گلوکاری اور سوشل ورک کے بعد سیاست میں بھی اچھا رسپانس ملا : ابرار الحق
سیف اللہ سپرا ۔۔۔
پا کستان میں ان دنوں انتخابات کی آمد آمد ہے ، مختلف سیاسی جماعتیں امیدواروں کودلفریب نعرے دے کر انتخابات میں کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ۔موجودہ انتخابات میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد حصہ لے رہے ہیں ان میں سے ایک ابرارالحق بھی ہیں ، ابرارالحق کسی تعارف کے محتاج نہیں ، ابرار الحق نے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایچی سن کالج میں بطور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا ہے لیکن بہت جلد انہوں نے شعبہ موسیقی کو اپنالیااس شعبے میں انہوں نے بڑا نام کمایا ۔ابرارالحق نے اپنے کام اور نام کو فلاح انسانیت کیلئے وقف کردیا اور اپنے والدین کے نام پر نارووال میں صغریٰ شفیع میڈیکل کمپلیکس بناڈالا ، ابرارالحق یہیں تک نہیں رکے انہوںنے دنیا میں آنیوالی ہر ناگہانی آفت پر سہارافارلائف ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے سب پہلے پہنچ کر دکھی انسانیت کے زخموںپر مرہم رکھا ، ابرارالحق نے نوجوان نسل میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان کی بنیاد بھی رکھی ، دکھی انسانیت کیلئے گراں قدر خدمات پر او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس )نے ابرارالحق کو 57 ممالک کیلئے انسانی حقوق کا پہلا سفیر بھی مقرر کیا جوکہ پاکستانیوں کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے ۔ابرارالحق کے ساتھ گزشتہ دنوں ایک نشست ہوئی جس میں انہوںنے سیاست سمیت ہر موضوع پر کھل کر اظہا ر خیال کیا ۔ابرارالحق کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے منتخب حصے نذرقارئین ہیں:ابرارالحق نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میںنے ایچی سن کالج سے بطور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی شوبز سے وابستہ ہوگیا۔ میں ایک گانے سے راتوں رات شہرت کی بلندیوںپر پہنچ گیا ایک دن میں نے سوچاکہ میں اپناذاتی جہاز لوں گا اس کے لیے پیسے بھی جمع کرنے شروع کردیئے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کو شاید کچھ اور منظور تھا کہ اسی دوران میری والدہ کا انتقال ہوگیاایک دن میں اپنے بھائیوں کے ساتھ والدہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد گھر واپس آرہاتھاکہ راستے میں آئیڈیا آیا کہ والد ہ کے نام پر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بنادی جائے اسی دوران کئی دوستوں سے مشورے بھی ہوتے رہے ،بالآخرسہارافارلائف ٹرسٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنانے کے بعد ہم نے نارووال میں ہسپتال بنانے کی پلاننگ شروع کردی ، میں نے جہاز خریدنے کیلئے جمع کی گئی ساری رقم بھی ہسپتال کی زمین خریدنے کے لیے عطیہ کردی جبکہ منصوبہ بہت بڑا تھااور وسائل نہ ہونے کے برابر ، لہذٰا میں نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی قوم کی دہلیز پر جاکر فنڈریزنگ کی جائے گی میں اندرون وبیرون ممالک صغریٰ شفیع میڈیکل کمپلیکس کی فنڈریز نگ کے لیے گیا پاکستانی قوم نے میری سوچ سے بڑھ کر پذیرائی دی اوریوں ہسپتال قائم ہوگیا ۔ میں خداکا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ چند سالوں میں بیس لاکھ کے قریب زکوةٰ کے مستحق اور نادار افراد اس ہسپتال سے مفت علاج سے مستفید ہوچکے ہیں ،جب روزانہ سینکڑوں افراد مفت علاج کروانے کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعائیں دیتے ہیں تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتاہے کہ اے خدا میں تیرا ایک عاجز بندہ ہوں اور تونے اتنابڑا کام مجھ سے لیا ہے ، پھر میں اپنے ان ڈونرز کا مشکو رہوجاتا ہوں جن کا تعاون مجھے حاصل نہ ہوتا تو میں شاید کبھی بھی ہسپتال بنانے میں کامیاب نہ ہوپاتا ۔