پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی مجددی
(سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف)
یوں تو اس دنیا میں ہزاروں بچے جنم لیتے ہیں اور مر جاتے ہیں ہزاروں کلیاں کھِلتی ہیں اور بادِ سموم کے تھپیڑوں کی تاب نہ لا کر مُر جھا جاتی ہیں.... مگر وہ موت جو حق اور راستی کی راہ میں آئے حیاتِ جاوداں بن کر آتی ہے ....
جو موت آئے تو زندگی بن کے آئے
قضا کی نرالی ادا چاہیے
10دسمبر 1750ءمیںحیدر علی ؒ کے گھرانے دیوان حالی میںاماں فاطمہ بیگم کی گود میں پیدا ہو نے والا جہادی جذبوں سے لبریز ،انصاف پسند حکمران ،روشن خیال ، تعلیم یافتہ ،تہجد گزار ، شب زندہ دار ، نوافل گزار ، قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا نقش ِ ثانی اور عظیم یاد گار ، نظر عقابی ، جن سے غیرت و خودداری اور مومنانہ فراست کی کرنیں پھوٹ رہی ہوتی تھیں ، بجلی کی چمک ، شیر کی گرج ، دوستوں کے دوست ، دشمنوں کے دشمن بقول قلندر ِ لاہوری ؒ ....
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فو لاد ہے مومن
ایسی صفات کا حامل شخص دنیا جس کو ٹیپو سلطان حیدر ؒ کے نام سے جانتی ہے جو اپنے والد کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے جب آپکی عمر 15سال کی ہوئی تو آپ نے اپنے والد کیساتھ جنگی معاملات میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی کیونکہ آپکے والد حیدر علی ؒ میسورین آرمی میں ملازم تھے لہٰذا آپ گاہے گاہے جنگی مشقوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے ٹیپو سلطان حیدرؒ بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے ،حساب اور سائنس کا علم آپکے پاس وافر مقدار میں تھا آپ ؒ پڑھائی لکھائی کی دلدادہ تھے اور 2ہزار سے زائد کتابیں مختلف مو ضوعات پر آپ ؒ نے اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنا رکھی تھیں جن میں زیادہ تر جنگی ،اسلامی ،اخلاقی اور سائنسی موضوعات پر مشتمل تھیں ،ٹیپو سلطان ؒ دور اندیش اور صاحب ِ بصیرت شخص اور ”ٹائیگر آف میسور “ کے نام سے مشہور تھے،برٹش نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے انڈیا پر قبضہ کر نا چاہا تو اسی سلسلے میں ٹیپو سلطان ؒ نے امیر ِ افغانستان ، فرانس اور ترک سلطان سے مدد مانگی کیونکہ اس موقع پر گوروں نے نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کیساتھ اتحاد کر لیامگر فرانس نے عین موقع پر ساتھ چھوڑ دیا اس موقع سے گوروں نے فائدہ اُٹھا یا اور مرہٹوں کی مدد سے1790ءمیں تیسری بنگلور میسور جنگ شروع کردی ۔
جب گورے اکیلے تھے تو ٹیپو سلطان ؒ نے اُن کو ہرایا تھا ،ٹیپو سلطان حیدرشہید ؒ کا وہ تاریخی اور انمٹ نقوش کا حامل جملہ آج بھی وقت کے جابراور اوباش سلطانوں اور امریکی سامراج کی گود میں پرورش پانے والے عیاش حکمرانوں کو جھنجوڑ رہا ہے کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ہمارے حکمران ٹیپو سلطان حیدر ؒ کے اسی ایک سنہری قول کو ورد ِ زباں اور حرزِ جاں بنا لیں تو اُمت مسلمہ کو درپیش سارے مسئلے ختم ہو سکتے ہیںآج برصغیر پاک و ہند کی سر زمین ٹیپو سلطان حیدر شہید ؒ کیلئے ترس رہی ہے ایک مومن مسلمان سمجھتا ہے کہ زندگی کی ہر سانس رب العزت کی امانت ہے اور یہ امانت کسی بھی وقت اُس مالک و خالق کے سُپرد کی جا سکتی ہے تو کیوں نہ اس کو اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے احکامات کےمطابق بسر کیا جائے سلطان ٹیپو ؒ جو اسلامی اقدار کا محافظ ، آبروئے اسلام ،عشق رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا مرد درویش ، فقر ِ غیور کا حامل ، عشق ِ جسور کی اداﺅں میں زندگی کا ہر لمحہ بسر کرنیوالا دلیر ، دلبر ، دل آراء، دلنواز ، روشن جبیں ، روشن چہرہ ، روشن گُہر ،روشن دماغ ،روشن چراغ اور انگریز سامراج سے لڑنے والا اب بھی زندہ ہے کیونکہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اِنہی نفوسِ قدسیہ کے بارے میں ارشاد فر مایا ”اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ہے “(البقرہ آیت 154)
