یہ تو حقیقت ہے کہ جب تک وطن عزیز کے سیاست دان، چاہے حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، انکے ماتحت ادارے ، ملک سے باہر تعینات حکومتی عہدیدار، پاکستان کے عوام ، پاکستان سے باہر مشہور معروف ـ’’سمندر پار پاکستانی‘‘جب تک اپنے معاملات کے حل میں سنجیدگی اختیار نہیں کرینگے اسوقت تک ہم دنیا میں ایک تماشہ بنے رہیں گے ۔ ہم نہ خوشی میں اپنے اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہیں اور نہ کسی ناگہانی آفت میں ، خوشی کے لمحات تو75سال میں کم ہی آئے ہیں ، جنہیں گننے کیلئے اپنی یاد داشت کو ٹٹولنا پڑے گا ۔ حالیہ وباء جو ہمارے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے ۔ صبح لاک ڈائون لگا تے ہیں دوپہر کو اسلئے کھول دیتے ہیں کہ لوگ بھوک سے مر جائینگے ۔ پھر دوسری صبح طے کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ ذرا سخت لاک ڈائون کرینگے۔ دو گھنٹے بعد ہی فرمان شاہی آتا ہے کہ سخت لاک ڈائون ممکن نہیں ۔
یہ سب اس وقت ہی ہوتا ہے جب ہمارے اندر معاملات حل کرنے کی صلاحیت نہیںہوتی اور اسے عرف عام میں ’’ہاتھ پیر پھول جانا ‘‘ کہتے ہیں، وزیر اعظم نے غریبوں کی بھوک ، روز کی روزی کمانے والے لوگوں کی پریشانی کا خیال کرتے ہوئے ملکی معیشت کی اس خستہ حالی میں اربوں روپیہ تقسیم کرادیا ۔ عوام نے بارہ ہزار روپیہ لیتے ہوئے social distance کا وہ مظاہرہ کیا جو دنیا نے دیکھا۔ معلوم ہورہا تھا کہ عیدی بٹ رہی ہے ، رش میں خواتین بے ہوش بھی ہورہی تھیں، کرپشن ہمارے نظام کا حصہ بن چکی ہے اسلئے یہ بھی خبریں آئیں کہ بارہ ہزار دیتے ہوئے رشوت بھی کہیں لی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ اس وباء کے بعد بیرون ملک سے واپس آرہے ہیں انہیں بھی اہلکار دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اسکی بھی بڑی دردناک اور شرم انگیز کہانیاں سامنے آئیں ۔
مزید شکوک و شبہات ہماری اعلی ترین عدالت کے چیف جسٹس بھی بیان کررہے ہیں۔ بغیر حساب کتاب کے ہو کیا رہا ہے ؟ ممبران اسمبلی چاہے وہ کسی بھی جماعت کے ہوں انہوںنے شاید کرونا کے خوف سے تنہائی اختیار کرلی ہے اسلئے وزیر اعظم کو عوام سے رابطہ کرنے اور مدد کرنے کیلئے ’’ٹائیگر فورس ‘‘ بنانی پڑی ، ممبران اسمبلی صرف اور صرف ووٹ لینے ہی گھر گھر جاتے ،اس کے جنازے ، شادی ،دیگر تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اب چونکہ وہ جیت کر اپنا مسئلہ حل کرچکے ہیں اسلئے اب عوام جائیں ’’بھاڑ ‘‘میں۔ اگر وزیر اعظم رقم تقسیم کرنے کی ذمہ داری انہیں د ے دیتے تو ایک بڑی تعداد بے روزگاروںکی بغیر رقم لئے انگوٹھے لگا چکی ہوتی ۔کروناء وبا ء کے بعد میںنے گزشتہ ہفتے تحریر کیا تھا کہ پاکستان قونصلیٹ ، سفارت خانہ کے ویلفیئر شعبے یہاں ضرورت مندوںکو کھانا پہنچا رہے ہیں مگر چونکہ نہ ہی قونصل خانوںاور نہ ہی سفارتخانوںمیں کوئی ایسا فنڈہے جس سے اجناس تقسیم کی جائیں۔
ہمارے پاکستانی مخیر حضرات اس سلسلے میں ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوںکہ یہ ایک نہائت ثواب کا کام ہے میرے گزشتہ آرٹیکل کے بعد مجھے کئی درد مندوںنے فون کیئے اور دریافت کیا کہ جو ضرورت مند ہیں انکی نشاندہی کریں وہ انکے لئے اجناس مہیا کرینگے ۔ میں شکر گزار ہوں پاکستانی نژاد سعودی ملک طارق ، عبدالکریم کھوسہ، اور چند دوسرے افراد کا جنہوںنام ظاہر کرنے کی سخت ممانعت کی ، نیز پاکستان قونصلیٹ کے محنتی قونصلر ویلفیئر ماجد میمن کا جنہوںنے جمعہ کی چھٹی میں بھی قونصلیٹ آکر چاول ودیگر اشیاء تقسیم کیں۔