خدا خدا کرکے نظام عدل ریگولیشن نافذ کرنے کے اعلانات اور ابتدائی اقدامات کی وجہ سے سوات میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی تھی کہ امریکہ اور بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگیا اور پاکستان کے ان دونوں نام نہاد’’خیر خواہوں‘‘ نے یہ بیان بازی شروع کر دی کہ پاکستان پر طالبان کی یلغار کی وجہ سے اب اس ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ رہا ہے جسکی وجہ سے نہ صرف افغانستان اور پورا خطہ طالبان کے قبضے میں آ جائیگا بلکہ ولی اور واشنگٹن پر بھی طالبان کے قبضے کو روکا نہیں جا سکے گا۔ یہ پروپیگنڈہ اس شدت اور ہمہ گیر طریقہ سے کیا گیا کہ دنیا کے دوسرے غیر جانبدار ممالک میں بھی اس واہمہ اور پراپیگنڈہ کو ایک حقیقت سمجھا جانے لگا۔ امریکہ اور یورپی قومیں پراپیگنڈہ کی مہمیں چلانے میں یدطولیٰ رکھتی ہیں اس لئے انکی پراپیگنڈہ مہمیں کامیاب ہو جاتی ہیں گوئیبلز نے کہا تھا کہ کسی جھوٹ کا اس تواتر اور سختی سے اعادہ کرو کہ وہ سچ دکھائی دینے لگے۔ چنانچہ ہمارے حکمران اور ہماری سیاسی جماعتیں اور انکے لیڈر بھی اس پراپیگنڈہ کے باعث بوکھلا گئے اور ہر کسی نے امریکی بھارتی راگ الاپنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف امریکی حکومت نے نظری طور پر ہماری کمزور حکومت پر اس قدر دبائو ڈالا اور پراپیگنڈہ کی وہ یلغار کی کہ ہمارے حکمرانوں نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور اس مسئلے پر غور و خوض شروع کر دیا گیا کہ سوات میں امن عامہ کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے بیشک اسے بھی برباد کرکے رکھ دیا جائے لیکن امریکی آقایان ولی نعمت خوش ہو جائیں۔
کون نہیں جانتا کہ ملاکنڈ، کوہستان اور ہزارہ ڈویژنوں سمیت صوابی اور مردان تک تمام پختون جو اول و آخر کٹر مسلمان ہیں نظریاتی طورپر اسلامی نظام عدل و انصاف کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ انصاف کے بنیادی تقاضوں سے مستفید ہونے کیلئے انکے نفاذ کے حق میں ہمیشہ سے صف اول میں رہے ہیں اس بنیادی فطری ہی نہیں عملی اور حقیقی خواہش کی تکمیل کے نتیجے میں سوات میں امن قائم ہوا۔ اس دوران میں یقیناً سرحد میں بعض مقامات پر خودکش حملے ہوئے اور دھمکیاں بھی دی گئیں جنہیں کسی نے پسند نہ کیا یہاں تک کہ مولانا صوفی محمد کے بعض اعلانات کو قابل اصلاح قرار دیتے ہوئے بونیر میں بھی مفاہمت اور صلح جوئی کا راستہ نکالا جائے لیکن اسکے برعکس25 اپریل کے آغاز پر ہی لوئردیر پر حملے کا آغاز کر دیا گیا جو یقیناً محب وطن پاکستانیوں کے نزدیک غلط اقدام تھا اور عسکری سطح پر ایسی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔
جس طرح1971ء میں جب ڈھاکہ میں پاکستانی افواج کو اتارا گیا تھا اور ابتدائی دو تین مہینوں میں ہی اس امر کے اعلانات شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوگئے تھے کہ ’’ہم نے مشرقی پاکستان کو تخریب کاروں، وطن دشمنوں اور پاکستان توڑنے والوں سے نجات دلادی ہے۔ فلاں، فلاں علاقوں سے مخالفین پاکستان اور دشمنان پاکستان کو بھگا دیا گیا ہے اور اب عساکر پاکستان کا ان علاقوں پر قبضہ ہوگیا ہے اسی طرح کی صورتحال کچھ موجودہ حالات میں بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے دعاوی بڑی حد تک غلط اور بے بنیاد ہیں۔ ہمارے مسائل و مصائب کا آغاز کیسے ہوا یہ بہت طویل موضوع ہے اس سلسلے میں امریکہ اور سوویت یونین کی آویزش کے پس منظر میں جب سوویت یونین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہم افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس دور میں اب سوویت یونین کو افغانستان سے بھاگنا پڑا اور امریکہ کی گہری ڈپلومیسی اور مسلمانان عالم کی جہادی یلغار کامیاب ہوگئی تو امریکہ نے وہاں سے بھاگنا چاہا اس مقصد کیلئے ایک منصوبے کے تحت پاکستان اور افغانوں کو منجدھار میں چھوڑ کر جنیوا معاہدہ کرایا اس طرح افغانستان کے متحارب گروہوں میں خوفناک دور کا آغاز ہوا یہ امریکہ کی طرف سے انسانی غداری کا بدترین اقدام تھا۔ یہ معاہدہ دراصل اس تمام تباہی کا آغاز ثابت ہوا جس کا نتیجہ آج ہم بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں بھگت رہے ہیں۔ اس وقت خود غرض امریکہ اور پاکستان کے بزدل اور نااہل حکمران اس امر کی بصیرت سے بے بہرہ تھے کہ اگر افغانستان میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی عبوری حکومت قائم نہ کی گئی تو اس خلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کے ایک ایسے عذاب میں مبتلا ہو جائیگا جس سے اس کا نکلنا ممکن نہیں رہے گا چنانچہ محض ریکارڈ کی درستی کیلئے اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو نے جنیوا معاہدہ کے حق میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے دورے شروع کر رکھے تھے۔ وہ پشاور بھی تشریف لائے اور نشتر ہال میں تقریر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیئے جائیں۔ راقم نے اسکی مخالفت میں خیالات کا اظہار کیا۔ بالخصوص راقم نے اپنے نصف صدی کے تجربے کی بناء پر یہ تجویز پیش کی کہ اگر 1947ء کی طرح جب انگریز برصغیر سے رخت سفر باندھ رہا تھا اور عبوری حکومت قائم کی گئی تھی اسکے باوجود لاکھوں انسان نہ صرف مارے گئے بلکہ کروڑوں کا تبادلہ آبادی بھی ہوا افغانستان میں اگر اقوام متحدہ کے تحت عبوری حکومت قائم نہ کی گئی تو یہ خطہ تباہی اور بربادی کا ہولناک منظر پیش کرنا شروع کر دیگا کسی نے اس موقف پر کان نہ دھرا اسکے ساتھ ہی خود غرض اور بے وفا امریکی’’دوست‘‘ افغانستان اور پاکستان کو انکے حال پر چھوڑ کر اس خطے کو آتش و آہن کے آتش کدے میں جھونک کر رفو چکر ہوگئے۔ اب امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن جو برصغیر کی اختلافی سیاست سے پوری طرح آگاہ ہیں اور دلی طور پر انتہائیPro-India ہیں، نے 24 اپریل 2004ء کو کانگرس کے سامنے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوویت یونین کی تباہی کے بعد امریکہ نے پاکستان کو اسکے حال پر چھوڑ دیا جو نہایت غلط تھا اور اعتراف کیا کہ یہ امریکہ کی پاکستان کیساتھ سب سے بڑی بے وفائی تھی۔‘‘
