کراچی کے مسائل کا حل کیا ہے؟
اگست 1988ء میںجنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ کے بعدپاکستان میں ایک نئے سیاسی مگر افسوسناک دور کا آغاز ہوا۔ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ طویل آمرانہ دور میں تعلیمی اداروں کالجوںاوریونیورسٹیوں میں طلبا تنظیموں پرپابندیوںنے سیاسی تربیت کے ارتقائی عمل کے ذریعے ’’حقیقی سیاسی قیادت‘‘کے پیدا ہونے کے عمل کو روک رکھا تھااور بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔جولائی1977کے مارشل لاء سے قبل پاکستان کی سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر عمل کرنے والے قومی لیڈرشپ موجودتھی جس نے ہمیشہ ’’حقیقی اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے ملک کی سیاست میں مک مکا اور کرپشن کے عناصر موجود نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ پاکستانی معیشت قرضوں کے بوجھ سے آزاد تھی۔اسی دور میں پی آئی اے، واپڈا، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن، ریلوے اور اسٹیل مل جیسے قومی ادارے قائم ہوئے تھے۔ سیاسی تربیت کے خاتمے کے اس عمل نے عوام کو متعصب،حادثاتی اور کرپٹ لیڈرشپ کا تحفہ دیا۔1990 ئ، 1993 ء اور 1996 ء میں منتخب حکومتیں کرپشن کے بنیادی الزامات کے ساتھ برطرف کردی گئیں مگر کوئی عوامی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ برطرف شدہ حکومتوں کی کارکردگی عوام کو ریلیف دینے کے معاملے میں صفر تھیں۔ پاکستان کی تاریخ کا 30سالہ یہ سیاسی دوربدترین کرپشن اوراس کے نتیجے میں معیشت کی زوال کا باعث بنا جس سے سب سے زیادہ کراچی کی سیاست اور شہری متاثر ہوئے۔ محبتوں اور روشنیوں کا شہر کراچی جس کی گود نے پورے پاکستان سے آکر بسنے والوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ،سب کو مہربان ماں کی ممتا دی اور شفیق باپ کی طرح پالاجس کے باعث کراچی کو سب نے ’’ منی پاکستان‘‘ مانا۔کراچی میں نئے اور مسلسل اضافے کے حامل رہائشیوں کی تعداد انتظامی اصول و ضوابط سے ماوراء رہی۔ چند سالوں میں لاکھوں کی آبادی کا شہر کروڑوں کی آبادی کا شہر بن گیا۔ نتیجتاََ آبادی کے لحاظ سے وسائل کی کمی نے مسائل کا ابنار لگادیا... روشنیوں کا عالمی شہراپنے ہی حکمرانوں اور منتظمین کے ہاتھوںمٹی ، دھول اور کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔کراچی کی اس خستہ حالی میں بڑا ہاتھ اس شہر کو تعصب کی سیاست کی آگ میں دھکیلنا ہے۔ سیاست، نظریہ ضرورت، کرپشن، دھوکہ بازی ، رشوت، منافقت، لوٹ مار، اغوائ، قتل، لاشیں، نوٹ کے بدلے ووٹ... یہاں کا مقدر بنا دیا گیا۔اگر تصور میں کراچی شہر کا نقشہ لایا جائے تو ٹوٹی ہوئی سڑکیں، بہتے ہوئے گٹر،بجلی کی ناقابل برداشت لوڈشیڈنگ، ظالمانہ اووربلنگ، پانی کی بوند بوند کو ترسے ہوئے شہری، تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ اور سرکلر ریلوے کو کرپشن کھا گئی، شہر میں روزگار، انصاف ناپید جبکہ اسٹریٹ کرائمز کا شہر بھر میں راج ہے، شہر مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ دوسری جانب سندھ کے بجٹ کا 95فیصد حصہ کرپشن کی نذر کیا جارہا ہے جبکہ حکومت اور اس کے اتحادیوں نے کراچی کو سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔گذشتہ دس سالوں میں کراچی کو برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ کراچی کے عوام کو سڑکیں ،سیوریج کے نظام ،پانی کی فراہمی ،بجلی کی فراہمی ،تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی ،باعزت روزگار اور پائیدار امن و امان کے قیام کے لئے کراچی کو آئینی طور پر میگا سٹی کا درجہ دینے کی ضرورت ہے۔کراچی کے شہری اپنے مسائل کو حل کرنے کے طریقہ کار کوسمجھنے لگے ہیںاس لئے پاسبان کا مطالبہ کراچی کے عوام کامطالبہ بن گیا ہے’’میگا سٹی کیلئے میگا مارچ‘‘ کے ذریعے باقاعدہ عوامی جدوجہد کا آغاز ہورہا ہے، اب اس جانب جدوجہد کے لئے ہر قدم اٹھے گا۔ اقوام متحدہ کے محکمہ برائے اقتصادی اور سماجی معاملات کے مطابق 10 ملین آبادی کے شہر کو میٹروپولیٹن کا درجہ دے کر ’’میگا سٹی ‘‘ کی حیثیت میں شمار کیا جاتا ہے۔کراچی اپنی آبادی، حدود اربعہ اور مسائل کے باعث ہر لحاظ سے میگا سٹی کی آئینی حیثیت کا حقدار ہے۔ کراچی کے مسائل کا حل کراچی کو آئینی طور پر میگا سٹی کی حیثیت دینے میں ہے۔ ’’میگا سٹی حکومت اور انتظامیہ‘‘ کے ذریعے بجلی کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ سے اس طرح نجات ملے گی کہ ہر ضلع کا اپنا بجلی گھر ہوگا۔پولیس چیف کو کراچی کے شہری خود منتخب کریں گے اس لئے پولیس عوام کی اپنی منتخب کردہ ہوگی۔ عوام کو جوابدہ شہری انتظامیہ کی بدولت ملاوٹ سے پاک خوراک، سبزیاں ، پھل اور اجناس ملیں گے۔سرکاری اور دیگر بھتہ خوری کا خاتمہ ممکن ہوگا جس کی وجہ سے اشیائے خوردونوش سستے داموں دستیاب ہوگی۔سرکاری اسپتالوں میں علاج اور ادویات مفت دستیاب ہوں گی۔ کرپٹ انتظامیہ کے خاتمہ کی وجہ سے پرچے آئوٹ ہونے اور امتحانات میں نقل کے کلچر کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ہرضلع میں یونیورسٹی کے قیام اور میٹرک تک تعلیم مفت اور عام کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ میگاسٹی کی منتخب حکومت کے قیام سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا اور شہر میں صنعتوں کا جال بچھا کر بے روزگاری کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا۔ کراچی کے بعد لاہور، پشاور، فیصل آباد، حیدرآبادو دیگر شہروں کو میگا سٹی کا آئینی درجہ دلانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