ابرارالحق نے بات کوبڑھاتے ہوئے بتایاکہ میں نے نارووال میں ہسپتال اس لیے بنایا کہ میرے دادا کہاکرتے تھے کہ نارووال میں کوئی ہسپتال نہیں ہے اور لوگ علاج کرائے بغیر مر جاتے ہیں ، دادا جان کی بچپن کی باتیں جب مجھے یاد آتیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم نارووال میں ہی ہسپتال بنائیں گے جہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں اور لوگ زندگی کو ترستے ہیں ۔ابرارالحق نے مزید بتایاکہ انہوں نے پوری دنیا سے ہسپتال کیلئے فنڈریزنگ کی ہے لیکن نارووال کے عوام سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا حتیٰ کہ زمین بھی مہنگے داموں خریدی ۔ابرارالحق نے بتایا کہ وہ نارووا ل میں سہارا میڈیکل کالج بھی بنارہے ہیں جس میں انشاءاللہ اگلے سال کلاسز شروع ہوجائیں گی ۔ابرارالحق نے کہاکہ انہیں نارووال میں ہسپتال یا میڈیکل کالج بنانے کا قطعاً کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوا اس علاقے کا چناﺅ خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیا کیونکہ ویسے بھی اگر لاہور ، کراچی یا اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں ہسپتال اور میڈیکل کالج بنایا جاتا تو اس کے نہ صرف کمرشل فوائد حاصل ہوتے بلکہ ڈونرز کی رسائی بھی آسان ہوجاتی ،اب لاہور سے 100 کلومیٹر دورنارووال کاسفر جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے ، مریدکے سے نارووال تک روڈآثار قدیمہ کا منظر پیش کرتی ہے اس علاقے سے بڑے نامی گرامی سیاستدان ہیں لیکن انہیں عوام سے زیادہ ذاتی اثاثے بڑھانے کی فکر ہے یہی وجہ ہے کہ اب تک یہ روڈ نہیں بن سکی اگر میں یہ کہوں کہ یہ سڑک پنجاب کی سب سے خستہ حال سڑک ہے تو بے جانہ ہوگا ۔ ابرارالحق نے اپنی سیاسی کمپین کے بارے میں بتایاکہ وہ این اے 117 نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابا ت میں حصہ لے رہے ہیں اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نوجوانوں کے علاوہ بزرگ ،خواتین اور بچے بھی اسے اپنی ذاتی انتخابی مہم سمجھ کر حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ میرے سیاسی مخالفین کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں اور وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر بھی اتر آئے ہیں لیکن خدا کے فضل وکرم اور عوام کی دعاﺅں سے انشاءاللہ میں اس حلقے سے تاریخ ساز کامیابی حاصل کروں گا ۔ ابرارالحق نے بتایا کہ میں زندگی میں پہلی بار سیاسی میدان میںہوں ،فیض احمد فیض اور علامہ اقبال ؒ کے علاقے سے الیکشن لڑنا میرے لیے سعادت کی بات ہے اور پھر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن کا مزہ ہی کچھ اور ہے کیونکہ تحریک انصاف کا ماٹو نیا پاکستان ہے جب کہ میر ا نصب العین محروم طبقات کوسہولیات پہنچاناہے ۔ ابرارالحق نے انتخابی مہم کے بارے میں مزید بتایاکہ میرے دوستوں بلا ل رانا ، انجم دھاریوال اور جمال بٹر وغیر ہ نے میری الیکشن کمپین کے لیے ملی نغمے بھی بنواکردیئے ہیں جن کے سننے سے نارووال کے عوام اب جاگ اٹھے ہیں اور انہوں نے موروثی سیاست کے علمبرداروں کیخلاف فیصلہ سنادیا ہے ، ابرارالحق نے بتایاکہ ان کے بڑے بھائی کرنل(ر)انوارالحق اور میجر(ر)اسرارالحق بھی انتخابی مہم میں دن رات ان کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ جب ابرارالحق سے پوچھا گیا کہ آپ کاکوئی البم کافی عرصہ سے مارکیٹ میں نہیں آیا اور اب تو پرستاروں کی مایوسی بھی بڑھ چکی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا البم کافی دیر سے تیار ہے صرف فائنل ٹچنگ باقی ہے لیکن مجھے ذاتی اورسیاسی مصروفیات میں سے ایک لمحہ نکالنا بھی مشکل ہے جو میں اپنے البم کو دے سکوں۔انہوں نے کہاکہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ لوگوں نے میری گلوکاری بھی پسند کی ۔میری سماجی خدمات کو بھی سراہا اور اب مجھے سیاست میں بھی اچھا ریسپانس مل رہا ہے۔