حکمران اور معاشرہ گزشتہ سے پیوستہ

سمر قنڈ لوٹ کر قاصد نے خط کو جواب اور ملاقات کااحوال جب پادری کو سنایا تو پادری پر بھی مایوسی چھا گئی ۔اس نے سوچا کہ کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں نے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟ اُنہیں یقین تھا کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا ۔ چنانچہ خط لے کر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمر قند قتیبہ بن مسلم کے پاس پہنچے ۔ قتیبہ نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی کا تعین کردیا جو اُس کے اپنے خلاف سمر قندیوں کی شکایت سن سکے ۔قاضی نے پادری سے پوچھا ۔ کیا دعویٰ ہے تمہارا؟ پادری نے کہا قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا ۔ نہ تو اُس نے ہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا ۔قاضی نے قتیبہ کو دیکھ پوچھا کہ کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جاب میں قتیبہ نے کہا قاضی صاحب ! جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے ۔
سمر قند ایک عظیم ملک تھا ۔ اس کے قرب و جواد کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جذیہ دینے پر تیار ہوئے تھے ۔ بلکہ ہمارے مقابلہ میں جنگ کو ترجیح دی تھی ۔سمر قند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمر قند قبضہ کر لیا ۔ قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا ۔قتیبہ میری بات کا جواب دو ۔ تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جذیہ یاپھر جنگ کی خبر دی تھی ؟ قتیبہ نے کہا نہیں قاضی صاحب، میں نے جیسے پہلے ہی عرض کر دیاہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا تھا ۔ قاضی نے کہا کہ میں دیکھ رہاہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرارکر رہے ہو اس کے بعدعدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا ۔ اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت دی ہی عدل و انصافکی وجہ سے ہے ۔نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پر ستی سے میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمعہ اپنے بیوی بچوں کے ، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال و غنیمت چھوڑ کر سمر قند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے ۔ اگر ادھر دوبارہ آنا ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کے مہلت دئیے بغیر نہ آ یا جائے ۔ پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہاتھا وہ ناقابل یقین تھا ۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کاعظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کر جا چکا تھا ۔ ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھاتھاکہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور مفتوح قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے ۔ ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیرو کار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلے پر سر جھکا کر عمل بھی کر دے ۔ ایک یہ ہمارا ملک پاکستان ہے سر عام سڑکوں پر بے گناہ لوگوں کو گولیاں برسادی جاتی ہیں ،عورتوں ،بچوں ،بوڑوں کو بغیر کسی گناہ کے مار دیا جاتا ہے۔ کیسا ملک ہے ، کیسا قانون ہے ۔یہ اسلامی ملک لگ نہیں رہا ،عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ،لاقانونیت ہے ۔ ان لوگوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے غیر مسلم پریشان ہیں کہ یہ لوگ کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور ’’لا الہٰ اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘کا اقرار کرتے ہوئے اُنکو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے فخر سمجھیں گے ۔ دین رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمر قند ایک عرصہ تک مسلمانوں کادارالخلافہ بنارہا ۔
کبھی رحمت دو عالم حضرت محمد ﷺ کی اُمت ایسی ہوا کرتی تھی ۔