جمعۃ المبارک ‘ 24؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 7؍مئی 2021ء
خوشاب کا ضمنی الیکشن ، مسلم لیگ نے اپنی سیٹ پھر جیت لی
چند ہفتوں کے وقفے میں یہ دوسری خوشی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی ہے۔ ابھی تو ڈسکہ ضمنی الیکشن میں جیت کا خمار اترا نہیں تھا کہ اب خوشاب کے ضمنی الیکشن میں جیت کا نیا خمار چڑھنے لگا۔ یہ الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی ہوتا نظر آیا۔ پیپلز پارٹی تو اس الیکشن میں اپنا رہا سہا وقار بھی کھوتی نظر آئی۔ جسے صرف 230 ووٹ ملے۔ اس کے باوجود اگر پیپلز پارٹی والے سمجھتے ہیں کہ وہ پنجاب کا قلعہ فتح کر لیں گے تو اسے صرف ’’مجذوب کی بڑ‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ضمنی الیکشنوں کے نتائج دیکھ کر تو لگتا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی حکومت کی پالیسیوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ روایت تو یہ رہی ہے کہ حکومتی پارٹی ضمنی الیکشنوں میں کامیاب ہونے کیلئے اپنے اچھے کاموں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہے جس کو کیش کرایا جا سکے۔ سچ کہتے ہیں پیٹ خالی ہو تو عقل و دانش کی باتیں بھی بری اور بیکار لگتی ہیں۔ اب اس کامیابی سے تو مسلم لیگ (ن) والوں کو لگتا ہو گا کہ پنجاب آج بھی ان کا ہے۔ وہ اس کو پھر جیت لیں گے مگرکیا حکومت اس کی ہے۔ وہ تو چند بندے توڑ نہیں سکی۔ الٹا کئی مسلم لیگی آئے روز کبھی وزیر اعلیٰ سے کبھی گورنر پنجاب سے ملاقات کر کے دکھ سکھ بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے شہباز شریف کو اس سہمے ہوئے شیر کو اٹھانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا جو رنگ ماسٹر کے چابک سے دبک کر کونے میں جا بیٹھا ہے۔
٭٭٭٭٭
برکی میں ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے والی پولیس ٹیم پر شہریوں کا تشدد
اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم قانون پر عملدرآمد کرانے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ سڑکوں پر پولیس یا وارڈنز دیکھتے ہوئے بھی ابھی تک ہیلمٹ کی پابندی کرانے میں مکمل کامیاب نظر نہیں آتے۔ اگر سب کو روکا جائے۔ پکڑا جائے تو کسی میں ہمت نہیں ہو گی۔ اس وقت کرونا ویسے ہی دنیا کی آبادی کم کرنے کے مشن پر نکلا ہوا ہے۔ آبادی کنٹرول کرنے والے تمام پروگرام ناکام سہی مگر کرونا کی شکل میں آبادی کم کرنے کا قدرتی ہتھیار اطمینان سے اپنا کام کر رہا ہے۔ ہم اس سے بچائو کے اقدامات پر عمل نہ کر کے اس کا کام آسان بنا رہے ہیں۔ جب ہم خود کرونا سے بچائو کے اقدامات پر عمل نہیں کرتے تو پھر بیماری کی صورت میں مگرمچھ کے آنسو کیوں بہاتے ہیں۔ اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب ثابت قدمی اور سختی کے ساتھ لوگوں کو قابو کرنا ہو گا کیونکہ ان کو بچانے کے لیے ایسا کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں نا …؎
اب چاہے سر پھوٹے یا ماتھا
میں نے تیری بانہہ پکڑ لی
سو اب ایسے عناصر کی بانہہ پکڑنا ہو گی جو سرکاری کارندوں پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ، کمزوری دکھائی گئی تو پھر حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل اور سخت لاک ڈائون لگانا پڑے گا۔ جس کے نتائج سے ہم سب باخبر ہیں۔ پھر کوئی بھوک سے مرے یا بیماری سے کوئی بھی انہیں بچا نہیں سکے گا۔ عوام خود بھی ایس او پیز پر عمل کریں اور سرکاری اداروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔
٭٭٭٭٭
کشمیر کمیٹی کا نام تبدیل کر کے کشمیر و فلسطین کمیٹی رکھا جائے۔ پیپلز پارٹی
کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آ جاتے ہیں
اپنے اپنے غم کے فسانے ہمیں سنانے آ جاتے ہیں
