قومی اسمبلی کے باہر اپوزیشن رہنمائوں پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی چڑھائی

پارلیمنٹ ہائوس کے اندر جو کچھ گزشتہ روز ہو رہا تھا‘ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نہایت عزت و احترام کے ساتھ پرامن طریقے سے ہو رہا ہے۔ مگر پارلیمنٹ کے باہر جو کچھ ہوا‘ اس سے بہت سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہونگے۔ اپوزیشن کے چند رہنما پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اگر انہیں کرنے دیا جاتا تو کوئی قیامت نہ ٹوٹتی۔ اپوزیشن رہنمائوں کی اس پریس کانفرنس کے دوران تحریک انصاف کے کارکنوں نے جس طرح طوفان بدتمیزی برپا کیا‘ وہ نہایت افسوسناک ہے۔ کارکنوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے مصدق ملک کو تھپڑ مارا۔ احسن اقبال پر جوتا پھینکا۔ خاقان عباسی اور مریم اورنگزیب کو دھکے دیئے۔ بدتہذیبی و بدکلامی کی انتہا کردی۔یہ نہایت غلط رویہ تھا جو حکومت کے حامیوں نے اپنایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس موقع پرپولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ سکیورٹی والوں نے بھی کوئی مداخلت نہیں کی۔یہ کوئی عام علاقہ نہیں‘ پارلیمنٹ ہائوس کا بیرونی حصہ تھا جہاں کڑی سکیورٹی ہوتی ہے۔ میڈیا پر یہ مناظر دیکھ کر سب کو افسوس ہو رہا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا۔ کیوں کرنے دیا گیا۔ ہمارے کارکن یہ کیوں بھول جاتے ہیں کل کو تاریخ دہرائی بھی جا سکتی ہے۔ کہتے ہیں ناں ’’جیسے کو تیسا‘‘ یہ منفی رویہ اب ختم کرنا ہوگا۔ اس قسم کی بدمعاشی کو اب سیاست سے باہر نکالنا ہوگا ورنہ کسی کی پگڑی سلامت نہیں رہے گی۔ سیاسی کارکنوں کو اب غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے اجتناب کرتے ہوئے باشعور ہونے کا ثبوت دینا چاہئے کیونکہ سب جانتے ہیں ہم جو کچھ آج بوتے ہیں‘ اسے کل کاٹتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ہم سمجھ رہے تھے خان صاحب مستعفی ہوکر الیکشن کرائیں گے: بلاول زرداری
بعض اوقات بلاول جی کی باتوں پر بے اختیار ہنسی نکل جاتی ہے۔ گزشتہ روز جناب فرما رہے تھے کہ ’’ہم تو سمجھتے تھے خان صاحب مستعفی ہوکر الیکشن کرائیں گے۔‘‘ اب بھلا یہ بات بھی کوئی کرنے کی ہے۔ خان صاحب کو ایسی بھی کوئی جلدی نہیں کہ وہ نادان بالک کی بات پر جذبات میں آکر ری الیکشن کا کہہ دیں۔ الیکشن ضرور ہونگے مگر اپنے مقررہ وقت پر‘ وہ وقت کب آئے گا۔ سب کو معلوم ہے۔ اس وقت وزیراعظم کو بلیک وقت راج ہٹ‘ تریا ہٹ اور بالک ہٹ کا سامنا ہے۔ راج ہٹ کہتے ہیں بادشاہ کی ضد کو تریاہٹ عورت کی ضد کو اور بالک ہٹ بچے کی ضد کو‘ اب ان کی ضد تو کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی کہتے ہیں انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند تو کیا آج تک کسی ماں باپ نے اپنے انوکھے لاڈلے کو چاند لا کر دیا ہے کھیلنے کیلئے۔ اسی طرح خواتین کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے ستارے توڑ لانے کی بات کرتی ہیں مگر آج تک کون ان کیلئے ستارے توڑ لایا۔ سو اب خان صاحب بھی بادشاہ والی ضد کا مظاہرہ کریں اور استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کو ٹکا سا جواب دیں۔ انہوں نے کیا کر لینا ہے۔ کچھ کرنا ہوتا تو کم از کم تین سال میں حکومت کا خاتمہ نہیں تو کم از کم اس کا ناطقہ تو بند کر سکتے تھے مگر افسوس اپوزیشن والوں سے توبہ تک نہیں ہو سکا۔ ہاں باتیں وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں اب بھی کرتے رہیں اس پر کوئی پابندی نہیں۔
٭٭٭٭٭
