امریکہ انخلاء سے پہلے مناسب سیاسی سیٹ اپ تشکیل دینے کی کوشش کرے
افغان سرحد پر دہشتگردی‘ افغان امن عمل اور امریکی انخلاء کیخلاف سازش
ضلع ژوب کے مانزکئی سیکٹر میں پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے حملے میں ایف سی کے 4 جوان شہید اور 6 زخمی ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گردوں نے باڑ لگانے والی ایف سی کی ٹیم پر فائرنگ کی۔ شہید ہونیوالوں میں حوالدار نور زمان، سپاہی شکیل عباسی، سپاہی احسان اللہ اور نائیک سلطان شامل ہیں۔ ادھر سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے دوسلی میں خفیہ اطلاعات پر اپریشن کیا جس میں دو دہشت گرد ہلاک کردیئے گئے جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں کیپٹن فہیم‘ سپاہی شفیع اور سپاہی نسیم شہید ہوگئے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد پاک فوج کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام ہر صورت مکمل کیا جائیگا۔
وزیرستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں اور موقع ملتے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں دہشت گردانہ لہر کا حصہ ہیں جس کی طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حوالہ دیتے ہوئے اسکے پس پردہ بھارت کا ہاتھ قرار دیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف کشمیریوں کی مزاحمت اور جوابی کارروائیاں تیز ہوتی ہیں تو بھارت کی طرف سے پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کی سازشوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ مودی اور انکے قومی سلامتی کے مشیر اجیب دوول مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی میں مہمیز کو پاکستان کی پشت پناہی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کا بدلہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں چکانے کا اپنے اپنے طور پر واضح عندیہ دے چکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ بھارت کے پاکستان میں موجود سلیپنگ سیل پھر سے متحرک ہو رہے ہیں۔ بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے افغان سرزمین بھی استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کیلئے افغان امن عمل روح فرسااور جان کنی کے مترادف ہے۔ اسے اپنی سازشوں کی راہ میں بارڈر مینجمنٹ ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دیتی ہے۔ اسی کے ایماء پر اشرف غنی انتظامیہ کٹھ پتلی اور طفیلی کا کردار ادا کرتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے۔ باڑ لگانے والے فوجیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں جن میں کئی جوان اور افسر شہید ہو چکے ہیں۔ امریکہ طالبان امن معاہدے کی افغان حکومت کی طرف سے مخالفت بھی بھارت ہی کی انگیخت پر کی گئی۔ آج بھی افغانستان میں موجود بھارت کے قونصلیٹ دہشت گردوں کی تربیت گاہوں کا کام کررہے ہیں۔ ضرب عضب کے دوران پاکستان سے راہِ فرار اختیار کرنیوالے دہشت گرد بھارت کے پے رول پر ہیں۔ یہ چور راستوں اور ان علاقوں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جہاں ابھی باڑ زیر تنصیب ہے۔ وہاں آئے دہشت گرد موجود دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے اور ہر دو کو سہولت کاروں کی بھی مدد حاصل ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے قلع قمع کیلئے پاک افغان سرحد مکمل طور پر سیل کرنے کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں کیخلاف سخت اقدامات کرنا ہونگے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں‘ اسکے بعد وہ زیرزمین چلے گئے‘ ان کو افغان مہاجرین کے کیمپوں اور انکی بستیوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان انکی واپسی پر زور دیتا رہا ہے۔ مگر آج ایک اور ایسے مہاجرین کے ریلے کاپڑوسی ممالک میں آنے کا خدشہ ہے۔ امریکہ کی طرف سے انخلاء میں بلاجواز تاخیر کی گئی اور وہ کوئی مناسب سیٹ اپ تشکیل کئے بغیر انخلاء کر رہا ہے۔ جس سے خانہ جنگی کی فضا استوار ہو رہی ہے۔ افغان فوج امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کی صورت کو کنٹرول میں رکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ یہ ایک بار پھر ہتھیاروں سمیت طالبان کے ساتھ مل سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو افغان سرزمین ایک بار پھر خوں رنگ ہو سکتی ہے۔
افغان سرحد پر چوکی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں پاک فوج کے چار سپوت شہید ہوئے۔ اس واقعہ کو افغان امن عمل اور امریکی فوج کے انخلاء کے تناظر میں ہی دیکھا جائیگا۔ ایسے حملے کرانے والی وہی قوتیں ہیں جو سٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ اس حوالے سے بھارت افغان انتظامیہ گٹھ جوڑ سرگرم عمل ہے۔ افغان حکومت امریکہ طالبان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے سرگرم رہی۔ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جس میں ناکامی پرامن معاہدے کے تحت انٹرا افغان مذاکرات سے راہ فرار اختیار کی۔ امریکی افواج کے انخلاء کو روکنے کی درخواست اور حکومتی مفادات پر حملوں کی ڈرامہ بازی بھی کی گئی۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ دو روز قبل بھی سامنے آیا۔ سرکاری افغان میڈیا کے ذریعے ایک خبر جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ امریکی اور اتحادی فوجیوں کا انخلاء شروع ہوتے ہی افغانسان کے مختلف صوبوں میں طالبان کے حملوں میں تیزی آگئی۔ 24 گھنٹے کے دوران طالبان نے مختلف صوبوں زابل‘ قندھار‘ ننگرہار‘ بدخشاں اور تخار میں حملے کئے۔ طالبان کے حملوں میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکہ کی طرف سے افغانستان سے انخلاء کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔ افغان انتظامیہ ہر صورت امریکی فوج کی موجودگی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکی فوج وہ طوطا ہے جس میں اشرف غنی کے اقتدار کی جان ہے۔ بھارت اس سازش میں افغان حکمرانوں کے شانہ بشانہ ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد حالات مزید دگرگوں ہوتے نظر آرہے ہیں۔ طالبان امن کے قیام اور امریکی افواج کے پرامن انخلاء کا یقین دلا چکے ہیں۔ امریکہ کے پاس اب بھی وقت ہے پائیدار امن کیلئے مناسب سیاسی سیٹ اپ ترتیب دینے کی کوشش کرے۔ امریکہ جمہوریت کا علمبردار ہے اسکی طرف سے انتخابات کراکے معاملات جیتنے والوں کے حوالے کر دیئے جانے چاہئیں تھے۔