برصغےر کے نامور گائےک اُستادبڑے غلام علی خاں
ریڈیو کالم ۔۔۔ اصغر ملک .....
رےڈےو پاکستان کے نامورکلاسےکل گائےک استادبڑے غلام علی خان جو سُروں مےں سرور اورسحر پےدا کرکے سننے والوں کو اپنی جانب اس طرح متوجہ کرلےتے کہ وہ داد کے ڈونگرے برسانے کے ساتھ ساتھ سر بھی دھنتے اور ےہی بڑے گائےک کی خوبی اور کمال ہوتا ہے اور ان کا تعلق حضرت بابا بلھے شاہ صاحبؒ کے شہر قصور سے تھا اور اُن کے گھرانے کے لوگ قصور والے کہلاتے ہےں حالانکہ قصور کسی اور کا تھا لےکن وہاں رہائش رکھنے کی وجہ سے قصور کی زد مےں آگئے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے آباو¿ اجداد مےں فاضل پےردادکی دعاو¿ں نے اےسی ڈگر پر چلاےا کہ دےگر کلاسےکل گائےک اپنی راہےں بھول کر ان کی منزل کے راہی اور گروےدہ ہوگئے رےڈےو پاکستان کی پرانی بلڈنگ میں‘جوسرفضل حسےن کی کوٹھی تھی ‘ پروگرام کے لئے آئے تو اُس زمانے مےں میں ڈراموں مےں حصہ لےا کرتا تھا۔ ہم حکےم احمد شجاع کے اےک پلے کی رےہرسل کے بعد چند ساتھی جو اس کھےل مےں بُک تھے چائے پےنے کی غرض سے کنٹےن کی طرف جارہے تھے کہ برآمد ے کے تخت پوش پر لےٹے بڑی بڑی مونچھوںوالے پہلوان کو سُرمنڈل کی تاروں سے نغمے بکھےرتے سنا تو ہم حےران رہ گئے اور اےسا معلوم ہوا کہ ہم رےڈےو پر نہےں کسی شاہی دربار مےں گانے کی محفل مےں آگئے ہےں ہمارے قدموں کی آہٹ سے استاد نے آنکھےں کھولےں اور اٹھ کر بےٹھ گئے اور پوچھا کہ بےٹے کےسے آنا ہوا“ ہم نے کہا کھےل مےں حصہ لےنے آئے ہوئے ہےں رےہرسل تھی ڈرامہ کل نشرہوگا۔ کہنے لگے پھر تو آپ ہمارے ہی شعبے کے ہوئے نا۔ ہم نے کہا اُستاد جی ہم چائے پی کر ابھی حاضر ہوتے ہےں کہنے لگے چائے ےہےں آجاتی ہے بڑے اسرار کے بعد استاد نے اپنے اےک شاگرد کو کنٹےن سے چائے خود لے کر آنے کے لئے کہہ دےا۔ وہ آدمی کنٹےن کی طرف روانہ ہوگےا ہم نے استاد سے کہا؟ استاد جی آپ کا نام بڑے غلام علی خان کےسے پڑا؟ جبکہ حضرت بابا بلھے شاہ صاحبؒ نے اپنی کتاب کُلےات بلھے شاہ مےں لکھا ہے بڑا کہاون تے بڑے پاو¿ن، تے مےں بڑا کہا کے بھلی۔ بلھےا تےنوں کی چاہی دا۔ کلی جُلی تے گلی ےعنی مکان، رضائی، اور رُوئی۔ کہنے لگے حضرت بابا بلھے شاہ صاحبؒ نے ٹھےک لکھا ہے اور بڑا کہلانے کے لئے بڑی دُشوار راہوں سے گزرنا پڑتا ہے بڑا نام تو صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جو سب کا رکھوالا سب کا پالنے والا رحےم۔ کرےم اور عظےم ہے مےں اس کی ادنیٰ مخلوق ہوں، ہم نے کہا استاد جی آپ نے سُرمنڈل کے تار کچھ اس انداز سے چھےڑرکھے تھے کہ ہم ان کے طلسم مےں کھوگئے اور اس طرح کا سرےلا ساز پہلے کبھی نہےں سنا تھا کہنے لگے ےہ کام ذرامشکل ہے اور مےں نے بھی سچے سُرکی تلاش مےں پانچ سال تک سارنگی کے ساکے ساتھ ےاری لگائے رکھی چونکہ سارنگی کے کئی رنگ ہوتے ہےں چند اےک کا پتہ چلا ہے باقی کی تلاش مےں ہوں، موسےقی اےک سمندر کی مانند ہے ہر ملک اور قوم کے اپنے اپنے انداز ہےں لےکن دُنےا مےں سُر صرف سات ہی ہےں جن کا جادو سرچڑھ کر بولتا سنائی دے رہا ہے۔ خان صاحب کہنے لگے کےا سنو گے؟ کےونکہ مےرے پروگرام مےں ابھی کچھ دےر ہے ہم نے کہا آپ جو کچھ سنا دےں گے سُن لےں گے لہذا انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی استاد برکت علی خاں کی گائی ہوئی مرزا غالب کی غزل۔ آہ کو چاہےے اک عمر اثر ہونے تک۔ کی استھائی کے بول ہی الاپے تھے کہ ان کو سننے کے لیے رےڈےو کے سازندے اور میوزک کمپوزر آگئے جن میں نےاز حسےن شامی، طفےل فاروقی استاد فلو سے خان، استاد عناےتی خان بھائی فےض فرےد، استاد صادق علی خاں مانڈوعبدالغنی، محمد اقبال وغےرہ تھے سب استاد بڑے غلام علی خان کے چاروں طرف جمع ہوگئے۔ استاد نے ہماری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ دےکھو مےاں ےہ سب لوگ اپنے اپنے فن مےں بڑا ملکہ رکھتے ہےں لہذا استھائی بھےروےں مےں ہوگی۔ اور انترئے مختلف راگوں مےں ہوں گے کےونکہ ےہ لوگ بھی بڑے گنی اورفن شناس ہےں ان کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے استاد بڑے غلام علی خان نے جب مرزا غالب کی غزل کو گاےا تووہاں بےٹھے سب گنی لوگوں نے نذرےں نقد نرائن کی صورت مےں پےش کےں اور ہم نے بھی اتنے خوبصورت انداز مےں گاتے ہوئے پہلے کسی کو نہےں سنا تھا اس کے بعد جب بھی استادملتے تو بڑی محبت اور شفقت سے پےش آتے اس کے کچھ عرصہ بعد استاد بڑے غلام علی خان کو رےڈےو پاکستان کراچی آنے کے لئے رےڈےو لاہور سے چوہدری بشےر احمد جو مےوزک پروڈےوسر تھے رابطہ کرکے بلواےا اور اس وقت کے ڈی جی رےڈےو کی طرف سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ کراچی آنے جانے کا آگے بڑھاےا تو استاد بڑے علام علی خان نے کہا کہ مےں ہوائی جہاز سے نہےں جاو¿ں گا، وجہ پوچھی گئی تو استاد نے کہا مےں ابھی بے ادب نہےں ہوا کہ نےچے مسجدےں اور بزرگان دےن کے مزارات ہوں اور مےں ان کے اوپرسے گزروں ہوائی جہاز کی بجائے رےل ےا موٹرگاڑی پر جاناپسند کروں گا وگرنہ معذرت ہے لہذا فوراً گاڑی کا بندوبست کرکے انہےں کراچی روانہ کردےا گےا جب وہ کراچی سے واپس آئے توخوش نہ تھے پتہ چلا کہ ڈی جی رےڈےو پاکستان نے انہےں مہےنے کے چار پروگرام دےنے سے انکار کردےا ہے جب استاد سے رابطہ کےا تو کہنے لگے مےں اختری بائی فےض آبادی کی دعوت پر بمبئی جارہا ہوں لہذا 1952کے لگ بھگ ےہاں سے مستقل طور پر انڈےا شفٹ ہوگئے تھے۔ بمبئی رےڈےو اور فلم انڈسٹری کے مےوزک کمپوزروں نے آو¿ بھگت کی کہ ان کو رےڈےو پروگراموں کے علاوہ سرکاری اور غےر سرکاری فنکشنوں سے فرصت نہ مل سکی آخر وہ وہےں کے ہوکر رہ گئے لےکن پاکستان کی ےاد انہےں ہمےشہ ستاتی رہی۔ ہمارے قومی راہنما بڑے قابل احترام ہےں اگرکوئی گاما پہلوان رستم زماں بن جاتا ہے تو اسے بڑھاپے مےں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردےا جاتا ہے۔ محمد رفےع، ساحرلدھےانوی اپنے علم وفن کے عروج کے زمانے مےں ےہاں سے مجبور ہوکر انڈےا چلے گئے۔