سلطان ٹیپو مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام ہے ۔ متحدہ ہندوستان میں جب مغلوں کی حکومت تقریباًزوال پذیر ہو چکی تھی تو اس وقت ہندوستان کے انتہائی جنوب میں ریاست دکن کی آخری سرحدپر واقع میسور کی ایک بہت ہی چھوٹی سی ریاست کا یہ سلطان دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے دفاع کا آخری مورچہ تھا۔ ہندوستان میں اس وقت500 ریاستیں تھیں جن پر انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا تقریباً مکمل کنٹرول تھا لیکن میسور کی یہ چھوٹی سی ریاست جس میں پہلے تو صرف 33 دیہات تھے اور بعد میں حیدر علی اور سلطان ٹیپو کی فتوحات کی وجہ سے اس کا علاقہ 80000 مربع کلومیٹر تک پھیل گیا ، انگریزوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی۔سلطان ٹیپو نے 4 ؍مئی 1783 کو اس ریاست کا قانوناًچارج سنبھالا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کو ایک بہترین فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ سلطان ٹیپوصرف ایک بہادر جرنیل یا عسکری سپہ سالار ہی نہ تھا جس نے اپنی ایک بہت ہی زبردست فوج کھڑی کر لی تھی بلکہ وہ ایک صوم و صلوٰۃ کا پابند باعمل مسلمان، ایک بہترین ناظم اور ایک اہل بصیرت بہادر قائد تھا ۔ ایسا قائد جس کی مثال مسلمانوں کے 1000 سالہ دور حکومت میں بہت کم ملے گی ایک انگریز مصنف نے اپنی کتاب ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے صفحہ 226 پر میسور کی ریاست کے متعلق لکھا:۔
’’ جب ہم اسکے ملک میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صنعت و حرفت میں ترقی کی وجہ سے شہر آباد ہو رہے ہیں، رعایااپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین پر کھیتیاں لہلہارہی ہیں، رعایا اور فوج کے دل میں اپنے بادشاہ کیلئے محبت ہے۔ فوج کی تنظیم اور جدید آلات حرب و ضرب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میسور کی فوج یورپ کے مہذب سے مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں بھی پیچھے نہیںہے‘‘
اس میں شک نہیں کہ سلطان ٹیپو انگریزوں کے ہندوستان پر تسلط کو برداشت کرنے سے انکاری تھا۔ اگر مرہٹے، نظام حیدر آباد، ترکی ، ایران اور افغانستان جن کے حاکموں کو سلطان ٹیپو نے تعاون کیلئے اپیل کی تھی ، مان جاتے تو شاید آج ہندوستان کی تاریخ کافی حد تک مختلف ہوتی۔ ٹیپو سلطان نے جب انگریزوں کے دشمن فرانسیسیوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس پر انگریز ’’ بپھر‘‘ گئے اور اس طرح سلطان ٹیپو کی صفوں میں میر صادق کھڑے کر کے اس کو نہ صرف شکست دی بلکہ 4؍مئی 1799کو اس کو شہید کر ڈالا ۔ شہادت سے پہلے چند ساتھیوں نے سلطان ٹیپو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ انگریز کمانڈر کو بتائے کہ وہ سلطان ٹیپو ہے تا کہ اسکی جان بچ سکے اس پر سلطان ٹیپو نے یہ تاریخی جملہ کہا اور جام شہادت نوش کر لیا ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
جب انگریز کمانڈر جنرل پارس کو سلطان ٹیپو کی شہادت کی خبر پہنچائی گئی تو اس نے فوراًکہا :
’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اور واقعی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ جناب ڈاکٹر منصور حیات اٹک ضلع کی ایک بہت قابل احترام شخصیت ہیں جنہوں نے سابقہ وزیر اعظم شوکت عزیز کیخلاف قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا‘ وہ اور انکے بیٹے اخترحیات جانی خان اور ایڈوکیٹ ذوالفقار حیات پچھلے 20 سالوں سے ہر سال حسن ابدال میں سلطان ٹیپو کی برسی مناتے ہیں اس دفعہ 4؍مئی کو انہوں نے مجھے اس تقریب کی صدارت کا شرف بخشا تو میں واقعی حیران ہو گیا کہ پاکستان میں اب بھی ایسے لوگ ہیںجو نہ صرف مسلمانوں کی تاریخ کے ایک بہت بڑے ہیرو سلطان ٹیپو کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں بلکہ اس کی بخشش اور روح کو ایصال ثواب پہنچانے کیلئے دعا کا سالانہ اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سکندر حیات اور ان کی قابل فخر اولاد اس پر مبارک بادکی مستحق ہے ۔ اس تقریب کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت صحافی، تاجر ، علما اور درس و تدریس سے منسلک تقریباً ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود تھے جنہوں نے پاکستان کی قومی سلامتی اور یکجہتی کیلئے بہت ہی مثبت باتیں کیں کاروباری اور صحافی طبقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب ظفر بختاوری اور فدالرحمان ملک نے پر مغز تقاریر کیں ۔
ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی جناب وسیم اختر جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے نے کہا کہ ہماری اسمبلیوں میں اس وقت ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کی باتیں سن کر گھن آتی ہے انہوں نے کہا امیر غریبوں کی نمائندگی نہیں کر سکتے آپکو غریب اور عام لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجنا ہو گا جن تک آپکی رسائی ممکن ہو۔سفید کلف دار کپڑے پہن کر پراڈو گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو سلام نہ کرو ان میں اکثرچور ہیں ۔ میں خود سنتا ہوں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ رات کو کس محفل میں جانا ہے اور لاہور سے کس کو منگوانا ہے۔ وسیم اختر کی باتیں بہت اچھی اور کھری تھیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے گورنری اور وزارتیں لیکر پہلے ملک میں ڈکٹیٹرشپ کو طول دینے میں مکمل تعاون کیا اور اب اسی طرح کی سہولیات لیکر ان وڈیروں کیساتھ ہیں جن کو وہ خود کہتے ہیں کہ وہ عوامی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایم کیو ایم عام لوگوں کی جماعت ہے اور ایسی جماعت کی جڑیں اگر پورے ملک میں مضبوط ہو جائیں تو ملک کیلئے بہتر ہو گا لیکن اس جماعت کی قیادت کو اپنے ماضی، جس کا ذکر وسیم اختر نے خود کیا، کو پاک کرنے کیلئے ایسے نئے چہرے سامنے لانے ہونگے جو اپنی دیانت داری، انکساری ، اعلیٰ اخلاق اور غیر ملیٹینٹ رویے سے لوگوں کے دل و دماغ فتح کر سکیں۔ قارئین مغرب کے ایک مشہور مفکر البرٹ آئین سٹائین نے کہا تھا:۔
\\\"Try not to become a man of success but rather try to become a man of value\\\"
یعنی اگر زندگی میں کامیابی یا اعلی اقدار کی پاسداری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو اقدار کو ترجیح دی جائے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح سلطان ٹیپو کو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں سے نوازا تھا وہ ایک کامیاب قائد تھا اور ایک Man of Values بھی لیکن کاش کہ آج جو قیادت مسلم دنیا کو میسر ہے اس میں سے کسی راہبر کو بھی آپ Man of Values کہہ سکیں۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آج صحیح معنوں میں ہمیں ایک ایسے سلطان ٹیپو کی ضرورت ہے جو Man of Values ہو۔
’’ جب ہم اسکے ملک میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صنعت و حرفت میں ترقی کی وجہ سے شہر آباد ہو رہے ہیں، رعایااپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین پر کھیتیاں لہلہارہی ہیں، رعایا اور فوج کے دل میں اپنے بادشاہ کیلئے محبت ہے۔ فوج کی تنظیم اور جدید آلات حرب و ضرب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میسور کی فوج یورپ کے مہذب سے مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں بھی پیچھے نہیںہے‘‘
اس میں شک نہیں کہ سلطان ٹیپو انگریزوں کے ہندوستان پر تسلط کو برداشت کرنے سے انکاری تھا۔ اگر مرہٹے، نظام حیدر آباد، ترکی ، ایران اور افغانستان جن کے حاکموں کو سلطان ٹیپو نے تعاون کیلئے اپیل کی تھی ، مان جاتے تو شاید آج ہندوستان کی تاریخ کافی حد تک مختلف ہوتی۔ ٹیپو سلطان نے جب انگریزوں کے دشمن فرانسیسیوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس پر انگریز ’’ بپھر‘‘ گئے اور اس طرح سلطان ٹیپو کی صفوں میں میر صادق کھڑے کر کے اس کو نہ صرف شکست دی بلکہ 4؍مئی 1799کو اس کو شہید کر ڈالا ۔ شہادت سے پہلے چند ساتھیوں نے سلطان ٹیپو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ انگریز کمانڈر کو بتائے کہ وہ سلطان ٹیپو ہے تا کہ اسکی جان بچ سکے اس پر سلطان ٹیپو نے یہ تاریخی جملہ کہا اور جام شہادت نوش کر لیا ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