ٹیپو سلطان حیدر ؒ نے سُرنگا پٹم کے مقام پر انگریز سامراج کو نا کوں چنے چبوا نے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ اُسکی رگوں میں اُس غیرت مند باپ کا پاکیزہ خون جوش مار رہا تھا جس نے انگریز سامراج اور اُسکے پٹھووں کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا ۔
ٹیپو سلطان حیدر ؒ نے ہمیشہ آبروئے مصطفیٰ ﷺ کے سائے میں زندگی بسر کی اور اپنے قول کو سچ ثابت کر دِ کھایا کہ ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر پسینہ سے شرابور عزت کے ساتھ کھائی گئی سوکھی روٹی کے ٹکڑے اور نانِ جویں فائیو سٹار ہوٹلز میں کارپٹڈ ، فرنشڈ اور یخ بستہ ماحول میںکھائے گئے بے توقیری کے ُمرغ مسلم اور چائینز کھانوں سے بہتر ہے کیونکہ یہی چٹائی توڑ جہادی صفات کے حامل مردانِ حُراور شاہسوار مغربی سامراج اور اُن کے پٹھووں کے لیے ”گردن توڑ بخار “ ثابت ہوتے ہیں آج بھی گوروں کے ماتھے پر سلطان ٹیپو ؒ کا نام سُن کر پسینہ آنے لگتا ہے اور وہ کانپنے لگتے ہیں جس کا مشاہدہ راقم کو اپنے دورہ لندن میں ایک ہال میں منعقدہ تقریب میں ہوا کہ جب راقم نے اپنی گفتگو میں ٹیپو سلطان حیدر ؒ کا نام لیا اور اُن کے سنہری کارناموں کا تذکرہ کیا تو وہاں ہال میں موجود ایک گورے کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور وہ دُم دبا کے وہاں سے ایسے بھا گا جیسے گیدڑ شیر کو دیکھ کر بھاگتا ہے ،ٹیپو سلطان ؒ نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں سے بھی نہایت ہی اچھا سلوک کیا ، سڑکوں کے ہر طرف جال بچھا دیے ، بڑے بڑے پانی کے ڈیم بنا دیے ، کئی فیکٹریاں لگا دی گئیں ، میسور میں اور آس پاس کے علاقوں میں شراب ، چرس و دیگر منشیات پر سخت پابندی لگادی گئی میسور میں بہت سارے خوبصورت قلعے بنا دیے گئے ، محلات قائم کر دیے گئے برطانوی فوج نے اُن کی وفات کے بعد قلعوں کو گرانا اور محلات کو مٹانا شروع کر دیا تاکہ ان عظیم یاد گاروں کو دیکھ کر مسلمانوں کی سوئی ہوئی حمیت و غیرت جاگ نہ جائے بنگلور میں آج بھی سلطان ٹیپو ؒ کے دور کی عظیم یاد گار قلعہ نما خوبصورت عمارت Summer Palaceکے نام سے موجود ہے جو آج بھی ”ٹائیگر آف میسور “ کی یاد کو ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے اور تازہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے یوں مسلمانوں کا یہ عظیم راہنما 4مئی 1799ءکو میسور کے دارالخلافہ سُر نگا پٹم کے مقام پر دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گیااور اس کو اپنے والد حیدر علی ؒ اور والدہ فاطمہ بیگم ؒ کے پہلو میں دفن کیا گیا سچ کہا تھا ”ٹائیگر آف میسور “ نے کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “ کاش ہمارے حکمران بھی اس حقیقت کو سمجھ جائیں ۔
(سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف)
یوں تو اس دنیا میں ہزاروں بچے جنم لیتے ہیں اور مر جاتے ہیں ہزاروں کلیاں کھِلتی ہیں اور بادِ سموم کے تھپیڑوں کی تاب نہ لا کر مُر جھا جاتی ہیں.... مگر وہ موت جو حق اور راستی کی راہ میں آئے حیاتِ جاوداں بن کر آتی ہے ....
