عمران خان ہر تقریب میں اپوزیشن کو للکارتے ہیں۔ ’’خان کالا کالا ایک نہیں چھوڑے گا۔‘‘ کالے سے مراد کرپٹ ہیں۔ ’’کان کھول کر سُن لو‘‘! کچھ یوں لگتا ہے کہ یا تو مخالف فریق بہرہ ہے یا پھر خان صاحب کی آواز ان تک نہیں پہنچنے پا رہی۔ تقریر میں جذبات کی رو میں بہہ کر دو متضاد باتیں بھی کر جاتے ہیں۔ اولاً تمام مقدمات نیب نے بنائے ہیں اور انکے دور میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ دوم کچھ ایسا تاثر اُبھرتا ہے کہ نیب ایک آزاد اور خودمختار ادارہ نہیں بلکہ انکے تابع ہے جبھی تو مخالفین کا بازو مروڑا جا رہا ہے۔ اب صورتِحال کچھ اس طرح کی ہو رہی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مخالف پارٹیاں یکجا ہو رہی ہیں۔ دو چیزیں مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں۔ مشترکہ دشمن ا ورمشترکہ مفاد۔ اپوزیشن کو احساس ہو گیا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے کی باری ہے۔ جبھی تو عزیزی بلاول میاں نواز شریف کی بیمار پُرسی کیلئے کوٹ لکھپت جیل پہنچ گیا ۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی سیاسی گاڑی کو بھی تحریک والے وقتاً فوقتاً ڈیزل پہنچانے دیتے ہیں۔ زچ ہو کر مولانا صاحب نے بھی ملین مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا سراج الحق بھی ایک تسلسل اور تواتر سے بول رہے ہیں۔ حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ گو عام طور پر تو انکے فرمودات (COMIC RELEIF) پہنچاتے ہیں لیکن معروضی حالات میں وہ خاصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ANP والے الگ سے ناراض ہیں۔ کوئی پنجابی سرحد کی سیاست پر قابض ہو جائے یہ انہیں ہرگز گوارا نہیں ہے…جنوبی پنجاب سے کیا ہوا وعدہ بھی ایک سلگتی ہوئی چنگاری کی مانند ہے۔ یہ کسی وقت بھی بھڑک کر شعلہ جوالا بن سکتی ہے۔ صوبے کی جانب مثبت پیش رفت اس لیے نہیں ہو سکتی کیونکہ اہل جنوب ایک نہیں دو صوبے چاہتے ہیں۔ یہ بھڑوں کا چھتہ ہے۔ اس پر ہاتھ ڈالنا خطرے سے خالی نہیں۔ ن لیگ والوں نے تحریک انصاف کا بھرم کھولنے کیلئے دو صوبوں کی قرارداد جمع کروائی ہے۔ فی الحال وہ مصلحتاً چُپ ہیں۔ جب بھی ہمہ مقتدر قوتوں کا پریشر کم ہوا وہ اس شرارت کو شر میں بدل دینگے۔ مقصد دو صوبے بنانا نہیں بلکہ حکومت کو پریشان کرنا ہو گا۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا مزاج ہے۔ جس طرح غالب نے کہا تھا۔ ؎
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیان کیلئے
اسی طرح خان صاحب کو اپنی مرضی کی حکومت کرنے کے لیے دوتہائی اکثریت چاہئے تاکہ یہ ایسے قوانین بنا سکیں جس سے کرپٹ لوگوں اور مخالفین کا تیا پانچہ ہو سکے۔ انہیں احتساب کی چکی میں پیسا جا سکے اور چھلنی میں چھن سکیں، اپنے وزیروں کو ناقص کارکردگی پر اسی طرح نکال سکیں جس طرح وہ کرکٹ ٹیم سے کھلاڑیوں کو نکالتے تھے۔ انکی گوشمالی کرتے تھے اور بسااوقات ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دیا کرتے تھے۔ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جو لب و لہجہ انہوں نے اس وقت اختیار کیا تھا وہ ہنوز قائم ہے۔ اس وقت بھی تقریر ’’میں‘‘ سے شروع کی تھی، آج بھی بات ’’میں‘‘ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ ’’اپوزیشن کان کھول کر سُن لے، میں کرپٹ لوگوں کوجیل میں ڈالوں گا، انہیں کسی طور نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ حالانکہ یہ بھی کہا جا سکتا تھا ، قانون کے ہاتھ لمبے ہیں ، کوئی شخص بھی اسکی گرفت سے نہیں بچ پائے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انکے پاس عددی اکثریت (PENCIL THIN) ہے جس طرح یہ حاصل ہوئی ہے اس کاالزام اپوزیشن والے ہر روز لگاتے ہیں۔ انہیں ’’سلیکٹ وزیر اعظم‘‘ کہتے ہیں۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ایم ۔ کیو ۔ ایم مینگل گروپ یا باامر مجبوری (ق) لیگ والے ساتھ نہ چھوڑ جائیں۔ اس صورت میں حکومت گر سکتی ہے۔ گو اس کا امکان کم ہے۔ اسکی وجہ بہتر حکمتِ عملی نہیں بلکہ کچھ اورہے۔ وجہ بیان کرتے ہوئے بھی مبصرین اس طرح بدکتے ہیں جس طرح بید مجنوں کی شاخ ہوا کے جھونکوں سے لرزتی ہے۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ خان صاحب نے وہ حکمتِ عملی کیوں اختیار نہیں کی جس کی وجہ سے شہباز شریف اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی پانچ سال نکال گیا۔فارورڈ بلاک! ن لیگ کی فصیل میں دراڑیں ڈالنا! یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ گھوڑوں کو ہمیشہ راتب اور سبز چراگاہوں کی تلاش رہتی ہے۔ اس کیلئے صرف ’’اِسٹک‘‘ سے کام نہیں چل سکتا ساتھ گاجروں کی پیشکش بھی ضروری ہے۔ غلام محمد گورنر جنرل نے سہروردی کو دفتر میں بلایا اور بولا۔ ’’تم نے حکومت کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میں تمہیں تین چیزوں کی پیشکش کر رہا ہوں۔ تمہیں ایک نہ ایک قبول کرنا ہو گی۔ وزارت ، سفارت یا پھر جیل ۔
خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایماندار شخص ہیں۔ گاجر نہیں دے سکتے۔ ویسے بھی سابقہ حکومت ان کا ذخیرہ ختم کر کے گئی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو چونکہ اپنی شکست کا یقین تھا اس لیے وہ اور ڈار جاتے جاتے قرضوں کا ایک انبار لگا گئے ہیں۔ ایمنسٹی کی شکل میں اپنی پارٹی کے بڑوں کو نواز گیا ہے۔ کراچی کے تاجر ا کے ہاتھ دھو دھو کر پی رہے ہیں۔ دو فیصد پر چھوٹ، وہ بھی صرف اپنوں کیلئے گردشی قرضے کو کہاں سے کہاں پہنچا گیا ہے۔ جس طرح روسی پسپا ہوتے ہوئے تمام شہروں کو جلا گئے تھے۔ خوراک ختم کر گئے تھے کچھ اسی قسم کی پالیسی اس شخص نے اختیار کی۔اسکے بچھائے ہوئے کانٹے حکومت کو آنکھوں سے چننے پڑ رہے ہیں ، لیکن حقیقت صرف وہ نہیں ہوتی جو ہے بلکہ وہ ہے جس کوعوام ایسا سمجھیں۔ محض حقائق پیش کرنے سے یا ’’الزام تراشی‘‘ سے حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ یہ کہہ دینا کہ بجلی ، گیس، پٹرول اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں اس لیے بڑھائی جا رہی ہیں کہ سابقہ حکومت خزانہ خالی کر گئی ہے، کافی نہیں ہے۔ اس دلیل کا مخالفین کے پاس مئوثر توڑ ہے مثلاً اگر خزانہ خالی تھا تو آپ نے حکومت کیوں بنائی؟ اُنہیں عوامی غیض و غضب کا شکار ہونے دیتے! اگر سابقہ دو حکومتوں نے دس سال تک اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہیں بڑھائیں تو آپ نے ایساکیوں نہیں کیا؟
اب ہو گا کیا؟ حکومتی اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت بنتے ہی سارے ملک میں خوشی کے شادیانے بجنا شروع ہو جائیں گے! بہارو، پھول برسائو، میرا محبوب آیا ہے! پہلے لوگ اس لیے ٹیکس نہیں دیتے تھے کیونکہ انہیں کرپٹ حکومت پر اعتماد نہیں تھا۔ اب جبکہ انہیں یقین ہے کہ ’نیا دور‘ شروع ہو گیا ہے تو وہ دیوانہ وار خزانہ بھر دیں گے۔ ٹیکس کی مد میں چار ہزار سے رقم آٹھ ہزار ارب تک پہنچ جائے گی۔ لوگ باہر سے سرمایہ ملک میں لے آئیں گے۔ چُھپائے ہوئے خزانے طشت ازبام کردیں گے…مگر یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے ایک تلخ حقیقت سامنے آئی ہے۔ لوگ پہلے ٹیکس اس لیے دیتے تھے اور اب بھی اس لیے نہیں دے رہے کیونکہ وہ دینا نہیں چاہتے! اپنی جیب کو ہوا نہیں لگنے دیتے جو کوئی ’’غلطی‘‘ سے ایسا کرے تو اس کا جینا محکمہ حرام کردیتا ہے …؎
دام ہر موج میں ہے حلقہِ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ۔