وزیراعظم پر اب سسٹم کو مستحکم بنانے کی پہلے سے بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
آئین کی دفعہ 91‘ ذیلی دفعہ 7 کے تحت صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے طلب کئے گئے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کی تحریک ہائوس میں سرکاری بنچوں پر موجود تمام 178‘ ارکان کی حمایت کے ساتھ منظور کرلی گئی۔ یہ تحریک وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی جانب سے پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ ہائوس وزیراعظم عمران خان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے گزشتہ روز یہ کہہ کر اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا کہ سینٹ کے انتخابات پر اسلام آباد کی نشست پر سرکاری امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی ناکامی کی بنیاد پر ہائوس پہلے ہی وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکا ہے اس لئے ان پر اعتماد کے اظہار کیلئے طلب کئے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہائوس میں اعتماد کی تحریک منظور ہونے پر سرکاری بنچوں پر موجود پی ٹی آئی اور اسکی تمام اتحادی جماعتوں کے ارکان نے پرجوش انداز میں ڈیسک بجاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے نعرے لگائے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے تحریک اعتماد پر ہونیوالی ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے اگست 2018ء کے انتخاب میں 176 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ اب اعتماد کی تحریک میں انہیں دو ووٹ زائد حاصل ہوئے ہیں۔ نتائج کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اپنی تقاریر میں وزیراعظم پر اعتماد کے اظہار کو انکی اور سسٹم کی بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ انکے اتحادی ہر مشکل گھڑی میں انکے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کے بقول عمران خان آج دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کی تحریک کی منظوری پر ہائوس میں موجود تمام ارکان سے اظہار تشکر کیا اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے قائدین کے علاوہ پاکستان الیکشن کمیشن کو بھی پھر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اظہار کیا جس کے مطابق حکومت عام آدمی کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کا مداوا کریگی اور انتخابی اصلاحات کی جانب قدم بڑھائے گی۔ انہوں نے اس حوالے سے ریاست مدینہ کی تشکیل کے عزم کا اعادہ کیا۔ عوام کو احساس پروگرام کے تحت مختلف مدات میں سبسڈیز دینے اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پولنگ الیکٹرانک مشینز کے ذریعے کرانے کا عندیہ دیا۔ انکے بقول اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جارہا ہے۔
سینٹ کے انتخاب میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر سرکاری امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی ناکامی کو وزیراعظم عمران خان نے بدترین ہارس ٹریڈنگ سے تعبیر کیا اور اپنی پارٹی کے 17, 16‘ ارکان کو ووٹ فروخت کرنے کا موردالزام ٹھہرایا۔ اسی تناظر میں انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران الیکشن کمیشن کو بھی ووٹوں کی شناخت کا طریق کار اختیار نہ کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے مجرموں کو بچایا اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے ہائوس میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا جرأتمندانہ اعلان بھی کیا جس کی بنیاد پر صدر مملکت کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کرکے ہفتے کے روز قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ اگر وزیراعظم قومی اسمبلی میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ نہ بھی کرتے تو بھی انکے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا کیونکہ انہیں ہائوس میں بدستور عددی اکثریت حاصل تھی تاہم انہوں نے اپنی پارٹی کے 17, 16‘ ارکان قومی اسمبلی پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کا سخت الزام عائد کرکے ہائوس میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا رسک لیا جو یقیناً انکے اور انکی پارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت بڑا فیصلہ تھا کیونکہ یہ خدشہ موجود تھا کہ انکی تنقید کی زد میں آنیوالے انکے پارٹی ممبران اپنا غصہ اعتماد کی تحریک کے خلاف ووٹ دیکر نکال سکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ روز جس اتحاد اور اتفاق کے ساتھ حکمران پی ٹی آئی اور اسکی اتحادی جماعتوں کے تمام ارکان نے وزیراعظم پر دوبارہ اعتماد کا اظہار کیا اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ انکے ساتھ وابستہ لوگوں نے انکے ساتھ ہی جینے مرنے کا عہد کر رکھا ہے۔
ہائوس میں دوبارہ اعتماد حاصل ہونے پر وزیراعظم کو حکمرانی سے متعلق اپنے ایجنڈے کو پہلے سے بھی زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھانے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا نیا حوصلہ ملا ہے جس کا عندیہ انکی ہائوس میں کی گئی تقریر سے بھی مل رہا تھا تاہم اب ان پر حکومتی گورننس بہتر بنانے اور سسٹم کو کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کیلئے سب سے پہلے تو محاذآرائی کی سیاست سے اجتناب کرنے اور سیاسی رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسرا ریاستی آئینی اداروں میں کسی قسم کے ٹکرائو سے سسٹم کو بہرصورت بچانا ہوگا اور تیسرے ریاست مدینہ والی فلاحی ریاست کی جانب عملی قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری میں راندۂ درگاہ ہوئے عوام کا اضطراب حکومتی گورننس کیلئے زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اگرچہ ریاست مدینہ کی جانب عملی قدم اٹھانے کا عندیہ دیا ہے تاہم عوام کو انکے روزمرہ کے مسائل میں فی الواقع اور فوری ریلیف دیئے بغیر ان کا اعتماد برقرار نہیں رکھا جا سکتا جبکہ عوام کا اعتماد ہی کسی حکمران کی مقبولیت کا عکاس ہوتا ہے۔
جہاں تک محاذآرائی کی سیاست ترک کرنے کا تقاضا ہے‘ موجودہ حالات اسکی نفی کررہے ہیں اور قومی سیاست میں انتشار وسیع ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہائوس کے باہر مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی پریس کانفرنس کے موقع پر حکمران پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جس طرح ہنگامہ آرائی کی اور مسلم لیگی قائدین شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ مصدق ملک اور مریم اورنگزیب پر باقاعدہ حملہ آور ہوئے جبکہ انہیں اس ہنگامہ آرائی سے روکنے کیلئے کسی سکیورٹی ایجنسی کا کوئی رکن وہاں موجود نہیں تھا‘ اگر اپوزیشن کے ساتھ پرتشدد ٹکرائو کی یہ پالیسی برقرار رہی تو اس سے ملک میں سیاسی انتشار بڑھنے اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کا عندیہ متذکرہ واقعہ پر شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کے فوری ردعمل اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی میڈیا سے گفتگو سے بھی مل رہا ہے۔ وزیراعظم بے شک اپنا کرپشن فری سوسائٹی کا ایجنڈا پایۂ تکمیل کو پہنچائیں اور کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے عزم پر کاربند رہیں مگر اپنے پارٹی ورکرز کو قانون ہاتھ میں لینے اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی قطعاً اجازت نہ دیں۔ اسی طرح ادارہ جاتی ٹکرائو کی فضا سے بھی گریز کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے سسٹم کو نقصان پہنچنے کا زیادہ اندیشہ لاحق ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کو قوم کے رہنماء کی حیثیت سے اب اپنے سیاسی مخالفین کے معاملہ میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