جسکے نہ ہونے کی اطلاع اور افواہیں تھیں وہ ہوگیا، سینٹ کے انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچے اور اس جمہوری ملک میں جمہوریت کے ساتھ جو مذاق جمہوریت کے دعویدار سیاست دانوںنے سینٹ کے انتخابات پر کیا ہے اس پر افسوس کے بجائے لعنت بھیجنا چاہئے۔ ان اراکین سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جنکے نزدیک پیسے کی ’’چمک‘‘ ایمان اور ملکی مفاد سے بالاتر ہے ، گزشتہ مکتوب میں بھی میں نے تحریر کیا تھا، جب پیسہ غالب اور اسکی حرص بڑھ جائے تو ضروری نہیں کہ ملک کے اندرونی معاملات ہوں یہ لوگ تو ملک کے نظریہ اور سرحدوں کو نقصان پہنچانے کا سودا بھی بلا کسی شرم اور حیا کے کرنے پر فخر محسوس کرینگے، ستم ظریفی یہ کہ ملک کا کوئی ادارہ اسطرف توجہ دینے کو تیار نہیں، خاص طور پر سینٹ کے انتخابات کے وقت نوٹوں کے بھرے بریف کیس ہر دفعہ ادھر سے ادھر ہوتے ہیں، یہ معاملات اور سودے بازی اسمبلیوںمیں بھی ہوتے ہیں، کبھی نقدی کبھی ٹھیکوں، ملازمتوں، وزارتوں، مقدمات سے بریت کے وعدے غرض رشوت کے تمام ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں، ذی شعور یہ سوچنے کا حق رکھتے ہیں کہ جو لوگ مندرجہ بالا کوئی بھی رشوت لے رہے ہیں اورجو رشوت دے رہے ہیں وہ جمہوریت اور ملک سے کتنے مخلص ہیں۔
پی پی پی نے تو طے کرلیا ہے کہ عوام ووٹ نہیں دینگے تو کیا ہم سیاست ختم کر دینگے؟ اسکے لئے انکے رہنماء محتر م آصف علی زرداری اور دیگر واضح اعلان کررہے ہیں کہ حکومت نہ صرف مرکز میں بلکہ صوبوں میں بھی پی پی پی کی ہوگی، انکا یہ دعوی عوامی حمایت کو مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ اپنے پاس موجود بے انتہا دولت جسکے متعلق ملک کاکوئی ادارہ ’’گواہوں اور عدم ثبوت‘‘ کی بناء پر ان سے نہیں پوچھ سکا کہ یہ دولت کہاں سے آئی؟ سب کی توجہ صرف نواز شریف کی طرف ہو چلی ہے کہ یہ سب کچھ کہاں سے آیا؟؟ یہاں نوازشریف کو سچا ثابت کرنا مقصد نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ جب بھی مخالفت میں کسی ایک کو صبح و شام بغیر کسی ’لاجک‘ کے کنارے لگایا جاتا ہے تو اسکا جواب عوام دینا شروع کردیتے ہیں، ملک کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں ، ذولفقار علی بھٹو کو جنرل (ر ) ضیاء الحق نے پھانسی پر چڑھا دیا کہ ’قبر ایک اور آدمی دو ہیں‘ عدالتیں اور جج صاحبان بعد میں اپنے اس سنگین فیصلے پر افسوس کرتے رہے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ ’بھٹو‘ ختم نہ ہوا وہ آج بھی زندہ ہے وہ تو بھلا ہو اسکی آج لیڈرشپ کا کہ وہ پھانسی دئے جانے والے بھٹو جو آج بھی زندہ ہے اور اسکے نام پر پی پی پی نے بھٹو کی شہادت کے بعد بھی حکومت حاصل کی۔ موجودہ قیادت نے پی پی پی کو کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ انتخابات میں ضمانتیں ضبط ہونے کی نوبت آگئی ہے۔
پی پی پی کیلئے مشہور ہو چلا تھا کہ اگر درخت کو بھی انتخابات میں کھڑا کر دیں تو وہ انتخاب جیت سکتا ہے آج کچھ ایسی ہی صورتحال مسلم لیگ ن کی ہو چلی ہے کہ انکے امیدواروںکو مجبور کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ نہیں بلکہ آزاد امیدوار کی حیثیت میں انتخاب لڑیں مگر وہ پھر بھی غیر سرکاری طور پر مسلم لیگ کا نام استعمال کرکے جیت گئے، اب نہ جانے وہ کسطرح دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہونگے مگر قابل تحسین ہیں وہ کہ فی الحال اپنی جگہ کھڑے ہیں، میاں صاحب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں کسطرح ایک سیٹ حاصل کرلی اسکا مطلب گھوڑوں کی خرید فروخت پنجاب میں بھی ہوئی، اب نہ جانے یہ پی ٹی آئی کے جیتنے والے چوہدری سرور اور زبیر گل کی لندن کی پرانی دوستی تھی یا کیا تھا؟ زبیر گل بھی میاں صاحب کے قابل اعتبار ساتھی ہیں ، لندن کی ہر تصویر میں میاںصاحب کے کاندھے سے لگے ہوتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ صادق اور امین عمران خان کی جماعت نے بھی گھوڑوں کی نیلامی میں حصہ لیا۔ نہ جانے لوگوں نے اس خرید و فروخت کا نام ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کیوں رکھ دیا ہے جبکہ یہ گدھوںکی خرید و فروخت ہے گھوڑے نہ جانے کیوں بدنام ہو رہے ہیں۔ گھوڑے تو بڑے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے غریب لوگوں نے غربت دور کی پی پی پی کی مدد کی، چونکہ ایم کیوایم کے لوگ رینجرز کی کارروائیوںکے بعد غربت سے اور ایم کیوایم لندن، پاکستان، پاک سرزمین، 90، بہادر آباد وغیرہ سے تنگ آکر پارٹی کا مستقبل اچھا نہیں دیکھ پارہے تھے وہ مہاجر قوم کی دیکھ بھال چھوڑ کر ’’یاشیخ اپنی اپنی دیکھ‘‘ کی سوچ پر آچکے ہیں۔ اب مرحلہ سینٹ کی چیئرمین شپ کا ہے جسکے لئے اقلیتی جماعت پی پی پی کا پھر دعویٰ ہے کہ چئیرمین ہمارا ہوگا۔ اگر مسلم لیگ پی پی پی سے اپنے اندرون خانہ معاملات پر قائم ہے تو رضا ربانی اسکے لئے بہترین ہیں ورنہ اسوقت سینٹ کو راجہ ظفر الحق یا پرویز رشید نہیں، راجہ ظفر الحق ایک تجربہ کار اور محترم شخصیت ہیں مگر پرویز رشید تو مسلم لیگ کے اندر بھی مکمل حمایت حاصل نہ کرسکیں گے، میاںصاحب سے جانثاری دکھانا علیحدہ بات ہے، حکومتی امور میں سنجیدگی اس بات کا شدید تقاضہ کرتی ہے کہ اسوقت مسلم لیگ کے پاس مشاہد حسین سید ہیں انہیں سینٹ کے چئیرمین کیلئے میدان میں نہ صرف لایا جائے بلکہ انہیں کامیاب بھی کرایا جائے جسکے لئے تمام حلیف جماعتیں بھی اتفاق کرینگی، یہ اور بات ہے مروجہ نظام کے مطابق وہ حمایت کرنے کیلئے کچھ نوکریاں وغیرہ طلب کرینگے مگر اسکے باوجود مشاہد حسین سید ایک بہترین چنائو ہوگا۔
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30