کرونا کیسز اور اموات میں پھر اضافہ ہونے لگا
جب ہم حفاظتی انتظامات کی پروا نہیں کریں گے ہر جگہ اپنی مان مانی کریں گے۔ ماہرین صحت کی بار بار وارننگ کے باوجود باہمی میل جول میں احتیاط نہیں کریں گے اور نجی‘ سماجی‘ تفریحی سیاسی‘ تجارتی سرگرمیوں کو کنٹرول نہیں کریں گے تو کرونا کو کھل کر وار کرنے کا موقع یونہی ملتا رہے گا۔ سب جانتے ہیں کہ ابھی عالمی اور علاقائی سطح پر کرونا مکمل طورپر ختم نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں کرونا کی نئی لہر‘ نئی ہلاکت خیزی کے ساتھ سر اٹھا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ایک بار پھر سخت حفاظتی اقدامات اپنائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم اتنے بے فکرے کیوں ہو گئے کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ ابھی چند ماہ قبل تک کرونا کس طرح ہماری زندگیوں میں ایک ڈرائونا خواب بن کر چھایا ہوا تھا۔ پورا ملک پریشان تھا۔ بے شک اب ویکسین آگئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی 60 سال سے زیادہ عمر والوں اور فرنٹ لائن کے ہمارے مجاہد‘ حفاظتی عملے اور ڈاکٹروں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے مگر یہ عوام کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں نڈر ہو گئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اب اگر کرونا نے حملہ کر دیا تو حالات پہلے سے زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ اس لئے احتیاط کریں۔ فاصلہ رکھیں رش والی جگہوں سے دور رہیں۔ منہ ڈھانپ کر رکھیں۔ اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
٭٭٭٭٭
میر واعظ کی دوبارہ نظربندی کے خلاف سرینگر میں مظاہرے
ابھی طویل گرفتاری و نظربندی کے بعد گزشتہ روز ہی حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کو رہا کرنے کے احکامات جاری ہوئے تھے مگر جلدہی بھارتی حکمرانوں کو اپنے فیصلے کے نتائج کا اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے غلط کام کر دیا ہے۔ میر واعظ نے تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نمازجمعہ ادا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کشمیریوں سے کہا تھا کہ وہ جامع مسجد آئیں اور نماز جمعہ وہاں ادا کریں۔ اس پر ہزاروں کشمیری وہاں جمع تھے مگر بھارتی فوج نے میر واعظ کو گھر سے نکلنے نہیں دیا اور ان کی دوبارہ نظربندی کا اعلان کر دیا جس پر جامع مسجد میں نمازیوں نے بھارت کے خلاف اور میر واعظ کے حق میں زبردست نعرے بازی کی۔ اس موقع پر مسجد کے اندر اور باہر مشتعل مظاہرین کے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے سرینگر کی فضا گونجتی رہی۔ کئی مقامات پر نوجوانوں اور فوج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ بھارتی فوج اور حکمرانوں نے سوچا ہوگا اس طرح میر واعظ کو رہا کرکے وہ احسان مند کر دیں گے مگر وہ بھول گئے کہ یہ نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کے رہنما نہیں تحریک حریت کے رہنمائوں میں شامل ہیں جو بھارت نواز سیاسی بیانیے کو کب کا مسترد کرکے کشمیر کی آزادی اور کشمیر میں اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق رائے شماری کرانا چاہتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں بھارت اپنے زرخرید غلاموں پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں رہا کرتا ہے یا نہیں۔ اگر کر بھی دے تو کچھ نہیں ہوگا۔ کشمیری ان آزادی کے دشمن بھارتی غلاموں کو کبھی محبت و عزت نہیں دیں گے‘ یہ سب کچھ وہ خودبھی جانتے ہیں۔