ہیں،کیسی تبدیلی؟ کون سی تبدیلی؟کن کے ذریعے؟ جنرل پرویز مشرف کے پیاروں کے ذریعے تبدیلی لائی جائے گی،کہاں گئی میاں نواز شریف کی اقدار کی سیاست،کہاں گم ہوگیا تبدیلی کا نشان عمران خان، آصف زرداری کو تو چھوڑئیے اس کی "کامیابی" کیلئے "سچا اور سُچا بھٹواسٹ" منظور وٹو کافی ہے،آصف زرداری ذوالفقار علی بھٹوکا روحانی فرزند ہونے کا دعویدار ہے جس کے بارے میں سردار شیرباز مزاری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ایوب کھوڑو کی کوٹھی پر ایک اجلاس میں آصف زرداری نے اٹھ کر بھٹو صاحب مرحوم کے خلاف بولنا شروع کر دیا جس پر میں نے ٹوکا کہ اس دنیا سے رخصت ہونے والوں کو برا بھلا کہنا ہماری روایت نہیں ہے، بھٹو کے روحانی فرزند کی چوائس ضیاءباقیات ہی ہو سکتی ہیں، بھٹو باقیات سے بی بی شہید نے جان چھڑا لی تھی اب بے نظیر باقیات کو زرداری فارغ کر رہے ہیں، ایسے میں ضیاءباقیات کے ساتھ آنے والے جیالوں کا نعرہ صحیح ہے کہ "آصف زرداری سب پر بھاری" عمران خان کو اندازہ ہی نہیں کہ اس کے حامیوں خصوصاً نوجوان اور لوئر مڈل کلاس میں کتنی مایوسی ہے، اگرچہ ناامیدی پیدا نہیں ہوئی لیکن لٹیروں قبضہ مافیا کو قبول کرکے تحریک انصاف کو کتنا نقصان پہنچا ہے اس کا عمران خان کو اندازہ نہیں، موقع پرستوں کو مسلم لیگ (ن) نے شرف قبولیت بخش دیا ہے چنانچہ وہ عمران خان کو چھوڑ کر نواز شریف کی جھولی میں جا رہے ہیں،کچھ موقع پرست ایسے ہیں جو اب بھی تحریک انصاف میں بیٹھے ہیں کہ انہیں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی ٹکٹ کی گارنٹی نہیں دے رہی، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، لغاری برادران کا اپنا ووٹ بنک ہے، جن کی کامیابی میں تحریک انصاف کا ووٹر اہمیت رکھتا ہے ، وسطی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اپنی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، اس کا ووٹر جو عمران خان کی طرف تیزی سے جارہا تھا اس پراپیگنڈہ کے بعد کہ مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف نواز شریف کا ووٹر توڑ کر پی پی پی کے اقتدار کی راہ ہموار کردے گا،اب نواز شریف کی طرف واپس جا رہا ہے، پاکستان میں اقتدار ہمیشہ ایسی پارٹی کا مقدر بنا ہے جو وسطی پنجاب کو فتح کرتا ہے،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وسطی پنجاب عمران خان کا بہت تیزی سے حامی بن رہا تھا لیکن لوٹ مار سے کروڑوں پتی بننے والوں کو عمران خان نے لے کروسطی پنجاب کی لوئر مڈکل کلاس اور مڈل کلاس کو سخت مایوس کیا ہے،اگر عمران خان کے پاس فرصت ہو تو وہ وسطی پنجاب کے اپنے پرانے کارکنوں سے مشاورت کریں اور ان کے مشورہ سے صاف ستھرے کردار کے متوسط طبقہ کے کارکنوں کو امیدوار بنائیںاور پارٹی فنڈز سے ان کی مالی مدد کریں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024