حالات و واقعات کچھ اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ عام فہم آدمی کو اس کا ادراک بھی نہیں ہو سکتا۔ گذشتہ دنوں وفاقی کابینہ میں آدھ درجن وفاقی وزراء کے محکموں کو تبدیل کیا گیا کچھ کو فارغ کر دیا گیا، کچھ نئے غیر منتخب شدہ مشیروں کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔ گذشتہ روز سی بی آر اور سٹیٹ بینک کے سربراہوں کو سبکدوش کر دیا گیا اور وزیراعظم نے پنجاب کے اینٹی کرپشن کے ڈائریکٹر جنرل کو خود بلا کر الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر انہوں نے ٹارگٹ کے مطابق آٹھ سو کے قریب کرپٹ بیوروکریٹس ، سیاستدانوں اور سرکاری و غیرسرکاری ملازمین پر ہاتھ نہ ڈالا تو وہ بھی خود کو سبکدوش ہی سمجھیں۔
قارئین! اہداف کے تعاقب میں سرگرداں ہمارے وزیراعظم کو قدم قدم پر ملکی اور بین الاقوامی مافیا کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور پاکستان کے کرپٹ ترین مافیا نے دولت کے بَل بوتے پر یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے غیر فطری مفادات کا تحفظ کریں گے۔ ایک اطلاع اور سروے کے مطابق سابق صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری کے ملکی اور غیر ملکی اثاثہ جات کی ویلیو ساٹھ ارب ڈالرز سے زائد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ایک سو بیاسی اراکین اسمبلی کی حمایت سے حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے تو ہر رکن قومی اسمبلی کو اوسطاً بیس کروڑ روپے کے غیر فطری سودے پر خریدا جا سکتا ہے۔ اس طرح دو سو ساٹھ ملین ڈالرز یعنی چھتیس ارب چالیس کروڑ روپوں میں اپنی مرضی کی وفاقی پارلیمنٹ تشکیل دی جا سکتی ہے جبکہ پاکستان کے پانچ بڑے خاندانوں اور بزنس آئی کون زرداری فیملی، شریف برادران ،اومنی گروپ، میاں منشا گروپ اور ملک ریاض کے پاس مجموعی دولت اور اثاثہ جات کی مالیت دو لاکھ ارب روپے سے زیادہ ہے اور اسی دولت کے بَل بوتے پر پچھلے نو ماہ سے یہ خانوادے خود عمران خان کی وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اندر نقب لگا چکے ہیں ، اسی چمک کے بَل بوتے پر عدل کو اپنی مرضی کے تابع لاچکے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان کو اس مادی دولت کے پہاڑوں کے مقابلے میں صرف عوام کے ایک مخصوص گروپ اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اس مافیا نے پاک بھارت جنگ شروع کروانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی مگر پاک فوج کے تیور دیکھتے ہوئے امریکی پینٹاگون نے یک دم اپنا پینترا بدلا اور بھارت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ میں یہاں پر اپنے قارئین کو یہ اطلاع دینا بھی اپنا فرض سمجھتاہوں کہ وزیراعظم عمران خان کے دورئہ ایران کے نتائج نے خطے کی سیاست کے رخ موڑ دیئے وگرنہ شواہد موجود تھے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے رفقا سندھ کارڈ کے علاوہ مسلکی کارڈ بھی کھیل چکے تھے مگر ایران کی دیدہ ور مذہبی قیادت کو ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر نے جب چند ہوشربا ثبوت پیش کیے تو ایرانی قیادت نے ہمار ے کرپٹ مافیا کے ساتھ ملے ہوئے اپنے فوجی سربراہ کو فوری طور پر سبکدوش کر دیا جبکہ پاکستانی حکومت اور آرمی کو اس دورے کے نتائج سے ایک طرف تو پاکستان کے کرپٹ مافیا اور دوسری طرف بھارت کا ایران کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے مشن سے پیچھے ہٹانا مقصود تھا جس میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔
قارئین! سپریم کورٹ سے نظرثانی درخواست مسترد ہونے پر یہ بات تو اب طے ہے کہ آج 7مئی کو جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو میاں نوازشریف صاحب کے رفقاء اور ساتھی بڑی دھوم دھام سے جیل واپس پہنچانے میں مصروف ہوں گے۔ جیسے ہی میاں نوازشریف کو خبر ملی کہ چھوٹے میاں شہبازشریف نے لندن قیام میں اضافہ کر لیا ہے یعنی وہ پتا جو میاں نوازشریف خود کھیلنا چاہتے تھے وہ کارڈ اب میاں شہبازشریف نے کھیل لیا ہے مگر اسکے جواب میں میاں نوازشریف نے فوری طور پر عرصۂ دراز سے مسلم لیگ ن کی جو تنظیم سازی ادھوری پڑی تھی اس کو عجلت میں مکمل کیا ہے اور تنظیم سازی کی لسٹ یہ بتاتی ہے کہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے قریبی ساتھیوں ملک پرویز وغیرہ کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا جبکہ رانا ثناء اللہ کو مسلم لیگ ن پنجاب کا صدر بنادیا۔ دراصل سانحہ ماڈل ٹائون کیس کی پیشگی حکمت عملی ہے کیونکہ مالی بدعنوانیوں کے کیسز کے علاوہ اب دوبارہ اس کیس پر بنائی گئی جے آئی ٹی کو کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت ملنے والی ہے اور اس کیس کے مرکزی ملزمان میں رانا ثناء اللہ کا جرم ثابت ہو جانا ایک طے شدہ بات ہے۔
قارئین!آج یکم رمضان المبارک ہے اور ہمارے عقیدے کے مطابق آج گمراہ کرنے والے شیطان کو قید کر دیا جائے گا مگر ان شیطانوں کا کیا بنے گا جو ہمارے ضمیر اور ذہنوں میں مقید ہیں؟ پاکستان بھر کی تاجر برادری میں ایک مخصوص ٹولہ پورا سال انتظار کرتا ہے کہ کب رمضان المبارک آئے اور وہ اپنی دولت کے انبار میں اضافہ کر سکیں ۔ یورپی اقوام اپنے مذہبی تہواروں کے علاوہ مسلمانوں کے مذہبی تہواروں پر خصوصی رعایتی قیمتوں کا اعلان کرتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میںمذہب کے نام پر پیسوں کے ڈھیر لگانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قارئین! مئی کی گرمی، رمضان المبارک کا مہینہ، حکومت اور وزراء کی نالائقیاں، بلاول کا جارحانہ انداز، شریف برادران کا سیاسی پینترے بدلنا اور سولہ نائب صدور کے ساتھ حکومتی ٹیم پر جوابی وار بہت سی کڑیاں آپس میں ملانے کے لیے کافی ہے اور بقول حسن نثار کے ’’الٹا لٹکوگے تو سیدھا نظر آئے گا۔‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024