اقتدار کیلئے فوج کا اپنی حدود سے تجاوز کا آئینی‘ قانونی جواز نہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + آن لائن + اے پی اے) پرویز مشرف غداری کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اقتدار کے حصول کیلئے فوج کا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں، ریاستی امور میں فوج کی مداخلت کا طریقہ کار آئین نے وضع کر رکھا ہے ، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے مارشل لا کا راستہ روک سکتے ہیں، پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے استفسار کیا کہ آیا عدالتی فیصلے سے فوجی مداخلت رک جائے گی، بھٹو نے 74ءمیں کہا تھا کہ ہم نے آمریت اور بونا پارٹ ازم کو دفن کر دیا ہے، تین سال بعد وہ دوبارہ زندہ ہو گیا، ترقی پذیر ممالک میں فوج ایک قوت ہے اسے آرٹیکل 6 سے نہیں روکا جا سکتا، جب حالات پیدا ہوں گے، فوج دوبارہ آجائے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین و قانون کی پاسداری اور جمہوریت کی حکمرانی آئین کی منشا ہے ہم اس کا تحفظ کرینگے درخواست گذاروں کا کہنا ہے کہ آئین التوا میں رکھ کر ان کے حقوق معطل کئے گئے چاہے یہ معطلی 12 سیکنڈ کے لئے کیوں نہ ہو۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئین کی معطلی پر کسی کارروائی کی ہدایت نہیں کی جو درست اقدام ہے، کارروائی وفاق کا کام ہے جسے عالمی اور مقامی حالات کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، وفاق کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس کے کس اقدام کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت پیر کو شروع ہوئی تو سابق صدر کے وکیل قمر افضل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین کا آرٹیکل 25 مساوی سلوک یقینی بنانے کا حکم دیتا ہے۔ کیس میں شامل ایک فرد کیخلاف کارروائی آئین کے آرٹیکل 25 کے منافی ہو گی۔ درخواستیں قابل سماعت ہونے سے متعلق آرٹیکل 25 کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ فوجداری مقدمے کا براہ راست جائزہ نہیں لیتی، جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئین کسی کی میراث نہیں اور عدالت آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اس مقدمے میں یہ دیکھنا ہے کہ آیا آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ قمر افضل نے کہا کہ عوام کی منتخب حکومت نے پانچ سال مکمل کئے ہیں اور ان پانچ سال میں ایک مرتبہ بھی پرویز مشرف کیخلاف کارروائی کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا لہٰذا اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ سنگین غداری ایکٹ کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرانے کا اختیار صرف وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ یہ کیس قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت اہم ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اس کیس میں انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھے گی۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ تین نومبر 2007ءکے اقدامات کسی فرد واحد کی جانب سے نہیں بلکہ اجتماعی دانش کا نتیجہ تھے۔ تین نومبر کے اقدامات کو اس وقت کے حالات اور واقعات کے تناظر میںدیکھا جائے تو بھی وجوہات ہیں پی سی او جاری ہوا وہ تمام اس میں درج ہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، جاری دہشت گردی پر بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے تناظر میں تین نومبر کے اقدامات کئے گئے۔ تین نومبر کے اقدامات میں افواج پاکستان کے سربراہ کور کمانڈر، وزیراعظم اور کابینہ بھی شامل تھے۔ صرف سابق صدر پرویز مشرف پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکتی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ مسلح افواج کے تین نومبر کے اقدامات کو جائز قرار دے سکتی ہیں آئین نے مسلح افواج کا کردار متعین کر دیا ہے۔ جیسے جج ریاستی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے اسی طرح فوج بھی ان میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ احمد رضا قصوری نے کہاکہ عدالت اگر وفاقی حکومت کو کارروائی کی ہدایت جاری کرتی ہے تو پھر یہ اداروں کو حاصل اختیارات میں مداخلت ہو گی اور عدالت اپنے دائرہ کار سے باہر کام کرے گی۔ آپ نے سب اداروں کے اختیارات تجویز کر دئیے ہیں۔ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہے۔ اگر کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گا تو معاملات خراب ہوں گے۔ 31 جولائی کو جو فیصلہ جاری کیا گیا اس میں مشرف کیخلاف کسی کارروائی کا حکم نہیں دیا گیا۔ حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت بھی واضح تھی کہ آئین توڑنے کے معاملے کی سزا کے حوالے سے صرف وفاق کسی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ ریاست نے حالات و واقعات کو دیکھ کر کارروائی کرنا ہوتی ہے۔ انہوں نے مناسب حالات نہیں دیکھے تو کارروائی نہیں کی۔ اگر کارروائی کردی جاتی تو ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ بنچ کے حوالے سے کتنا وقت لیں گے۔ قصوری نے کہا کہ بہت وقت لوں گا تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ جو میرے ساتھیوں نے کہاکہ وہ نکات اور دلائل نہیں دہرائیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ دلائل مکمل کریں۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ کلام شاعر بزبان شاعر کے مصداق ہر شخص نے اپنے اپنے انداز سے دلائل دینے ہوتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے مزید سماعت آج تک کیلئے ملتوی کر دی۔ اسلام آباد سے نامہ نگار کے مطابق پرویز مشرف کی ججز نظربندی کیس میں درخواست ضمانت پضر سماعت بغیر کسی کارروائی کے 8 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ سماعت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج کوثر عباس زیدی کی رخصت کے باعث ملتوی کی گئی، کوثر عباس زیدی ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہیں اور رخصت پر ہیں، گذشتہ روز سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے کونسل رضوان عباسی نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا اور اب وہ پرویز مشرف کی وکالت نہیں کر سکتے تاہم ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے چیمبر کا کوئی وکیل بھی پرویز مشرف کی وکالت نہیں کرے گا، ججز نظربندی کیس میں مدعی مقدمہ کے وکیل چودھری محمد اشرف گجر ایڈووکیٹ بھی عدالت میں موجود نہیں تھے۔ نوائے وقت کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ مدعی مقدمہ کی جانب سے انہیں اس درخواست پر وکالت کے لئے کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے پیش نہیں ہوا۔ مقدمہ کے تفتیشی کے مطابق مقدمہ کا عبوری چالان پراسیکیوشن کے شعبے میں جمع کروا دیا گیا ہے جو آئندہ سب جیل میں سماعت کے دوران عدالت کے سامنے پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی نظربندی کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف پیر کو چالان پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں جمع کرا دیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق کالعدم تنظیموں کی دھمکیوں کے بعد ججز نظربندی کیس میں پرویز مشرف کے و کلا نے مقدمے کی پیروی کرنے سے معذرت کر لی ہے، 6 مئی کو سابق صدر کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکلا نے پرویز مشرف کو مشورہ دیا ہے کہ کسی اور وکیل کی خدمات حاصل کر لیں اگر کوئی اور وکیل بھی کیس لینے کو تیار نہ ہو تو ریاست کی طرف سے ان کی پیروی کی جائے گی۔ رضوان عباسی اور ان کے پینل میں شامل ایڈووکیٹ عمران فیروز ملک اور ضیاءالرحمن ججز نظربندی کیس میں پرویز مشرف کی پیروی کر رہے تھے۔