ہفتہ، 5 شوال 1443ھ‘ 7 مئی 2022ء
فواد چودھری کو ٹیپو سلطان سے متعلق غلط حقائق پر سبکی‘ ٹویٹ ڈیلیٹ کردی۔
کہتے ہیں جو کام نہ آتا ہو‘ اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے‘ جو بعد میں سبکی کا باعث بنے اور اسے منظر سے ہٹانے یا چھپانے کی نوبت آجائے۔ بتائیں کہاں شیرِ میسور اور کہاں بنگال۔ بنگال میں تو شاید حقیقی شیر بھی دیکھنا میسر نہ ہو۔ جس طرح انہوں نے شیر میسور کا تعلق بنگال سے جوڑا ہے انہیں تو شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ ان کا نام ٹیپو سلطان کس طرح پڑا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ٹیپو سلطان کے والد سلطان حیدر علی ریاستِ میسور کی فوج میں نائک تھے۔ ’’ارکاٹ‘‘ نامی علاقے میں ایک بزرگ حضرت ٹیپو مستان ولی کا مزار مبارک تھا۔ سلطان حیدر علی کے ہاں چونکہ کوئی اولاد نہ تھی‘ اس لئے وہ اپنی والدہ محترمہ مجیدہ بیگم اور زوجہ محترمہ فاطمہ بیگم کے ہمراہ حضرت ٹیپو مستان ولی کی درگاہ پر حاضر ہوئے اور فاتحہ خوانی کے بعد اولادِ نرینہ کیلئے دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے انکی دعا قبول فرمائی اور 20 نومبر 1750ء بمطابق 20 ذوالحج 1163ھ انہیں ایک خوبصورت بیٹا عطا فرمایا۔ سلطان حیدر علی نے صاحبِ مزار سے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے بیٹے کا نام ٹیپو سلطان رکھ دیا جبکہ ان کا دوسرا نام فتح علی تھا۔ تو جناب فواد چودھری صاحب! یہ ہے اصل کہانی جس میں بنگال کا دور دور تک نام و نشان ہی نہیں ہے جس طرح سبکی کے بعد ٹویٹر پر آپ کی ٹویٹ کا نام و نشان نہیں رہا۔ ممکن ہے چودھری صاحب نے کسی ایسے ’’سیانے‘‘ کی ٹویٹ پڑھ لی ہو جس نے شیر میسور کو شیربنگال بنا کر پیش کردیا گیا ہو ااور پھر من و عن بغیر تحقیق کئے اس ٹویٹ کو فارورڈ کر دیا ہو۔ سیانوں نے شاید ایسے ہی واقعات کے بعد کہا ہوگا کہ ’’پہلے سوچو‘ پھر تولو ‘ پھر بولو‘‘۔ جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو منہ میں آتا ہے‘ بول دیتے ہیں‘ بعد میں اسکے سوچنے اور تولنے کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی۔ آجکل ہماری سیاست بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے‘ اسی لئے تو سیاسی میدان میں ایک اودھم برپا ہوا نظر آرہا ہے۔
٭…٭…٭
شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ لانگ مارچ خونی ہو سکتا ہے‘ مقتدر ادارے کردار ادا کریں جبکہ دوسری جانب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شیخ صاحب چونکہ سیاسی میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں اور سیاست کی رمزرمز سے واقف ہیں۔ اگر انہیں ادراک ہے کہ لانگ مارچ خونی مارچ بن سکتا ہے تو انہیں اپنے لیڈر کو ایسے کسی بھی مارچ سے گریز کرنے کا مشورہ دینا چاہیے جو قتل و غارت پر منتج ہو اور جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ 2014ء میں دھرنے کے وقت انہیں کئی سہولتیں میسر تھیں جبکہ اس لانگ مارچ میں انہیں شاید کوئی ہاتھ نہیں پکڑا رہا اسی لئے انہوں نے مقتدر اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اور یہی بات گورنر پنجاب نے بھی آرمی چیف کو بالواسطہ خط لکھ کر مداخلت کرنے کی دہائی دیتے ہوئے کہی ہے جو سراسر آئین و قانون کے منافی ہی نہیں بلکہ آئین سے بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ بڑی ہی مشکل سے نظریۂ ضرورت کو دفن کرکے ماضی جیسے ماورائے آئین اقدامات کے آگے بند باندھا گیا ہے اور ملک میں پائیدار جمہوری نظام کی راہ ہموار کی ہے۔ اب آپ پھر اسی گڑھے مردے کو زندہ کرکے قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف بارہا باور کرا چکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں‘ سیاست دان اپنے معاملات خود نبیڑیں۔ اداروں کو مداخلت کی دعوت دینا جمہوری نظام کو پنپنے نہ دینے کی روش کے علاوہ سیاست دانوں کی نااہلی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگر اداروں نے ہی ملکی حالات سنوارنے ہیں تو پھر سیاسی پارٹیاں کس مرض کی دوا ہیں۔