اس پس منظر کو بیان کرنیکی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ اپریل 2004ء میں جب امریکی مقرر کردہ آمر پرویز مشرف نے پاکستان کی بہادر افواج کو قبائلی علاقوں کو ’’فتح‘‘ کرنے کیلئے بھیجنے کے دعاوی کئے تو راقم نے اس وقت بھی پورے پاکستان سے آمدہ مدیران جرائد اور کالم نگاروں کی موجودگی میں صدر سے کہا کہ ’’ایسا ہر گز نہ کیجئے اگر ایک بار آپ نے پاکستانی افواج کو قبائلی علاقوں میں بھجوا دیا تو پھر ہمارا وہاں سے نکلنا ممکن نہیں رہیگا‘‘ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ اب حالات یہاں تک لے آئے ہیں کہ ہمارے حکمران امریکہ کی خوشنودی کیلئے اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور انکے ڈرون حملوں کے سامنے بھی ’’میمنے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں حالات جس صورت میں تباہی کی طرف جا رہے تھے انہیں حل کرنے کیلئے عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکولر جماعت کا مولانا صوفی محمد سے معاہدہ کوئی آسان کام نہیں تھا یہ وہ کڑوی گولی تھی جو پختون عوام کو ہولناک تباہی اور بربادی سے بچانے کیلئے نگلی گئی لیکن اس پر امریکہ اور بھارت کیساتھ ساتھ سب سے زیادہ تکلیف لندن میں ہمارے ’’’نئے حکمران الطاف حسین‘‘ کو ہوئی انکے ساتھ ہی دوسری طاقتوں نے ایسا ہنگامہ برپا کر دیا جیسے آصف زرداری یوسف رضا گیلانی اور اسفند یارولی سب پاکستان کے دشمن ہیں اور صرف امریکہ بھارت، الطاف حسین ہی کو پاکستان اور پاکستانی عوام کی حفاظت کا جذبہ تڑپا رہا ہے۔
اب بلاشبہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ اطلاعات کیمطابق ’’لال قلعہ کو فتح‘‘ کر لیا گیا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب اس علاقے میں’’شرپسند عناصر کا قلع قمع‘‘ ہو جائیگا یہ دعاوی ہمارے نزدیک محل نظر ہیں خدا کرے کہ رحمان ملک سمیت ہمارے حکمران جو دعوے کر رہے ہیں وہ درست ثابت ہوں لیکن ہمیں اسکی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اس سلسلے میں 24 اپریل 2009ء کو پی پی پی، اے این پی، پی پی پی(شیرپائو)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان مسلم لیگ(ق)، تحریک نفاذ شریعت محمدی، تبلیغی جماعت اور اشاعت توحید و سنت کے ایک نمائندہ اجلاس میں اس امر کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ مسائل قطعی طور پر طاقت کے بل پر حل نہیں کئے جا سکیں گے اس کیلئے متفقہ اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے اس عزم مصمم کا اظہار کیا ہے کہ یہ تمام مسائل باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم سے طے ہو سکتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں نے اپنی معلومات کے مطابق لوئر دیر پر جس طاقت کا استعمال کیا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اسکے برعکس حکومت کو اس علاقے کے تمام سیاسی عناصر سے جن کا 26 اپریل کو سواڑی میں اجتماع ہوا ان سے رابطہ قائم کرکے اصلاح احوال کی صورت میں پیدا کرنی چاہئے۔
پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ میریٹ ہوٹل کے ہولناک دھماکے کے پیچھے کون تھا‘ پاکستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں اسکے محرکات کیا ہیں؟ یہ سب کچھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن بجائے اس سے کہ امریکہ اور انکے حواری پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے کیلئے دوستانہ تعاون کرتے اسکے تھنک ٹینک سیاست دان اور پینٹاگون کے ماہرین طرح طرح کی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستانی افواج کی طرف سے عسکری مداخلت تیسرا بڑا بلنڈر ثابت نہ ہو…!
