
گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
معاشروں کی اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ ثقافت معاشروں کی شناخت بھی ہوتی ہے۔ ثقافت کو نظرانداز کیا جائے تو شناخت معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آج پنجاب اور سندھ کی ثقافت کو ایک سازش کے تحت پس پش ڈال کر دیگر ثقافتوں کو مسلط کیا جا رہا ہے۔ ارتقائی تقاضوں سے بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں مگر ثقافت اپنا وجود برقرار رکھتی ہے تاآنکہ کوئی کسی معاشرے کی ثقافت کو سازش سے تبدیل نہ کر دے۔ پنجاب میں کبھی میلے ہوا کرتے تھے، کبڈی کھیلی جاتی تھی، بسنت کا تہوار بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ اب رفتہ رفتہ یہ تہوار معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں کچھ تہوار تو جیسے گندم کی کٹائی پر بیساکھی اور گندم منڈیوں میں جانے کے بعد میلے لگا کرتے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھو رہے ہیں مگر بسنت کے تہوار کی تو کچھ لوگ کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ اسے قاتل تہوار قرار دیتے ہیں۔ بسنت بہار کے موسم کی نوید کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اس کے کیا کیا رنگ ڈھنگ تھے۔ کسی حکومت نے اس کی مخالفت نہیں کہ جنرل ضیائ کو زیادہ ہی اسلام پسند سمجھا جاتا ہے ضیا شاہی کے بدترین دور میں بھی بسنت کا تہوار ’’راحت جاں‘‘ تھا۔ آسمان دلہن کی طرح سج جاتا تھا اور زمین والے اس نظارے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
ملک کے دیگر شہروں اور صوبوں سے لوگ انھی دنوں لاہور آتے اور اس رنگارنگی کا حصہ بنتے تھے۔ داتا صاحب، میاں میر، مادھو لال حسین، بلھے شاہ اور پیر عنایت قادری کے میلوں کی طرح ’’بسنت میلہ‘‘ میں بھی لوگ جوق درجوق شریک ہوتے تھے۔ البتہ بسنت کے دن انھیں کسی مزار پر زیارت کی بجاے بس اپنا کوٹھا ہی سجانا ہوتا تھا۔کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو اس تہوار پر پہلے دن سے اعتراض تھا مگر ان کی آواز پر لوگ دھیان نہیں دیتے تھے۔ یہ تہوار لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی وقفے وقفے سے ہوتا تھا۔کیا پر رو نق تہوار تھا اسی بنا پرکچھ لوگ اس سے خار کھانے لگے۔ یہ مقامی تہوار ہے اس کے خاتمے کے لیے امپورٹڈ ثقافت کے علمبردار طرح طرح کی تھیوریاں سامنے لانے لگے۔ بسنت تہوار کا ایک ایونٹ پتنگ بازی ہے۔ پتنگ بازی سے یقینا کبھی کبھی کوئی نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ پتنگ بازی چھت پر کی جاتی ہے، کبھی کوئی بچہ چھت سے گر جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ مہلک ڈور سے کوئی زخمی ہوا اور جان سے جاتا ہے۔ بچہ چھت سے گرے یا کوئی شخص ڈور سے زخمی ہو۔ اس میں بسنت اور پتنگ کا کیا قصور ہے؟ والدین بچوں کا خیال رکھیں۔ سادہ ڈور سے ہمیشہ پتنگ بازی ہوتی تھی۔ اس کو ہلاکت خیز شیشہ لگانے والوں نے بنا دیا۔ ان کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے بسنت کی بندش پر تْل گئے ،کتنے ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، کیا گاڑیاں بند کر دی جائیں۔ یورپ میں بْل فائٹنگ میں کتنے ہی لوگ مر جاتے ہیں۔ سکیٹنگ سے اموات ہوتی ہیں مگر یہ تہوار جاری رہتے ہیں۔ مسئلہ کچھ لوگوں کو بسنت سے ہے۔ کچھ خبطی ثقافت اور مذہب کو خلط ملط کر جاتے ہیں۔ ثقافت اور مذہب الگ الگ ہیں۔ اسلام سے قبل بھی اور بعد میں بھی عرب میں دف، بیلے، موسیقی ،نیزہ بازی اور گھڑسواری ہوتی ہے۔ عربوں کے لباس کا حصہ جبّہ بھی ہے۔ ہمارے لیے وہی لباس ضروری نہیں۔ ہم شلوار قمیض ،لنگی،کْرتا پہنتے ہیں۔ ہر وہ لباس اسلامی ہے جس سے سطر ڈھانپا رہے۔
