ڈالر پر عدم انحصار کا رجحان اور چین امریکہ ٹیرف کشمکش

May 07, 2025

 پروفیسر حمزہ مصطفائی

 پروفیسر حمزہ مصطفائی
چین اور امریکہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ہیں جن کے درمیان تعلقات نہ صرف باہمی تجارت تک محدود ہیں بلکہ ان تعلقات کی نوعیت دنیا بھر کی معیشتوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی شدت حال ہی میں لگائے گئے نئے ٹیرف سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس مضمون میں ہم ان تعلقات کا تجزیہ کریں گے، تجارتی جنگ کے اثرات پر روشنی ڈالیں گے، اور پاکستان کے لیے اس صورتحال میں پیدا ہونے والے ممکنہ مواقع کا جائزہ لیں گے۔
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات گزشتہ چار دہائیوں سے قائم ہیں۔ چین امریکہ کو ہر سال تقریباً 500 ارب ڈالر کی اشیاء  برآمد کرتا ہے، جب کہ امریکہ سے اس کی درآمدات صرف 150 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ امریکہ اس سمیت سارے تجارتی خسارے سے پریشان ہے جس سے وہ جان چھڑانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ یا یہ تجارتی فرق، بظاہر چین کے حق میں ایک بڑا فائدہ نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ماڈرن گلوبل سپلائی چینز کا نتیجہ ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل بہت سی امریکی اور یورپی کمپنیاں اپنی مصنوعات چین میں تیار کرواتی ہیں۔ مثلاً ٹیسلا ، ایپل ( Apple،  Tesla ) اور دیگر کئی کمپنیاں چین میں سستی لیبر، انفراسٹرکچر  اور اعلیٰ پیداواری صلاحیت کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چینی فیکٹریاں صرف اسمبلنگ کرتی ہیں، جب کہ برانڈ، تحقیق، اور زیادہ تر منافع مغربی کمپنیوں کو ہی جاتا ہے۔ گویا چین نے گزشتہ تین دہائیوں میں اپنی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دنیا بھر سے سرمایہ داروں کو راغب کر کے اپنے ہاں سرمایہ کاری کو کامیابی سے ممکن بنایا ہے۔
2025 میں امریکہ نے اپنی معیشت کو سنبھالا دینے اور اپنے محصولات میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے 100 ممالک کی مصنوعات پر مختلف شرح سے ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ چین پر سابقہ 20 فیصد ٹیرف کے باوجود مزید 34 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا، ویتنام پر 46%، بھارت پر 26%، اسرئیل پر 17%، برطانیہ پر 10% اور پاکستان پر 29% ٹیرف عائد کیا گیا۔باقی دنیا کا رد عمل تو ملا جلا رہا مگر اس ٹیرف کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 34  فیصد ٹیرف لگا دیا۔ امریکہ اس جوابی کارروائی پر  مشتعل ہوگیا لہذا اس نے چین کو جوابی ٹیرف واپس لینے کو کہا وگرنہ 50% مزید ٹیرف کی دھمکی دے ڈالی۔ بالآخر دنیا بھر کی اسٹاک ایکسچینجوں میں زلزلے لانے کے بعد امریکہ نے باقی دنیا کے ٹیرف کو تین ماہ کے لیے معطل کر دیا ہے مگر چین کے ٹیرف کو 125 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ جواباً چین نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک ٹیرف لگا دیا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے، باقی دنیا کا ٹیرف معطل کر کے، چین کو تنہا کرنے کی کوشش کی ہے مگر چین نے پورے اعتماد سے اپنی پالیسی پر عملدرآمد جاری رکھا ہے۔ یہ کشمکش صرف دو طرفہ تجارتی تعلقات کو نہیں بلکہ عالمی مارکیٹ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ امریکی صارفین کے لیے چینی مصنوعات فورا 125% تک مہنگی ہو جائیں گی۔ جبکہ مجموعی مہنگائی میں بھی  3% تک اضافہ ہو گا۔اور اگر امریکہ تین ماہ بعد پھر پوری دنیا پر اوسطا 25% تا 30% ٹیرف عائد کرتا ہے تو متعلقہ درآمدی مصنوعات کی قیمتوں میں اسی شرح سے اضافہ ہو کر امریکی صارفین کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی ٹیرف کی وجہ سے تقریبا 10% تک افراط زر ہوگا۔ دوسری طرف چینی ٹیرف کی وجہ سے چینی عوام اور فیکٹریوں کو خام مال اور امریکی مصنوعات مہنگے داموں ملیں گی۔ نتیجے کے طور پر بعض چینی مصنوعات خام مال کے مہنگا ہونے کی وجہ سے مہنگی بنیں گی۔ نیز یہ کہ امریکی ٹیرف کی وجہ سے یہ مصنوعات مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ 
