وہ بھی کیا عجب منظر ہوگا جب آج ایک جج ملزم بنا انصاف کے کٹہرے میں کھڑاہوگا۔ عزت مآب جسٹس شوکت عزیزصدیقی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بیک وقت دو آئینی ریفرنس زیر سماعت ہونگے پہلا ریفرنس انکی سرکاری رہائش گاہ کی بحالی پر ہونیوالے اخراجات کی وجہ سے بنایا گیا تھا جو کہ رنگیلے جرنیل مشرف کی ناقابل تحریر شبینہ محافل کیلئے خاص انداز میں ڈھالی گئی تھی۔ تازہ ترین آئینی ریفرنس فوج اور اس کی قیادت پر ریمارکس دینے پر بنا ہے، جو کہ موجودہ صورتحال میں مذاق سے کم نہیں ہے۔ عدلیہ اور افواج پاکستان چہار اطراف سے حملوں کی زد میں ہے جس میں اپنے پرائے سب شامل ہیں۔ عدلیہ اور فوج پر سب سے زیادہ سنگ باری اپنے کئے دھرے کی وجہ سے نااہل ہونیوالے جناب نواز شریف اور انکے ساتھی کر رہے ہیں جس کیلئے پارلیمان کے ادارے کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کھیل میں اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہو گئے ہیں جس پر جناب چیف جسٹس ثاقب نثار چپ سادھے رہے اب وہ فوج کی حرمت وناموس کیلئے عدالت لگانے آئے تو برادر جج کو ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا جس پر مادر پدر آزادیاں چاہنے والا بے لگام "موم بتی مافیا" بغلیں بجا رہا ہے
جناب نواز شریف کے 99 ء والے طیارہ اغوا کیس میں شریک ملزم اور جیل کے "ہانڈی وال" شاہد خاقان عباسی کا ذکر قطر سے درآمد کی ہوئی LNG کی حوالے سے بھی منظر عام پر آتا رہا ہے جس کے ہوش ربا چرچے قطر کے دارالحکومت دوحا میں اس کالم نگار کو ذاتی طور پر سننے کا موقع یوں ملا کہ گذشتہ ماہ دو مرتبہ سوئٹزرلینڈ جاتے اور واپسی پر وہاں پڑاؤ کرنا پڑا تھا۔ ہانڈی وال کی اصطلاح دسترخوان پر بیٹھ کر ایک پلیٹ میں کھانا کھانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو جیل کے ساتھیوں اور فوجی جوانوں میں مقبول عام رہی ہے۔ عوامی ووٹ کے سہارے کئی دہائیوں سے قوم کے اعصابی مراکز کو جان لیوا گرفت میں جکڑ لینے والے پشت پا مافیا سے ٹکرا جانیوالے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل 7 مارچ کو عدلیہ کے نیک نام اور بہادر جج' جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف شکایت کی سماعت کرے گی۔ ہماری عدلیہ کو ہمہ جہت امتحانوں کا سامنا ہے۔ برادر جج صاحباں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرکے' چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو ڈنڈا ڈولی کرکے غیر آئینی طریقے سے باہر نکالنے کا کامیاب مظاہرہ کرنے والے اب "مجھے کیوں نکالا کی گردان کئے جارہے ہیں" عدلیہ کے مقدس گھرمیں انتشار ڈالنے کی چال ان کیلئے نئی نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے وہی کردار اہداف کے حصول کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ کا اعلٰی ترین ادارہ ہے جو جج صاحبان کے احتساب کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شاید یہ منفرد اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ ان کیخلاف بیک وقت دو ریفرنس زیر سماعت ہونگے۔ پہلا ریفرنس انکی سرکاری رہائش گاہ کے حوالے سے سی ڈی اے کے کسی سرکاری اہلکار سے دائر کرایا گیا تھا جس پر جسٹس صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی خفیہ سماعت کی بجائے کھلے عام سماعت کا مطالبہ کردیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری ارباب محمد عارف کی جانب سے 22 فروری 2018ء کو بھجوائے جانیوالے شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا ختم کرانے کیلئے انہوں نے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مولوی خادم حسین رضوی اور وفاقی حکومت کے معاہدہ پر اعتراض کیوں کیا۔ اس معاملے میں بری فوج کے سربراہ اور جنرل فیض کے ناموں پر اعتراض کیوں کیا۔ یہ شوکاز نوٹس رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور وکیل کلثوم اختر کی دائر کردہ شکایت پر جاری کیاگیاہے۔ بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے اپنے جج' جسٹس آصف سعید کھوسہ سے بھی اس معاملہ پر مشورہ کیا ہے۔ پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل کے دیگر ارکان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے علاوہ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد نورمسکین زئی اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی شامل ہیں۔ تین صفحات پر مشتمل شوکاز نوٹس میں شق وار اعتراضات تحریر ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 209 میں کسی جج کومنصب سے ہٹانے کی شرائط درج ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل جج صاحبان کے طرز عمل 'انکے ’کوڈآف کنڈکٹ‘ کا تجزیہ و احتساب کرنے کا واحد موقر ترین ادارہ ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی یا اس پر عمل پیرا نہ ہونیوالے جج صاحبان کیلئے ملک کی اعلٰی ترین عدالت ہے ۔
فوجی قیادت پر' اسکے مبینہ سیاسی کردار پر سرشام بحث مباحثے ہو رہے ہیں لیکن عدالت عظمی خاموش ہے لیکن اپنے برادر جج پر ایک کے بعد دوسرا ریفرنس دائر کر دینا غیر معمولی معاملہ ہے۔ شکایت گزاروں کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جج صاحبان کیلئے متعین ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ شوکاز نوٹس میں کہاگیا کہ بادی النظر میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رٹ پٹیشن نمبر 3914 کی سماعت کے دوران آئینی اداروں کے بارے میں دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے غیرضروری اوربلاجواز تبصرہ کیا جو آئین کے تحت آپ کے ضابطہ اخلاق کی حد سے باہر ہے جس سے مسلح افواج کا آئینی وقار مجروح ہوا ہے ۔ اس تبصرے میں وہ آبزرویشنز بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اس معاملہ کے انتظامی حل اور اس میں شامل بعض انتظامی افسران کی شرکت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے جو بظاہر عدالتی دائرہ میں نہیں آتے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے شوکاز نوٹس میں کہاگیا کہ آپ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل دو کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سول سوسائٹی اور نام نہاد روشن خیال عناصر جن کیلئے یہ بڑے مرغوب موضوعات ہیں بالکل خاموش ہیں اگر اسی طرح کا ریفرنس کسی اور جج کے بارے میں ہوتا تو یہ ایسی دھول اڑاتے' ایسے طوفان اٹھاتے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی لیکن شوکت عزیز صدیقی تو انکے مادر پدر آزاد ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ شان رسالت کے تحفظ کا معاملہ ہو یا ویلنٹائین ڈے کا گھوٹالہ ' ہر موقع پر جسٹس شوکت صدیقی دو قومی نظرئیے اور مقدس مشرقی اقدار و روایات کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں جو سول سوسائٹی والے موم بتی مافیا کو گوارا نہیں ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا مقدمہ صرف عدالتی ہی نہیں پاکستان کی تاریخ میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کریگا جو پاکستان کے نظریاتی تشخص کا فیصلہ کرے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024