’’ اعتماداُلدّؔولہ وزیراعظم عمران ؔخان !‘‘
کل(6 مارچ 2021ء کو ) چیئرمین ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ جناب عمران خان نے اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں کے تعاون سے 178ووٹ حاصل کر کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلِیا ہے ۔اُن کے خلاف سنگین حالات کے باعث مَیں تو اُنہیں پاکستان کا ’’ اعتماد اُلدّولہ ‘‘ ہی کہوں گا ۔ معزز قارئین! مُغل بادشاہ نور اُلدّین جہانگیر (1605ئ۔1627ء ) نے اپنی چہیتی بیگم ملکۂ نور جہاں کے ایرانی والد مرزا غیاث اُلدّین بیگ کو اُن کی سلطنت مُغلیہ سے وفاداری کے باعث اعتماد اُلدّوؔلہ کا خطاب دِیا تھا، جس کے معنی ہیں ’’ریاست کے ستون ‘‘ (Pillar of The State) ۔ دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح قائداعظمؒ کے پاکستان میں بھی ریاست ِ پاکستان کے چار ستون (Pillars) ہیں۔ ’’Legislature‘‘ ( پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( جج صاحبان) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) ۔
’’2017ء کا عدالتی انقلاب ! ‘‘
28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گُلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی دفعہ ’’62-F-1 ‘‘ کے تحت صادق ؔاورامینؔ نہ (ہونے) پر تا حیات نا اہل قرار دے دِیا تھا ‘‘تو مَیں نے 30 جولائی 2017ء کو اپنے کالم میں کہا تھا کہ ’’ یقینا اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔
مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صرف ’’ Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔
’’اتحادی سیاست ! ‘‘
فوجی آمریت ہو یا اُس کی نگرانی میں جمہوریت ، پاکستان میں مختلف اُلخیال سیاسی جماعتیں مل کر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بناتی ہیں۔ "Give and Take"( کچھ دو اور کچھ لو ) کے اصول ( بے اصولی ) کی بنیاد پر حکومتو ں کو استحکام حاصل ہوتا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے 16 ارکانِ قومی اسمبلی کو ’’ بکائو مال ‘‘ قرار دِیا تھا اِس لئے کہ ’ ’ اُنہوں نے 3 مارچ کو ، سینٹ کے انتخابات میں اُن کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے بجائے کروڑوں روپے وصول کر کے "P.D.M" دراصل ، کرپشن کے کئی مقدمات میں ملوث، سابق صدر آصف علی زرداری کے امیدوار سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دئیے؟‘‘
سوال یہ ہے کہ ’’کل "Vote of Confidence" کے وقت کیا ’’ بکائو مال ‘‘ ( 16 ارکانِ قومی اسمبلی ) نے بھی جنابِ وزیراعظم پر نئے سرے سے اعتماد کا اظہار کِیا ہے ؟‘‘ ۔ کیا جنابِ وزیراعظم نے اپنے اُس ’’ بکائو مال ‘‘ کو معاف کردِیا ہے یا معاف کر دیں گے ؟۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان اپنی اتحادی جماعتوں کے قائدین کے طفیل ( اپنی مخالف ’’ پی ڈی ایم ‘‘ ) سے نہ صِرف "Vote" بلکہ "Vote of Over Confidence" حاصل کر چکے ہیں؟‘‘۔ اب وہ اتحادی جماعتوں کے قائدین کا کون کون سا مطالبہ پورا کریں گے ؟۔
’’وزیراعلیٰ پنجاب کون ہوگا ؟ ‘‘
محترم اعتماد اُلدّولہ ، وزیراعظم عمران خان صاحب !۔ اگر واقعی آپ اپنی مخالف تنظیم "P.D.M"سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے حکومتی اتحادیوں بالخصوص چودھری پرویز الٰہی کو اہم حکومتی ذمہ داریاں سونپنا ہوں گی۔ آپ کو اعتماد کا ووٹ دینے والے اتحادی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ آپ کی اپنی جماعت ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ کے ارکانِ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی ’’ کھلی یا دبی ‘‘ خواہشات کا احترام کرنا ہوگا۔وگرنہ نہ جانے کیا ہو جائے؟
"Political Cousins"
لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف خلیل جبران ؔخلیل اپنی تخلیق"The Mad Man" ۔ (پاگل) میں ’’ زندگی اور عورت‘‘کے عنوان سے دو دوستوںکا مکالمہ لکھتے ہیں۔’’ یار! دیکھو! وہ عورت اْس شخص سے بغل گِیر ہو رہی ہے اور کل بالکل اِسی طرح مجھ سے لِپٹی ہْوئی تھی ‘‘۔ دوست نے جواب میں کہا۔اور کل مجھ سے لِپٹی ہوگی ! در اصل وہ زندگی ہی کی طرح ہے جِس پر سب کا قبضہ ہے اور موت کی طرح وہ ہر ایک کو تسخیر کر لیتی ہے۔اور پھر ابدیت کی طرح ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے‘‘۔خلیل جبران تو خیر شاعر ،ادیب ،مصّور اور مْصلح ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھے ،لیکن دَورِ حاضر کا واقعہ یا لطیفہ یہ ہے کہ۔ایک دوست نے اپنے دوست سے پوچھا۔’’ یار ! کل تمہارے ساتھ وہ لڑکی کون تھی؟‘‘۔ دوسرے دوست نے جواب دیا۔’’وہ میری Cousin(کزن) تھی!‘‘۔ پہلے دوست نے مْسکرا کرکہا۔’’ اچھا !۔دو ماہ پہلے وہی لڑکی میری کزن تھی!‘‘۔
معزز قارئین ! خلیل جبران خلیل تو 1931ء میں فوت ہو گئے تھے لیکن اُن کے بعد تو ہر جمہوری یا نیم جمہوری ملک میں "Political Cousins" ہی حکمرانوں کواپنی مرضی پر چلنے پر راضی ( مجبور) کردیتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’ اب ’’اعتماد اُلدّولہ پاکستان‘‘ کس طرح کی سیاست کو رواج دیتے ہیں ؟‘‘۔