کراچی میں کسی پارٹی نے کام کیا ہوتا تو میں الیکشن نہ لڑتا : ماجد جہانگیر
انٹرویو : غزالہ فصیح .....
معروف فنکار ماجد جہانگیر نے پاکستان ٹیلی ویژن کی ریکارڈ ساز مقبولیت حاصل کرنے والی مزاحیہ سیریز ففٹی ففٹی سے شہرت حاصل کی۔ سیٹھ، غریب آدمی، قصائی، سیاستدان، دکاندار سمیت مختلف کرداروں میں انہوں نے بے ساختہ اداکاری کے زبردست نمونے پیش کیے۔ یہ کردار ابھی تک ناظرین کے حافظے سے محو نہیں ہوسکے خصوصاً ساتھی فنکار اسماعیل تارہ کے ساتھ مل کر ”منوا ببوا“ کی جوڑی کے طور پر وہ منواکا جو روپ اختیار کرتے تھے وہ اُن کا ہی خاصہ رہا جو دوبارہ نہیں پیش کیا جاسکا۔ ففٹی ففٹی سے ملی شہرت کے عروج کے دور میں ماجد جہانگیر پاکستان چھوڑ کر امریکہ جا بسے تھے۔ 20سال سے زائد عرصہ وہاں رہے مگر چند سال قبل پاکستان واپس آگئے ہیں اور کہتے ہیں ہمیشہ کے لئے آئے ہیں، انہوں نے دوبارہ شوبز میں کام شروع کردیا تھا اب سیاست میں آنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ماجد جہانگیر سندھ اسمبلی کے حلقہ 118گلشن اقبال سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں سیاست میں اُن کی آمد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہم نے پوچھا! س:۔آپ نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا....؟ج:۔ کراچی مسائل کا شہر بن چکا ہے۔ روزانہ ہڑتالیں، ہنگامے قتل و غارت، بدامنی اور بے روزگاری اِن سب مسائل کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں سیاست میں آﺅں گا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں ملک کا جو حال ہوا سب کے سامنے ہے۔ جیسی یہ حکومت رہی ہے میں کہتا ہوں خدا اسرائیل کو بھی ایسی حکومت نہ نصیب کرے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی سب حالات خراب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ عوام نے ان کو دوبارہ ووٹ دیئے تو انہیں جوابدہ ہونا ہو گا کہ ہمارا دین بھی ظالم کا ساتھ دینے سے منع کرتا ہے۔ میں نے اس لئے بھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا کہ فنکار برادری کے کام آسکوں کیونکہ سیاستدان فنکاروں کے کام نہیں آتے۔س:۔ آزاد حیثیت میں لڑنے کا فیصلہ ہی کیوں....؟ج:۔ صاف بات یہ ہے کہ کراچی میں سرگرم موجود پارٹیوں میں سے کسی کا ٹکٹ نہیں چاہتا تھا ان پارٹیوں نے اگر کام کیا ہوتا تو مجھے الیکشن لڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ البتہ میں نے ن لیگ والوں سے رابطہ کیا تھا اُن سے کوئی حوصلہ افزاءجواب نہیں ملا۔ میں عمران خان کو بھی پسند کرتا ہوں مگر اُس نے الیکشن میں کراچی پر توجہ ہی نہیں دی۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا آزاد حیثیت میں کھڑا ہوں گا۔س:۔ آپ کا منشور کیا ہے....؟ج:۔ میں بے روزگاری کا شرطیہ خاتمہ کردوں گا۔ کم از کم میرے اپنے حلقے میں تو کوئی بے روزگار نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ کراچی میں امن و امان کا قیام اور فنکاروں کے مسائل کا حل میر ی ترجیحات میں شامل ہے۔ س:۔ آپ کا بے روزگاری دور کرنے کیلئے کوئی خاص پروگرام ہے....؟ج:۔ جی ہاں! میرے پاس ایک خاص حکمت عملی ہے جس کے متعلق میں ابھی بتانا نہیں چاہتا، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو یا دیگر عوامی مسائل کا حل کچھ بھی ناممکن نہیں۔ سیاستدانوں کی بدنیتی نے سارے مسائل پیدا کئے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں وزیر خود بیرون ملک دورے کرتے رہے۔ عیش و آرام میں رہے عوام کے لئے کچھ نہ کیا البتہ اپنے کارکنوں کی مختلف محکموں میں بھرتیاں کیں وہ بھی عارضی، سیاسی بنیاد پر نوکری حاصل کرنے والے دوبارہ بے روزگار ہو کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ س:۔آپ کے مد مقابل کتنے امیدوار ہیں؟ بڑی پارٹیوں سے مقابلہ کتنا بڑا چیلنج ہے....؟ج:۔ میرے مقابل فی الوقت تو 30سے زائد لوگ ہیں۔ ان میں سے آدھے بھی اگر کم ہو جاتے ہیں تو پندرہ بیس لوگ تو پھر بھی مد مقابل ہوں گے جہاں تک بڑی پارٹیوں کے چیلنج کی بات ہے تو سب سے بڑی تبدیلی یہ نظر آرہی ہے کہ لوگ ان پارٹیوں کے مد مقابل کھڑے ہو رہے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو کوئی ان کے سامنے اپنا نام دینے کی ہمت بھی نہیں کرتا تھا ان پارٹیوں سے لوگ تنگ ہیں ان کے رد عمل میں خود الیکشن امیدوار بن گئے ہیں۔س:۔ آپ کی انتخابی مہم کیسی جارہی ہے....؟ج:۔ کراچی کے حالات آپ کو معلوم ہیں یہاں خوف و ہراس اور الیکشن کے متعلق ایک بے یقینی کی فضا ہے اس لئے انتخابی سرگرمیوں میں بھی تیزی نہیں، پھر میڈیا بھی سیاسی پارٹیوں کی طرف متوجہ ہے، آزاد امیدواروں کو کوریج نہیں دے رہا۔ الیکشن کمیشن کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہئے۔ باقی اپنے طور پر میں اپنی مہم بھرپور انداز میں چلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ فنکار برادری میری حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ س:۔ آپ کا انتخابی نشان کیا ہے....؟ج:۔ میرا انتخابی نشان پلنگ ہے۔س:۔ یہ نشان آپ نے خود منتخب کیا ....؟ کیوں؟ج:۔ جی ہاں پلنگ کا نشان میں نے خود منتخب کیا ہے اس کے ذریعے میں عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ”پلنگ پر مہر لگائیے اور چین سے سو جائیں“ کیونکہ ماجد جہانگیر آپ کے حقوق کے لئے جاگ رہا ہے۔ ٭:اگر آپ جیت گئے تو فنکاروںکےلئے کیا کریںگے؟ج:فنکاروںکے مسائل حل کرنے کی کوشش کروں گا‘ دیکھیں ہمارے ہاں چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے‘جہاں فنکار کی شہرت ماند پڑی لوگ اس سے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ بڑے بڑے فنکاروں کو یہاں کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے دیکھاہے۔ اخبارات میں میڈیا پر اپیلیں کی جاتی ہیں تب جاکر سرکاری طور پر کسی فنکار کےلئے چیک جاری کردیا جاتا ہے۔ اس کی بجائے میرے خیال میں حکومت کی سرپرستی میں فنکاروں کی بہبود کاباقاعدہ نظام ہونا چاہئے جس میں فنکار کی عزت نفس مجروح کےئے بغیر اس کی بہبود کےلئے کام ہو۔٭ماجد جہانگیر صاحب! سیاست کے حوالے سے باتیں ہوچکیں‘ یہ بتائیے آپ امریکہ میں سیٹ تھے‘ پاکستان واپس کیوں آگئے؟ یہاں آکر مطمئن ہیں؟ج:میں85ءمیں امریکہ گیا تھا میری والدہ کی وہاں کی نیشنلٹی تھی۔ بھائی امریکہ میں ہیں آپ نے ٹھیک کہا میں وہاں سیٹ تھا۔ خوشحال تھا لیکن میرے اندر کا آرٹسٹ پہچان کو ترستا تھا۔ اپنے ملک میں جو عزت‘ شہرت حاصل ہوئی‘ ہر جگہ لوگ ملتے‘ تعریفیں کرتے یہ سب وہاں نہیں تھا۔ پھر اپنے ملک میں آپ کی جڑیں ہوتی ہیں جو آپ کو واپس کھینچتی ہیں بس اس لئے میں واپس آگیا جہاں تک یہ سوال ہے کہ مطمئن ہیں تو یہاں میں نئے سرے سے زندگی کی جدوجہد کررہا ہوں‘شوبز میں کام تو مل رہا ہے مگر لوگ پیسے نہیں دیتے‘ میں یہ رجحان دیکھتا ہوں کہ لوگ پیسے والے اوربااثر خاندان کے بچوں کو کام بھی دیتے ہیں اور پیسے بھی۔ حقیقی فنکار کی قدرنہیں‘ معین اختر‘ عمر شریف جیسے آرٹسٹ اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے‘ بہرحال میں اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کررہا ہوں‘ فی الحال اپنی جمع پونجی سے کام چلا رہے ہیں۔٭:واپس امریکہ جانے کا سوچتے ہیں؟ج:پاکستان میں بہت مسائل ہیں‘ ایک مسئلہ بظاہر معمولی مگر مجھ سے وہ برداشت نہیں ہوتا یہاںکی گندگی ہے ۔ ہم لوگ کہتے ہیں ”صفائی نصف ایمان ہے“ لیکن ”نصف ایمان“کو جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں لوگوں کے جھوٹ‘ چوری چکاری یہ سب پریشان کرتا ہے مگر اس کے باوجود میں واپس نہیں جانا چاہتا‘ میں پاکستان میں ہی رہوں گا‘ امریکہ سے واپس آکر یہاں میں اذان کی آواز سنتا ہوں خصوصاً فجر کی اذان‘ یہ آواز وہاں آپ کو سننے کونہیں ملتی‘ بعض فیصلے دل کی آواز سن کر کئے جاتے ہیں‘ پاکستان واپسی اور یہیں رہنے کا فیصلہ میں نے دل کی آواز پر کیاہے۔