کون نہیں جانتا کہ ملاکنڈ، کوہستان اور ہزارہ ڈویژنوں سمیت صوابی اور مردان تک تمام پختون جو اول و آخر کٹر مسلمان ہیں نظریاتی طورپر اسلامی نظام عدل و انصاف کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ انصاف کے بنیادی تقاضوں سے مستفید ہونے کیلئے انکے نفاذ کے حق میں ہمیشہ سے صف اول میں رہے ہیں اس بنیادی فطری ہی نہیں عملی اور حقیقی خواہش کی تکمیل کے نتیجے میں سوات میں امن قائم ہوا۔ اس دوران میں یقیناً سرحد میں بعض مقامات پر خودکش حملے ہوئے اور دھمکیاں بھی دی گئیں جنہیں کسی نے پسند نہ کیا یہاں تک کہ مولانا صوفی محمد کے بعض اعلانات کو قابل اصلاح قرار دیتے ہوئے بونیر میں بھی مفاہمت اور صلح جوئی کا راستہ نکالا جائے لیکن اسکے برعکس25 اپریل کے آغاز پر ہی لوئردیر پر حملے کا آغاز کر دیا گیا جو یقیناً محب وطن پاکستانیوں کے نزدیک غلط اقدام تھا اور عسکری سطح پر ایسی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔
جس طرح1971ء میں جب ڈھاکہ میں پاکستانی افواج کو اتارا گیا تھا اور ابتدائی دو تین مہینوں میں ہی اس امر کے اعلانات شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوگئے تھے کہ ’’ہم نے مشرقی پاکستان کو تخریب کاروں، وطن دشمنوں اور پاکستان توڑنے والوں سے نجات دلادی ہے۔ فلاں، فلاں علاقوں سے مخالفین پاکستان اور دشمنان پاکستان کو بھگا دیا گیا ہے اور اب عساکر پاکستان کا ان علاقوں پر قبضہ ہوگیا ہے اسی طرح کی صورتحال کچھ موجودہ حالات میں بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے دعاوی بڑی حد تک غلط اور بے بنیاد ہیں۔ ہمارے مسائل و مصائب کا آغاز کیسے ہوا یہ بہت طویل موضوع ہے اس سلسلے میں امریکہ اور سوویت یونین کی آویزش کے پس منظر میں جب سوویت یونین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہم افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس دور میں اب سوویت یونین کو افغانستان سے بھاگنا پڑا اور امریکہ کی گہری ڈپلومیسی اور مسلمانان عالم کی جہادی یلغار کامیاب ہوگئی تو امریکہ نے وہاں سے بھاگنا چاہا اس مقصد کیلئے ایک منصوبے کے تحت پاکستان اور افغانوں کو منجدھار میں چھوڑ کر جنیوا معاہدہ کرایا اس طرح افغانستان کے متحارب گروہوں میں خوفناک دور کا آغاز ہوا یہ امریکہ کی طرف سے انسانی غداری کا بدترین اقدام تھا۔ یہ معاہدہ دراصل اس تمام تباہی کا آغاز ثابت ہوا جس کا نتیجہ آج ہم بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں بھگت رہے ہیں۔ اس وقت خود غرض امریکہ اور پاکستان کے بزدل اور نااہل حکمران اس امر کی بصیرت سے بے بہرہ تھے کہ اگر افغانستان میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی عبوری حکومت قائم نہ کی گئی تو اس خلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کے ایک ایسے عذاب میں مبتلا ہو جائیگا جس سے اس کا نکلنا ممکن نہیں رہے گا چنانچہ محض ریکارڈ کی درستی کیلئے اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو نے جنیوا معاہدہ کے حق میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے دورے شروع کر رکھے تھے۔ وہ پشاور بھی تشریف لائے اور نشتر ہال میں تقریر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیئے جائیں۔ راقم نے اسکی مخالفت میں خیالات کا اظہار کیا۔ بالخصوص راقم نے اپنے نصف صدی کے تجربے کی بناء پر یہ تجویز پیش کی کہ اگر 1947ء کی طرح جب انگریز برصغیر سے رخت سفر باندھ رہا تھا اور عبوری حکومت قائم کی گئی تھی اسکے باوجود لاکھوں انسان نہ صرف مارے گئے بلکہ کروڑوں کا تبادلہ آبادی بھی ہوا افغانستان میں اگر اقوام متحدہ کے تحت عبوری حکومت قائم نہ کی گئی تو یہ خطہ تباہی اور بربادی کا ہولناک منظر پیش کرنا شروع کر دیگا کسی نے اس موقف پر کان نہ دھرا اسکے ساتھ ہی خود غرض اور بے وفا امریکی’’دوست‘‘ افغانستان اور پاکستان کو انکے حال پر چھوڑ کر اس خطے کو آتش و آہن کے آتش کدے میں جھونک کر رفو چکر ہوگئے۔ اب امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن جو برصغیر کی اختلافی سیاست سے پوری طرح آگاہ ہیں اور دلی طور پر انتہائیPro-India ہیں، نے 24 اپریل 2004ء کو کانگرس کے سامنے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوویت یونین کی تباہی کے بعد امریکہ نے پاکستان کو اسکے حال پر چھوڑ دیا جو نہایت غلط تھا اور اعتراف کیا کہ یہ امریکہ کی پاکستان کیساتھ سب سے بڑی بے وفائی تھی۔‘‘
