پاکستان میں 11 مئی 2013ءکو عام انتخابات کرانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ الیکشن کمشن اور نگران حکومت کی طرف سے بار بار یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ انتخابات طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری ہو چکی ہیں۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام تیزی سے جاری ہے۔ چند روز سے سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کی طرف سے انتخابی مہم میں بھی کچھ تیزی آئی ہے لیکن ایک سوال آج بھی بڑی شدت سے گردش کر رہا ہے کہ کیا 11 مئی کو الیکشن ہو جائیں گے؟
اس سوال کا واضح جواب کسی کے پاس نہیں۔ صرف خطرات اور خدشات۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ انتخابات سے قبل کوئی سانحہ برپا ہو گا۔ قومی سیاسی رہنما یا رہنماﺅں کو بم دھماکے یا کسی اور طریقے سے مروایا جائے گا جس سے پورے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلے گی اور یوں انتحخابات ملتوی ہو جائینگے اور اگر ملتوی ہو گئے تو پھر شاید طویل عرصے تک نہ ہو سکیں۔ اس حوالے سے کارروائی کا آغاز انتخابی دفاتر اور امیدواروں پر حملوں کی صورت میں ہو چکا ہے اور دن بدن اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اب تک کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نگران وفاقی حکومت اور خود نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے مئی کے پہلے ہفتے میں پنجاب میں دہشت گردی کے خطرے سے آگاہ کیا ہے جبکہ اب تک باقی تین صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس خدشے اور خطرے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ بڑا سانحہ پنجاب میں ہی رونما ہو گا باقی صوبوں میں ہونے والے واقعات اس کا ٹریلر ہیں۔
گزشتہ چند سال کے واقعات کا جائزہ لیں تو بینظیر بھٹو ایک معاہدے کے تحت پاکستان آئیں لیکن پاکستان آنے کے بعد انہوں نے کسی گریٹ گیم کا حصہ بننے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ طے شدہ فارمولے کے تحت 2008ءمیں پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت بنی۔ اصل میں یہ بھٹو کی نہیں زرداری کی پیپلز پارٹی تھی جس نے پانچ سال حکومت کی اور عوامی توقعات کے برعکس بیرونی آقاﺅں کے ”مینڈیٹ“ کے مطابق لوٹ مار کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے پاکستان بالخصوص پنجاب کو شدید نقصان پہنچایا۔ طے شدہ معاہدے کے تحت اگلی باری نواز شریف کی ہے۔ نواز شریف نے اسی انتظار میں زرداری حکومت کی لوٹ مار سے چشم پوشی کی اور حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع فراہم کیا لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ وہ ایک مرتبہ امریکہ کو آنکھیں دکھا چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم کی گئی اور انہیں جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) اپنی گزشتہ ساکھ، مشرف و زرداری حکومت میں پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اس وقت مقبول جماعت ہے۔ اس کے جلسوں میں لوگوں کی کثیر تعداد میں شرکت اسکی مقبولیت کی گواہ ہے حالانکہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کی اکثریت جلسے جلوسوں میں شرکت نہیں کرتی۔الیکشن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے پہلے طاہرالقادری کو پاکستان بلایا گیا لیکن وہ ڈرامہ فلاپ ہو گیا۔ پرویز مشرف کو بھیجا گیا لیکن وہ بھی کوئی ”ایڈونچر“ نہ کر سکے۔ یوں تو نجم سیٹھی کی بطور نگران وزیر اعلیٰ نامزدگی پر اپنی آمادگی ظاہر کرکے نواز شریف نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وہ آئندہ بھی ”لچک“ کا مظاہرہ کریں گے۔
شاید اپنا نیا ”امیج“ بیرونی دنیا کو بھیجنے میں ابھی بڑے میاں صاحب پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت ”دہشت گردوں“ کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ طالبان کی طرف سے سیاسی رہنماﺅں پر حملے اور انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کے مطابق طالبان دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کی قید میں رہ کر غیر مسلم مسلمان ہو جاتے ہیں اور ایک وہ جو مساجد اور عوامی مقامات پر بم دھماکے کرکے معصوم مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں۔ نہ جانے ان کا کیا ایجنڈا ہے۔
انتخابات مقررہ وقت پر کروانے کے دعوﺅں کے باوجود نگران حکومت ایسے اقدامات کرنے جا رہی ہے جو اسکے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔ مثلاً نگران حکومت نے آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر کے قرضے کیلئے شرائط طے کر لی ہیں اور آئندہ مالی سال 2013-14ءکے بجٹ کا ڈرافٹ ان شرائط کے مطابق تیار کیا جا رہا ہے۔ شرائط کے مطابق بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرکے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائیگا۔ اس صورتحال کے بعد یہ خدشہ بھی لاحق ہو گیا ہے کہ اگر نگران حکومت نے عالمی طاقتوں اور سازشیوں کو اپنی وفاداریوں اور تابعداریوں کا یقین دلا دیا تو انتخابات کے انعقاد کے امکانات مزید معدوم ہو جائینگے جبکہ انتخابات کے التوا کیلئے کسی بڑے سانحے کے خطرات مزید بڑھ جائینگے۔
یہ سارے خدشات ہیں۔ آئیے! دعا کریں کہ یہ سب خدشات غلط ثابت ہوں، انتخابات مقررہ وقت پر ہوں اور پاکستان جمہوریت، ترقی اور استحکام کی طرف گامزن ہو۔ آپ بھی کہیں، آمین۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024