وزیر اعظم کے حکم پر ان کے مشیر اوورسیز زلفی بخاری نے سعودی عرب میں ریاض ، دمام اور جدہ کے چند پاکستانیوں سے ویڈیو سیشن کیا ۔ جسے conduct کررہے تھے پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم سازی کے افسر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ جو نہ صرف سعودی عرب بلکہ خلجی ممالک میں تنظیم سازی کے بعد نہایت متنازعہ شخص بن چکے ہیں اور انکے اقدامات سے اب یہاں تحریک انصاف کئی گروپوںمیں تقسیم ہوچکی ہے ، انہوں نے شائد ہدائت جاری کی اور دمام ، جدہ ، ریاض میں تحریک انصاف کے عبداللہ ریاڑ کے مقرر کردہ عہدیداروںکی اکثریت کو ویڈیوسیشن میں بلایا گیا جبکہ اسے کمیونٹی سے ویڈیو کانفرنس کانام دیا گیا ۔ تحریک انصاف کے ہی سہی مگر وہ کمیونٹی کا حصہ تو ہیں مگر اسطرح کانفرنس منعقدکرنے والوںکو شفافیت کا خیال رکھنا چاہئے، سب سے سنگین مسئلہ سعودی عرب میں پاکستانی سکولوںکی فیس کا تھاجس پر سوال تو نہ ہوا مگر یہ مسئلہ ایک مہربان نے زلفی بخاری کو پہلے ہی پہنچا دیا تھا جس پر کانفرنس کے آخر میں زلفی بخاری نے اظہار خیال کیا اور سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز اور جدہ میں قونصل جنرل کو یہ ذمہ داری دی کہ سکولوں کی فیسوں کے حوالے سے کوئی طریقہ کار بنائیں، سفیر پاکستان چونکہ سعودی وزارت تعلیم کے فیصلے کے مطابق پاکستانی سکولوںکے پیٹرن انچیف ہیں اسلئے یہ بھاری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے چونکہ جہاںجہاںپاکستانی سکول ہیں، طلبہء و طالبات کے والدین موجودہ صورتحال میں سعودی عرب میں بہت سی جگہوں پر اب یا تنخواہ نہیںمل رہی ادارے بند ہیں یا پھر تنخواہیں پچاس فیصد تک کم کردی گئیں ایسے میں فیسوںکی ادائیگی ممکن نہیں ہوسکتی۔ شنید ہے کہ سفیر پاکستان نے زلفی بخاری کے مشورے پر متعلقہ سکولوں کو تحریر کردیا ہے کہ وہ کوئی طریقہ کار وضع کرکے انہیں آگاہ کریں۔ اسوقت سعودی عرب میں سفارت خانے کے زیر سایہ سات سکولز ہیں ۔ جو بغیر نقصان و فائدہ کے چل رہے ہیں ۔ ماسوائے دو انگریزی سکولوںکے جن میں ایک ریاض اور ایک جدہ میں ہے وہاں فیسیں زیادہ ہیں اسلئے بچت بھی ہے ۔
سب سے قابل تحسین اقدام ریاض میںپاکستانی سفارت خانہ سکول انگریزی سیکشن نے کیا انہوںنے مئی اور جون کی ٹیوشن فیس پچاس فیصد کم کردی ہے ۔ سکول پرنسپل تنویر قابل مبارکباد ہیں ، دوسرا سکول جدہ میں انگریزی سیکشن ہے جہاںکے پرنسپل عدنان ناصر بھی شنید ہے کہ کوئی طریقہ کار وضع کررہے ہیں مگر ریاض سکول کی طرح ممکن نہیں باقی۔ دیگر سکولوںنے مصدقہ اطلاعات ہیں جواب دے دیا ہے کہ انکے لئے ہرگز فیسوں میںکمی ممکن نہیں ،اگر انہیں فنڈز دیئے جائیں توہ وہ عمل درآمد کرسکتے ہیں، سکول آن لائن تعلیم دے رہے ہیں جسکی علیحدہ فیس لی جارہی ہے ریاض میں ناصریہ سکول کی انتظامیہ نے ان بچوں کے نام آن لائین سے بھی نکال دیئے ہیں جنہوں نے فیسیں نہیں دی ہیں۔ جدہ کا عزیزہ سکول جلد پالیسی کا اعلان کررہا ہے وہاں کا بورڈ بہت سنجیدگی اور مثبت انداز میں اسکے لئے کام کررہا ہے ، طائف کے پاکستانی سکول کی انتظامیہ نے ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق چالیس فیصد کم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ سکول بند ہیں ، ان میں بجلی، پیٹرول اور روز مرہ کے خرچے تو بند ہیں جو آمدنی ہی ہے ۔ جن سکولوں میں پرنسپل بہت اعلیٰ تنخواہوں پر ہیں انہیں بھی ضرورت ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اپنی تنخواہیں اور مراعات بھی کم کرلیں۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38