معاشرے میں کئی خرافات ثقافت کی دوری کی وجہ سے بھی در آئی ہیں۔ بچے کھیلوں سے دور رہیں گے۔ مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے تو منشیات اور جرائم کی راہ پر چل نکلیں گے۔ آج نئی نسل واقعی تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ جنونیوں کا کیا دھرا ہے اور حکومتوں کی کمزوریاں اور معاشرہ کش پالیسیاں ہیں۔ حکومت اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے جو معاشرے میں نئی نسل کی افزائش اور کردار سازی کے متعلق کرنا چاہیے تھا۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں شہروں اور دیہات میں بڑے چھوٹے کھیل کے میدانوں کی تعداد23سو ہے جبکہ جنونیت کو فروغ دینے والے مدرسوں کی تعداد55ہزار ہے۔ سکولوں اور مدارس میں یکساں نصاب کا نہ ہونا حکومتوں کی نالائقی ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے مدارس میں جدید تعلیم کو متعارف کرا کے شدت پسندی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ عام سکولوں میں مذہبی تعلیم تو پہلے ہی دی جا رہی ہے۔ معاشرے کو زندہ رکھنے اور اس کی شناخت کو اجاگر کرنے کے لیے ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ بسنت ہماری ثقافت کا جزولاینفک ہے۔
ہمارے اکثر حکمران ٹورازم انڈسٹری کوانڈسٹریز کا درجہ دیئے جانے کا واویلا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں ثقافتی تہوار ایک ایسی زرمبادلہ لانے والی انڈسٹریز یا صنعت ہوتی ہے جس کو کسی تشہیر اور مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اور چونکہ مقامی طور لوگ اس ثقافت سے وابستہ ہوتے ہیں اور ایسے تہوار منانے سے ملک میں پیسے کا سرکل چلتا رہتا ہے۔ترقی یافتہ قوموں نے تو متعدد نئے تہوار متعارف کروا کے اپنی معیشت اور ٹورازم اینڈ انٹرٹینمنٹ انڈسٹریز کو بھوم بخشا ہے۔مثلاً ویلنٹائن ڈے ، مدر ڈے ، فادر ڈے، ٹیچر ڈے اور متعدد ایسے تہواروں کو وہ سال بھر مختلف طریقے سے مناتے ہیں۔جن سے ان ممالک کی معیشت کو مضبوطی ملتی ہے اور پیسے کا سرکل جاری رہتا ہے۔اور ہمارے خطے کے لوگوں کے پاس جتنے بھی اعلیٰ درجے کے ثقافتی تہوار صدیوں سے رائج تھے ہم نے رفتہ رفتہ ان سے جان چھڑا کر اپنے معاشرے کو جنونیت اورمنشیات سے زیادہ قریب کر دیا ہے۔آج پاکستان کے کھیلوں کے میدان صرف اس لیے خالی اور ویران پڑے ہیں کہ ہم نے عوام سے یہ ثقافتی انٹرٹینمنٹ چھین لی ہے۔جبکہ انسانی جبلت کا تقاضا ہے کہ انسان چھوٹی موٹی اور تھوڑی بہت انٹرٹینمنٹ اور تبدیلی چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب عام پبلک کو انٹرٹینمنٹ کا کوئی موقع نہیں ملتا تو وہ سیاسی جلسوں میں جا کر بھنگڑا ڈالنا ،نعرے بازی کرنا اور ہلہ گْلہ کرکے اپنی انٹرٹینمنٹ کو کسی حد تک پورا کر لیتے ہیں۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ خدارا پنجاب سے اس کی پنجابی زبان تو آپ نے پہلے ہی چھین لی ہے جب کہ اب دھوتی اور کْرتا پہنے ہوئے بھی چند مخصوص لوگ گا?ں میں نظر آ جاتے ہیں۔اور اب اگر پنجاب سے اس کی ثقافت بھی چھین لی گئی تو اٹھارہ کروڑ کا یہ صوبہ اور اس کے عوام بے قابو ہو کر کہیں کوئی ایسے طوفان کا پیش خیمہ نہ بن جائیں کہ جنہیں پھر سنبھالنا مشکل ہو۔