اس پس منظر کو بیان کرنیکی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ اپریل 2004ء میں جب امریکی مقرر کردہ آمر پرویز مشرف نے پاکستان کی بہادر افواج کو قبائلی علاقوں کو ’’فتح‘‘ کرنے کیلئے بھیجنے کے دعاوی کئے تو راقم نے اس وقت بھی پورے پاکستان سے آمدہ مدیران جرائد اور کالم نگاروں کی موجودگی میں صدر سے کہا کہ ’’ایسا ہر گز نہ کیجئے اگر ایک بار آپ نے پاکستانی افواج کو قبائلی علاقوں میں بھجوا دیا تو پھر ہمارا وہاں سے نکلنا ممکن نہیں رہیگا‘‘ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ اب حالات یہاں تک لے آئے ہیں کہ ہمارے حکمران امریکہ کی خوشنودی کیلئے اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور انکے ڈرون حملوں کے سامنے بھی ’’میمنے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں حالات جس صورت میں تباہی کی طرف جا رہے تھے انہیں حل کرنے کیلئے عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکولر جماعت کا مولانا صوفی محمد سے معاہدہ کوئی آسان کام نہیں تھا یہ وہ کڑوی گولی تھی جو پختون عوام کو ہولناک تباہی اور بربادی سے بچانے کیلئے نگلی گئی لیکن اس پر امریکہ اور بھارت کیساتھ ساتھ سب سے زیادہ تکلیف لندن میں ہمارے ’’’نئے حکمران الطاف حسین‘‘ کو ہوئی انکے ساتھ ہی دوسری طاقتوں نے ایسا ہنگامہ برپا کر دیا جیسے آصف زرداری یوسف رضا گیلانی اور اسفند یارولی سب پاکستان کے دشمن ہیں اور صرف امریکہ بھارت، الطاف حسین ہی کو پاکستان اور پاکستانی عوام کی حفاظت کا جذبہ تڑپا رہا ہے۔
اب بلاشبہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ اطلاعات کیمطابق ’’لال قلعہ کو فتح‘‘ کر لیا گیا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب اس علاقے میں’’شرپسند عناصر کا قلع قمع‘‘ ہو جائیگا یہ دعاوی ہمارے نزدیک محل نظر ہیں خدا کرے کہ رحمان ملک سمیت ہمارے حکمران جو دعوے کر رہے ہیں وہ درست ثابت ہوں لیکن ہمیں اسکی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اس سلسلے میں 24 اپریل 2009ء کو پی پی پی، اے این پی، پی پی پی(شیرپائو)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان مسلم لیگ(ق)، تحریک نفاذ شریعت محمدی، تبلیغی جماعت اور اشاعت توحید و سنت کے ایک نمائندہ اجلاس میں اس امر کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ مسائل قطعی طور پر طاقت کے بل پر حل نہیں کئے جا سکیں گے اس کیلئے متفقہ اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے اس عزم مصمم کا اظہار کیا ہے کہ یہ تمام مسائل باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم سے طے ہو سکتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں نے اپنی معلومات کے مطابق لوئر دیر پر جس طاقت کا استعمال کیا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اسکے برعکس حکومت کو اس علاقے کے تمام سیاسی عناصر سے جن کا 26 اپریل کو سواڑی میں اجتماع ہوا ان سے رابطہ قائم کرکے اصلاح احوال کی صورت میں پیدا کرنی چاہئے۔
پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ میریٹ ہوٹل کے ہولناک دھماکے کے پیچھے کون تھا‘ پاکستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں اسکے محرکات کیا ہیں؟ یہ سب کچھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن بجائے اس سے کہ امریکہ اور انکے حواری پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے کیلئے دوستانہ تعاون کرتے اسکے تھنک ٹینک سیاست دان اور پینٹاگون کے ماہرین طرح طرح کی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستانی افواج کی طرف سے عسکری مداخلت تیسرا بڑا بلنڈر ثابت نہ ہو…!