 پوری دنیا کی خام قومی پیداوار یعنی GDP میں امریکہ اور چین کا مجموعی طور پر 40% حصہ ہے۔ ان دونوں معیشتوں کے ساتھ پوری دنیا کی ساری معیشتیں جڑی ہوئی ہیں۔ جب یہ دونوں معیشتیں ٹیرف کی جنگ کی صورت میں باہم ٹکرائیں گی تو پوری دنیا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی۔ ٹیرف کی جنگ،  خاکم بدھن، دنیا بھر میں مہنگائی اور بے روزگاری کو جنم دے گی، جس کی وجہ سے بد ترین کساد بازاری جنم لے سکتی ہے۔ عالمی سیاستدانوں بشمول سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیا کو اس ہولناک صورتحال سے بچائیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ عالمی سیاسی تنازعات کو بھی کما حقہ حل نہیں کر پاتی مگر عالمی معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ڈبلیو ٹی او سمیت  کوئی دوسرا موثر ادارہ بھی موجود نہ ہونے کی بنیاد پر ہم تجویز دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ کو عالمی نوعیت کے تمام معاشی تنازعات کو حل کرنے کی ذمہ داری و اختیار بھی دے دیا جانا چاہیے۔ 
موجودہ ٹیرف تنازعہ کے سلسلے میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس صورت حال میں جہاں چینی برآمد کنندگان کا امریکی منڈی تک رسائی محدود ہونے کا شدید خدشہ ہے وھاں عالمی سپلائی چین بھی عدم استحکام کا شکار ہوگی۔ نیز عالمی سرمایہ کاری کو تیزی سے کمی یا تغیرات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اگر یہ کشمکش جاری رہی تو دیگر ممالک تک نئی تجارتی راہیں کھلنے کا امکان بھی پیدا ہو گا، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے بہت سے امکانات پیدا ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
اگرچہ دونوں ممالک یعنی امریکہ اور چین اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت الگ الگ ہونے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ان دونوں کیلئے عملاًایسا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ امریکی کمپنیاں چین میں بھاری سرمایہ کاری کر چکی ہیں اور چین بھی جدید ٹیکنالوجی کے لیے ابھی تک مغرب پر جزوی انحصار رکھتا ہے۔ امریکہ کا مالیاتی نظام اب بھی دنیا میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، تاہم چین اپنی کرنسی یوآن کو عالمی سطح پر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ فوری طور پر ڈالر کی برتری ختم ہونے کا امکان نہیں، لیکن دنیا میں "ڈی ڈالرائزیشن" کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ روس، ایران اور دیگر ممالک بھی متبادل مالیاتی نظاموں کی طرف جا رہے ہیں۔ سمجھدار مسلم نوجوان امت مسلمہ کے اتحاد اور ایک کرنسی کے متمنی ہیں۔ بہر حال جلد یا بدیر عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلی نوشتہ دیوار یے۔پاکستان یوآن میں تجارت کو فروغ دے کر امریکی ڈالر پر انحصار کم کر سکتا ہے، جس سے زرِ مبادلہ کے مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ 
چین-امریکہ کشیدگی کے اس دور میں دیگر اکثر ترقی پذیر ممالک، خصوصا ہمارے مسابقتی ملک ویت نام، سے بڑھ پاکستان کے لیے کئی اہم مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک تو چینی سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ دوسرے ویت نام اور چین پر بلند شرح سے ٹیرف لگنے کی وجہ سے پاکستان کو ایک برتری حاصل ہو چکی ہے۔مزید یہ کہ چین، مغربی منڈیوں خصوصا امریکی منڈی کی بندش کے پیش نظر نئی مارکیٹوں کی تلاش میں ہے۔ پاکستان، CPEC کے ذریعے پہلے ہی چینی سرمایہ کاری کا مرکز بن چکا ہے۔ پاکستان صنعتی زونز، زرعی ترقی، اور برآمدی صنعتوں میں چین کے ساتھ نئی شراکت داری قائم کر سکتا ہے۔ پروفیسر احسن اقبال اور دیگر منصوبہ سازوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی کو، جلد از جلد نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کر کے، سرعت کے ساتھ روبہ عمل لائیں۔

مزیدخبریں