ریاست مدینہ نیا پاکستان اور پنشنرز
کسی ملک کا آہن دستور اس ملک کی حفاظت‘ عوام کو انصاف روزگار‘ علاج معالجہ اور معاہدوں کی پاسداری شخصی آزادی کے ساتھ جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سال2019 ء کے مالی سال سے آج تک ملازمین کی تنخواہ اور پنشنر کی سالانہ انکریمنٹ بند کردی ہے۔ ملازمین کی کلرکس ایسوسی ایشن ایک سال تو پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارہ کیا لیکن آخر تنگ آ کر پورے پاکستان اور اسلام آباد میں سخت سردیوں کی راتوں میں لاٹھی چارج آنسو گیس کی شیلنگ برداشت کی۔ جزوی طور پر کچھ مطالبات تسلیم ہوئے۔ اس کا بھی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ شیخ رشید وزیر داخلہ نے حالات کا جب حقیقی جائزہ لیا۔ اعلان فرمایا کہ وہ خود چل کر وزیراعظم عمران خان کے پاس گئے ہیں اور تنخواہوں میں اضافہ کی منظوری لے آئے ہیں گریڈ ایک سے لے کر گریڈ انیس تک ملازمین کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ جہاں تک پنشنرز کا تعلق ہے کسی طرف سے کوئی مثبت خبر نہیں آئی۔ البتہ ایک اخبار میں چھوٹی سے خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کردیا اور نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے لیکن صوبہ پنجاب کی حد تک پنشنرز کا کوئی ذکر نہ ہے ایک شخص18 سال سے لے کر 25 سال تک کی عمر میں سرکاری ملازمت اختیار کرتا ہے۔ ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو جاتا ہے۔ زندگی کے 35 سے لے کر چالیس سال معمولی یا مناسب تنخواہ پر سکیل نمبر 1 تا 16 یا پھر سکیل نمبر 17 تا 22 تک خدمات سرانجام دیتا ہے اس اُمید کے تحت بڑھاپے کے ایام پنشن کے ذریعہ ذہنی جسمانی مشقت اور تگ و دو سے آرام کا وقت گزارے گا۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے اس امید پر پانی پھیر دیا ہے تمام پچھلی حکومتیں پنشن اور تنخواہ میں اضافہ ہر سال‘ مہنگائی کے تناسب سے کیا جاتا رہا ہے اس مہنگائی کے طوفان میں تنخواہ دار اور پنشنرز سب سے زیادہ پریشان اور مایوس ہوتے ہیں۔ سرکاری ترجمان جو بھی مؤقف اختیار کریں ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سرکاری افسران تو ہر حکومت کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور سیاسی لوگوں کو خاص طور پر حکومتی عہدیداروں کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ پراپیگنڈہ کی حد یہ ہے کہ سچ بولیں حقیقت حال بیان کریں ۔ الزام عائد ہوتا ہے کہ مخالف لوگ ہیں سابقہ حکومتوں کے پروردہ نہیں ملک دشمن ہیں ترقی ایک آنکھ نہیں بھلی لگ رہی یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس شخص کا رہائشی مکان گر رہا ہو وہ قسطوں پر کار خرید لائے‘ اسے مبارک دینا اس کے ساتھ دشمنی ہے بلکہ مزید ڈوبے گا تمام حکومتوں نے مختلف امدادی ناموں پر غریبوں کو ناکارہ بنایا ہے اور ان کی امدادی رقوم کو شیرمادر سمجھا ہے۔موجودہ حکومت بھی لنگر خانے‘ ہیلتھ کارڈ پناہ گاہیں‘ نوجوانوں کو قرض نہ جانے کیا کیا کھیل رہے ہیں آپ کی ترقی نیا پاکستان مبارک ہو۔ اس وقت تو بڑھے سرکاری ملازم پنشنرز آپ کی فلاحی ریاست مدینہ کے خواب اور تکمیل کے دوران مہنگائی کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں۔ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ریاست مدینہ میں تو یہ ذمہ دار آپ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ کے بغیر تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ 1965 ء میں ایوب خان کے زمانہ آٹا مہنگا ہوا تھا۔ جب جالب بول پڑا۔
بیس روپے من آٹا اور اس پر سناٹا
سیٹو پسو رہیں آباد صدر ایوب زندہ باد
اس وقت ایک روپے کا دو کلو آٹا ملتا تھا اور آج 70 روپے کلو آٹا ہے۔ عوام اس لئے پریشان ہیں کہ آپ کی حکومت میں گندم، آٹا چینی، کپڑا،بجلی اور گیس سستی ہونے کی امید تھی۔ کسی دور حکومت میں یہ تلخ تجربہ عوام کو نہیں ہوا۔ پنشنرز انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔ اکثریت بیمار ہے جسمانی طاقت اور ضعیف ہو چکے ہیں۔ روزمرہ کی مہنگائی جو کبھی سالوں بعد ہوتی تھی۔ اس نے عوام اور بڑھے پنشنروں کو جیتے جی مار دیا ہے۔ یقیناً آپ کو وزراء اور مشیروں نے سچ کہا ہے کہ یہ بوڑھے پنشنرز اکٹھے بھی نہیں ہو سکتے۔ نہ جلوس نکال سکتے ہیں اور نہ ہی دھرنا دے سکتے ہیں ان بے بس اور ناتواں لوگوں سے مت گھبرائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں آتے ہی 1300 ملازمین کو بے گناہ نوکری سے فارغ کردیا ان گھرانوں پر بجلی گری کئی گھر خس و خاشاک ہو گئے ۔ ملازمین عدالتوں میں گئے۔ کلرک سے لے کر کمشنر ڈی آئی جی‘ بڑے بڑے عہدیدار یک قلم برخاست ہونے والوں میں شامل تھے کچھ دیر اپکس چلتی رہیں۔ مگر کچھ نہ ہوا‘ بھٹو کلب لاہور تشریف لائے مال روڈ پر ان برخاست شدہ ملازمین کے خاندانوں کا جلوس تھا انتظامیہ نے بتلایا کہ برخاست شدہ ملازمین اور ان کے خاندان میں جواب ملا کہ اب ان سے کہہ دیں کہ اﷲ خدا کے حضور اپیل کریں کئی افسران کسمپرسی اور اس صدمہ سے مر گئے لاہور میں ایک دو اعلیٰ افسران حصہ اپنے خاندان بند گھروں میں مردہ پائے گئے اور بھٹو کا انجام ان برخاست شدہ ملازمین سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ پنشنروں کو انکریمنٹ نہ دیں آئی ایم ایف کو ناراض نہ کریں ان دو سالوں میں جو مہنگائی ہوئی کم از کم اس مہنگائی کی حد تک تو پنشن میں اور تنخواہوں میں اضافہ کریں مرکز میں تو شیخ رشید وزیر داخلہ موجود ہیں ان کی سفارش آپ نے مان لی۔ ہمارے ہاں پنجاب میں تو وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار ہیں وہ شاید آپ کو سفارش نہ کر سکیں‘ سیاست میں انہیں دلچسپی نہیں ہے۔ لاہور میں انہوں نے مسکن نہیں بنانا۔ جب واپسی ہو گی بذریعہ میاں چنوں خانیوال پہاڑوں میں چلے جائینگے۔ جہاں وہ خوبصورت راستے گزر گاہیں سیاہ پہاڑوں کو سبزو شاداب بنا رہے ہیں تاکہ اپنے نشیمن میں رہ سکے۔