جو موت آئے تو زندگی بن کے آئے
قضا کی نرالی ادا چاہیے
10دسمبر 1750ءمیںحیدر علی ؒ کے گھرانے دیوان حالی میںاماں فاطمہ بیگم کی گود میں پیدا ہو نے والا جہادی جذبوں سے لبریز ،انصاف پسند حکمران ،روشن خیال ، تعلیم یافتہ ،تہجد گزار ، شب زندہ دار ، نوافل گزار ، قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا نقش ِ ثانی اور عظیم یاد گار ، نظر عقابی ، جن سے غیرت و خودداری اور مومنانہ فراست کی کرنیں پھوٹ رہی ہوتی تھیں ، بجلی کی چمک ، شیر کی گرج ، دوستوں کے دوست ، دشمنوں کے دشمن بقول قلندر ِ لاہوری ؒ ....
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فو لاد ہے مومن
ایسی صفات کا حامل شخص دنیا جس کو ٹیپو سلطان حیدر ؒ کے نام سے جانتی ہے جو اپنے والد کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے جب آپکی عمر 15سال کی ہوئی تو آپ نے اپنے والد کیساتھ جنگی معاملات میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی کیونکہ آپکے والد حیدر علی ؒ میسورین آرمی میں ملازم تھے لہٰذا آپ گاہے گاہے جنگی مشقوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے ٹیپو سلطان حیدرؒ بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے ،حساب اور سائنس کا علم آپکے پاس وافر مقدار میں تھا آپ ؒ پڑھائی لکھائی کی دلدادہ تھے اور 2ہزار سے زائد کتابیں مختلف مو ضوعات پر آپ ؒ نے اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنا رکھی تھیں جن میں زیادہ تر جنگی ،اسلامی ،اخلاقی اور سائنسی موضوعات پر مشتمل تھیں ،ٹیپو سلطان ؒ دور اندیش اور صاحب ِ بصیرت شخص اور ”ٹائیگر آف میسور “ کے نام سے مشہور تھے،برٹش نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے انڈیا پر قبضہ کر نا چاہا تو اسی سلسلے میں ٹیپو سلطان ؒ نے امیر ِ افغانستان ، فرانس اور ترک سلطان سے مدد مانگی کیونکہ اس موقع پر گوروں نے نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کیساتھ اتحاد کر لیامگر فرانس نے عین موقع پر ساتھ چھوڑ دیا اس موقع سے گوروں نے فائدہ اُٹھا یا اور مرہٹوں کی مدد سے1790ءمیں تیسری بنگلور میسور جنگ شروع کردی ۔
جب گورے اکیلے تھے تو ٹیپو سلطان ؒ نے اُن کو ہرایا تھا ،ٹیپو سلطان حیدرشہید ؒ کا وہ تاریخی اور انمٹ نقوش کا حامل جملہ آج بھی وقت کے جابراور اوباش سلطانوں اور امریکی سامراج کی گود میں پرورش پانے والے عیاش حکمرانوں کو جھنجوڑ رہا ہے کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ہمارے حکمران ٹیپو سلطان حیدر ؒ کے اسی ایک سنہری قول کو ورد ِ زباں اور حرزِ جاں بنا لیں تو اُمت مسلمہ کو درپیش سارے مسئلے ختم ہو سکتے ہیںآج برصغیر پاک و ہند کی سر زمین ٹیپو سلطان حیدر شہید ؒ کیلئے ترس رہی ہے ایک مومن مسلمان سمجھتا ہے کہ زندگی کی ہر سانس رب العزت کی امانت ہے اور یہ امانت کسی بھی وقت اُس مالک و خالق کے سُپرد کی جا سکتی ہے تو کیوں نہ اس کو اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے احکامات کےمطابق بسر کیا جائے سلطان ٹیپو ؒ جو اسلامی اقدار کا محافظ ، آبروئے اسلام ،عشق رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا مرد درویش ، فقر ِ غیور کا حامل ، عشق ِ جسور کی اداﺅں میں زندگی کا ہر لمحہ بسر کرنیوالا دلیر ، دلبر ، دل آراء، دلنواز ، روشن جبیں ، روشن چہرہ ، روشن گُہر ،روشن دماغ ،روشن چراغ اور انگریز سامراج سے لڑنے والا اب بھی زندہ ہے کیونکہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اِنہی نفوسِ قدسیہ کے بارے میں ارشاد فر مایا ”اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ہے “(البقرہ آیت 154)
