چیئرمین سینٹ منتخب کرنے کیلئے بھاری رقوم‘ پرکشش ملازمتوں کی پیشکش
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کے الزامات نے سول بیوروکریسی اور فوج کے نوجوان‘ افسروں، معاشرے کے جہوریت پسندوں کو جہاں سخت مایوس کیا ہے وہیں ایوان بالا کی افادیت بھی بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ اب رہی سہی کسر پوری کرنے کیلئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے بھاری رقوم، ترقیاتی منصوبوں اور اعزاء و اقرباء کیلئے پرکشش ملازمتوں کی پیشکشوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ملک کو ضرورت ستم ظریفی یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو سکتی ہیں لیکن دستور، سینیٹ کو تحلیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اسی سینیٹ میں ایسے ارکان بھی موجود ہوں گے جو انفردی طور پر یا پارٹی کی مدد سے جائز جمہوری حمائت کے بغیر ایوان میںبیٹھے ہوں گے۔1973 کے دستور کی تشکیل سے پہلے پاکستان میں ہمیشہ یک ایوانی مقننہ رہی ہے۔ سینیٹ کے قیام کے پس پردہ مقاصد نہایت نیک اور مثبت تھے لیکن ارکان کے طریقہ ا نتخاب کی پیچیدگیوں نے اسے جمہوری و سیاسی عمل کے بجائے دہن اور دولت کا معاملہ بنا دیا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں انتخابی کالج کے ارکان پہلی بار نہیں بکے بلکہ حالیہ دھایئوں میں ہر بار ایسا ہی ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بار معاملہ زیادہ اچھل گیا ہے۔ خود عمراں خان کہ چکے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں چار، چار کروڑ کی بولی لگی۔ کس قدر بے بسی ہے کہ بقول عمران خان، یہ علم تو ہے کہ کون سے ارکان بکے لیکن خرید و فروخت کا کوئی ثبوت نہیں۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ سب ہی پارٹیاں، بطور خاص، فارق ستار کی ایم کیو ایم، خیبر پی کے میں تحریک انصاف اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) ہارس ٹریدنگ کی دھائی دے رہی ہیں۔ دلچسب بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ الزام تراشی پیپلز پارٹی پر کی جا رہی ہے جس کے چیئرمین بلاول بھٹو کا دعویٰ ہے کہ ہم نے دیگر ارکان کو قائل کر کے ان سے ووٹ لیا لیکن اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت جس نے کچلے ہوئے اور محروم طبقات ، خصوصاقً سندھ کی دلت خاتون کرشنا کوہلی اور کراچی سے انور لال دین کو سینیٹ کا رکن بنوایا یوں اس اقدام کی داد بھی سمیٹی اور ساتھ ہی کراچی اور خیبر پی کے میں ووٹوں سے زائد سینیٹر منتخب کروا کر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کا بھی سامنا کیا۔ فاٹا سینیٹروں کے انتخاب میں حکمران مسلم لیگ کو ان ہی الزامات کا سامنا ہے جبکہ شیخ رشید کے بقول بلوچستان کی تو پوری اسمبلی ہی بک گئی ہے۔ دھونس، دھاندلی، ترغیب اور تحریص کو اب مفاہمت، نکتہ نظر کی یکسانیت اور دیرینہ تعلقات جیسی اصطلاحات کے عنوان دیئے جا رہے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو اپنی سیاسی بالا دستی ثابت کرنے ، دونوں ایوانوں میں قانون سازی کیلئے درکار اکثریت کے حصول اور ایوان کی کارروائی مرضی سے چلانے کیلئے اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ صدر کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر بھی ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے فاٹا سے اور ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے پورے سینیٹ الیکشن کو ہی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا تو شائد ممکن نہ لیکن متناسب نمائندگی کے بجائے براہ راست انتخاب کے ذریعہ سینیٹرز کے چنائو کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔ سردست یہ معاملہ بھی بعید از امکان ہے لیکن براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والے سینیٹرز قومی اسمبلی کے اختیارات سے حصہ وصول کرنے کا مطالبہ ضرور کریں گے۔ ناتواں جمہوری و سیاسی عمل اور سویلین بالادستی کے استحکام کیلئے مضبوط سینیٹ کی ضرورت ہے لیکن کیا ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے شور میں منتخب ہونے والی سینیٹ اس ضرورت کو پورا کر سکے گی؟