٭…٭…٭
لوڈشیڈنگ صفر نہ ہوئی‘ 18 گھنٹے بجلی غائب‘ شہریوں کا احتجاج۔ پتوکی‘ سیالکوٹ‘ ڈسکہ میں بھی شہری پریشان۔ عید پر بھی بجلی نہ مل سکی۔
عید سے قبل وزیراعظم نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا سختی سے اعلان کیا تھا کہ یکم مئی سے لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے تو عوام کو امید ہوئی کہ اب یقیناً لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائیگا کیونکہ جن حالات و واقعات کے تناظر میں نئی حکومت وجود میں آئی ہے‘ وہ یقیناً عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کریگی۔ لیکن وزیراعظم کے اعلان کے باوجود لوڈشیڈنگ صفر نہ ہوسکی۔ کچھ وزراء تو اس بات کے داعی ہیں کہ ملک سے لوڈشیڈنگ ختم ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا بجا نظر آتا ہے کیونکہ بجلی کے جانے کی بات چھوڑ کر اسکے باربار آنے کی بات کی جائے تو لوڈشیڈنگ واقعی ختم ہوگئی ہے۔ گرمی میں اضافے کے باعث بجلی کی مانگ میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے جبکہ پیداوار میں نمایاں کمی ہورہی ہے جس کی وجہ کئی پاور پلانٹس کا بند ہونا بھی ہے۔ تو پھر کس بل بوتے پر لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔عوام گرمی سے بلک رہے ہیں‘ بجلی میسر نہیں‘ مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے‘ حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں‘ اگر یہی سب کچھ ہونا ہے تو پھر موجودہ اور سابقہ حکومت میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ بہرحال حکومت کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کا ایک وہی پرانا طریقہ باقی رہ جاتا ہے جس طرح سابقہ ادوار میں کئی منصوبوں کا دوبارہ افتتاح کرکے انہیں تروتازہ کیا جاتا رہا ہے‘ اسی فارمولے کے تحت موجودہ حکومت بھی پرانے منصوبوں کا افتتاح کرکے عوام کو مطمئن کرسکتی ہے‘ کم از کم یہ تسلی تو رہے گی کہ بجلی بننا شروع ہو گئی ہے‘ کبھی نہ کبھی عوام کو مل بھی جائیگی۔
٭…٭…٭
شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ہمیں نظر لگ گئی‘ جو غلط فہمیاں ہوئیں‘ نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔
یہ بات اگر عمران خان کرتے تو سمجھ میں بھی آتی کہ وہ اقتدار کے پہلی بار ’’جھولے‘‘ لے رہے تھے۔ انہیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا جس کی وجہ سے انہیں بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ شیخ صاحب تو اس میدان کے پرانے پاپی ہیں‘ وہ تو سیاست کی اونچ نیچ سے اچھی طرح واقف ہیں پھر غلط فہمیاں اور ناکامیاں کیسی؟ رہی بات نظر لگنے کی تو جناب! بدنظر وہاں کام کرتی ہے جہاں کامیابیاں اور کامرانیاں دن رات آپ کے قدم چوم رہی ہوں اور اپوزیشن حسد کے مارے اپنے ہاتھ مل رہی ہو۔ آپ کے دور حکومت میں تو عوام زندہ درگور ہو چکے تھے‘ مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت ہر سو پھیلتا چلا جارہا تھا جبکہ دعوے محض دعوے ہی تھے جو بلند بانگ تھے۔ اگرشیخ صاحب دعوئوں کو نظر لگنے کی بات کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ نظر لگ گئی ہو۔ بہرحال کم از کم سینئر سیاست دان ہونے کے ناطے شیخ صاحب کے منہ سے یہ بات ہرگز نہیں جچتی کہ جو ہو گیا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اب وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں ،کیا انہیں کرنا چاہیے۔ بعد میں پھر کہتے پھریں گے کہ ’’غلطیاں ہوئیں‘ جن کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔‘‘