ٹیپو سلطان حیدر ؒ نے سُرنگا پٹم کے مقام پر انگریز سامراج کو نا کوں چنے چبوا نے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ اُسکی رگوں میں اُس غیرت مند باپ کا پاکیزہ خون جوش مار رہا تھا جس نے انگریز سامراج اور اُسکے پٹھووں کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا ۔
ٹیپو سلطان حیدر ؒ نے ہمیشہ آبروئے مصطفیٰ ﷺ کے سائے میں زندگی بسر کی اور اپنے قول کو سچ ثابت کر دِ کھایا کہ ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر پسینہ سے شرابور عزت کے ساتھ کھائی گئی سوکھی روٹی کے ٹکڑے اور نانِ جویں فائیو سٹار ہوٹلز میں کارپٹڈ ، فرنشڈ اور یخ بستہ ماحول میںکھائے گئے بے توقیری کے ُمرغ مسلم اور چائینز کھانوں سے بہتر ہے کیونکہ یہی چٹائی توڑ جہادی صفات کے حامل مردانِ حُراور شاہسوار مغربی سامراج اور اُن کے پٹھووں کے لیے ”گردن توڑ بخار “ ثابت ہوتے ہیں آج بھی گوروں کے ماتھے پر سلطان ٹیپو ؒ کا نام سُن کر پسینہ آنے لگتا ہے اور وہ کانپنے لگتے ہیں جس کا مشاہدہ راقم کو اپنے دورہ لندن میں ایک ہال میں منعقدہ تقریب میں ہوا کہ جب راقم نے اپنی گفتگو میں ٹیپو سلطان حیدر ؒ کا نام لیا اور اُن کے سنہری کارناموں کا تذکرہ کیا تو وہاں ہال میں موجود ایک گورے کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور وہ دُم دبا کے وہاں سے ایسے بھا گا جیسے گیدڑ شیر کو دیکھ کر بھاگتا ہے ،ٹیپو سلطان ؒ نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں سے بھی نہایت ہی اچھا سلوک کیا ، سڑکوں کے ہر طرف جال بچھا دیے ، بڑے بڑے پانی کے ڈیم بنا دیے ، کئی فیکٹریاں لگا دی گئیں ، میسور میں اور آس پاس کے علاقوں میں شراب ، چرس و دیگر منشیات پر سخت پابندی لگادی گئی میسور میں بہت سارے خوبصورت قلعے بنا دیے گئے ، محلات قائم کر دیے گئے برطانوی فوج نے اُن کی وفات کے بعد قلعوں کو گرانا اور محلات کو مٹانا شروع کر دیا تاکہ ان عظیم یاد گاروں کو دیکھ کر مسلمانوں کی سوئی ہوئی حمیت و غیرت جاگ نہ جائے بنگلور میں آج بھی سلطان ٹیپو ؒ کے دور کی عظیم یاد گار قلعہ نما خوبصورت عمارت Summer Palaceکے نام سے موجود ہے جو آج بھی ”ٹائیگر آف میسور “ کی یاد کو ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے اور تازہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے یوں مسلمانوں کا یہ عظیم راہنما 4مئی 1799ءکو میسور کے دارالخلافہ سُر نگا پٹم کے مقام پر دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گیااور اس کو اپنے والد حیدر علی ؒ اور والدہ فاطمہ بیگم ؒ کے پہلو میں دفن کیا گیا سچ کہا تھا ”ٹائیگر آف میسور “ نے کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “ کاش ہمارے حکمران بھی اس حقیقت کو سمجھ جائیں ۔