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے راجیو گاندھی کی آمد پر اسلام آباد کی سڑکوں سے کشمیر کمیٹی کے بورڈز تک اتروا دئیے تھے کہ کہیں ان کی نگاہ ناز پر گراں نہ گزرے۔ پھر یہ مہربانی بھی انہی کی ہے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو ایسا کشمیر کمیٹی کا چسکہ ڈالا کہ وہ کسی قیمت پر کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے دستبردار ہونے کو تیار ہی نہ ہوتے تھے۔ اس کا صلہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں کہ کشمیر کمیٹی نے وہی کام کبھی نہ کیا جس کے لیے یہ کمیٹی بنی تھی۔ یہ ایک ایسی کمیٹی ہے جس کی سربراہی کا عہدہ سیاسی رشوت کے طور پر دیا جاتا رہا ہے۔ مراعات ، گاڑی ، بنگلہ اور بس کچھ نہیں کرنا۔ ہاں نعرہ ضرور لگانا ہے ’’کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے‘‘ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی ہی کشمیر ہے اور وہ ساری ہمارے پاس ہے۔ اب موجودہ حکومت نے آتے ہی کشمیر پر چوکے چھکے مارتے ہوئے کشمیر کمیٹی کا سربراہ فخر امام کو بنا دیا ہے۔ اسے ہم سونے پر سہاگہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی مسئلہ کشمیر سے وابستگی اس سلسلے میں کام کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر نہیں بس وہی پرانی سیاسی رشوت والی پالیسی کے مطابق دی جاتی ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ نیا شوشا نجانے کیا سوچ کر چھوڑا ہے۔ ہم سے تو کشمیر نہیں سنبھلتا یہ فلسطین کو کمیٹی میں شامل کر کے ہم کونسا تیر مار لیں گے۔ کہاں کی رباعی کہاں کی غزل۔ اگر فلسطین پر کمیٹی بنانی ہے تو بنائیں شوق سے بنائیں مگر اسے مسئلہ کشمیر کے ساتھ خلط ملط نہ کریں۔ فلسطین ویسے بھی بھارت کا بہت اچھا دوست ہے کہیں یہ فلسطین کو کمیٹی میں داخل کر کے کشمیر کو کمیٹی سے نکالنے کی سازش تو نہیں ہو رہی۔
٭٭٭٭٭
ماموں کانجن میں بوڑھی خاتون رمضان بازار میں چینی کا انتظار کرتے سو گئی
پہلے ہی غریبوں کے مقدر سو چکے تھے اب غریب خود بھی کبھی دیہاڑی کے انتظار میں فٹ پاتھ پر لگے کسی درخت کے نیچے یا پھر چینی کی خریداری کی لمبی لائن میں تھک کر فرش یا صوفے پر سوئے نظر آتے ہیں۔ اگر ان کے بخت جاگ رہے ہوتے تو وہ یوں سوئے نظر نہ آئے۔ بخت آور لوگوں کی طرح آرام دہ بیڈ پر سو رہے ہوتے۔ ہمارے حکمران کبھی گرمیوں کی دوپہر میں ذرا اے سی والے کمروں سے باہر نکل کر سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر درختوں کی چھائوں میں یا پارکوں میں سوئے لوگوں کی خبر لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بخت بھی سوئے ہیں اور وہ خود بھی۔ ایسے ہی لوگوں کے دن بدلنے کے لیے حکمرانوں کو تخت پر بٹھایا جاتا ہے۔ مگر افسوس یہ مراعات یافتہ لوگ ان بدنصیب لوگوں کے نصیب جگانے کی بجائے اپنی حالت بدلنے پر توجہ دیتے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی چینی کی خریداری کے لیے آئی اس بزرگ خاتون کی جو چینی کا انتظار کرتے ہوئے رمضان بازار میں لگے صوفے پر ہی سو گئی۔ اس وقت ایک طرف حکومت بڑے جاہ جلال کے ساتھ سرکاری ریٹ پر مارکیٹ میں اور ستے ریٹ پر رمضان بازاروں اور یوٹیلٹی سٹورز میں چینی کی فراہمی کے دعوے کر رہی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کی کھال کھینچنے کے اعلانات کر رہی ہے۔ دوسری طرف منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیا حکومت کے سامنے سینہ تان کر دیدہ دلیری سے من مانے ریٹ پر چینی فروخت کر رہا ہے۔ یہ رمضان بازار اور یوٹیلٹی سٹورز صرف شہروں میں بہار دکھاتے ہیں۔ 70 فیصد آبادی جو دیہات میں رہتی ہے وہاں یہ نعمتیں دستیاب نہیں۔ اس لیے جب تک مارکیٹ میں پرچون کی دکانوں پر چینی و دیگر اشیاء سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہوں گے لمبی لائنوں میں لگے لوگ ان کے انتظار میں تھک ہار کر سوتے ہی نظر آئیں گے۔
٭٭٭٭٭