جب انگریز کمانڈر جنرل پارس کو سلطان ٹیپو کی شہادت کی خبر پہنچائی گئی تو اس نے فوراًکہا :
’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اور واقعی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ جناب ڈاکٹر منصور حیات اٹک ضلع کی ایک بہت قابل احترام شخصیت ہیں جنہوں نے سابقہ وزیر اعظم شوکت عزیز کیخلاف قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا‘ وہ اور انکے بیٹے اخترحیات جانی خان اور ایڈوکیٹ ذوالفقار حیات پچھلے 20 سالوں سے ہر سال حسن ابدال میں سلطان ٹیپو کی برسی مناتے ہیں اس دفعہ 4؍مئی کو انہوں نے مجھے اس تقریب کی صدارت کا شرف بخشا تو میں واقعی حیران ہو گیا کہ پاکستان میں اب بھی ایسے لوگ ہیںجو نہ صرف مسلمانوں کی تاریخ کے ایک بہت بڑے ہیرو سلطان ٹیپو کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں بلکہ اس کی بخشش اور روح کو ایصال ثواب پہنچانے کیلئے دعا کا سالانہ اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سکندر حیات اور ان کی قابل فخر اولاد اس پر مبارک بادکی مستحق ہے ۔ اس تقریب کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت صحافی، تاجر ، علما اور درس و تدریس سے منسلک تقریباً ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود تھے جنہوں نے پاکستان کی قومی سلامتی اور یکجہتی کیلئے بہت ہی مثبت باتیں کیں کاروباری اور صحافی طبقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب ظفر بختاوری اور فدالرحمان ملک نے پر مغز تقاریر کیں ۔
ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی جناب وسیم اختر جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے نے کہا کہ ہماری اسمبلیوں میں اس وقت ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کی باتیں سن کر گھن آتی ہے انہوں نے کہا امیر غریبوں کی نمائندگی نہیں کر سکتے آپکو غریب اور عام لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجنا ہو گا جن تک آپکی رسائی ممکن ہو۔سفید کلف دار کپڑے پہن کر پراڈو گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو سلام نہ کرو ان میں اکثرچور ہیں ۔ میں خود سنتا ہوں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ رات کو کس محفل میں جانا ہے اور لاہور سے کس کو منگوانا ہے۔ وسیم اختر کی باتیں بہت اچھی اور کھری تھیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے گورنری اور وزارتیں لیکر پہلے ملک میں ڈکٹیٹرشپ کو طول دینے میں مکمل تعاون کیا اور اب اسی طرح کی سہولیات لیکر ان وڈیروں کیساتھ ہیں جن کو وہ خود کہتے ہیں کہ وہ عوامی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایم کیو ایم عام لوگوں کی جماعت ہے اور ایسی جماعت کی جڑیں اگر پورے ملک میں مضبوط ہو جائیں تو ملک کیلئے بہتر ہو گا لیکن اس جماعت کی قیادت کو اپنے ماضی، جس کا ذکر وسیم اختر نے خود کیا، کو پاک کرنے کیلئے ایسے نئے چہرے سامنے لانے ہونگے جو اپنی دیانت داری، انکساری ، اعلیٰ اخلاق اور غیر ملیٹینٹ رویے سے لوگوں کے دل و دماغ فتح کر سکیں۔ قارئین مغرب کے ایک مشہور مفکر البرٹ آئین سٹائین نے کہا تھا:۔
\\\"Try not to become a man of success but rather try to become a man of value\\\"
یعنی اگر زندگی میں کامیابی یا اعلی اقدار کی پاسداری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو اقدار کو ترجیح دی جائے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح سلطان ٹیپو کو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں سے نوازا تھا وہ ایک کامیاب قائد تھا اور ایک Man of Values بھی لیکن کاش کہ آج جو قیادت مسلم دنیا کو میسر ہے اس میں سے کسی راہبر کو بھی آپ Man of Values کہہ سکیں۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آج صحیح معنوں میں ہمیں ایک ایسے سلطان ٹیپو کی ضرورت ہے جو Man of Values ہو۔