پاکستانی سیاست نے بھی گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلے ہیں۔ اب قومی کے بجائے علاقائی سطح پر صوبائی طرز کی سیاست ہو رہی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی جبکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے محاذ سنبھالا ہوا ہے رہ گیا بلوچستان تو وہاں مخلوط حکومت قائم ہے، یعنی کچھ آزاد اور کچھ سیاسی جماعتوں کا ملغوبہ پنجاب کی بات کریں تو یہاں بلا شرکتِ غیرے مسلم لیگ (ن) کا راج ہے۔ اُس کے مدِّمقابل صرف پاکستان تحریک انصاف ہے جو خیبرپختونخوا میں بھی حکومت کر رہی ہے اگرچہ پیپلز پارٹی جو پاکستان کی ایک قدیم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ اب پنجاب سے بالکل فارغ ہو چکی ہے۔ صرف سندھ میں اُس کی حکومت ہے دیگر دونوں صوبوں میں اُس کا پنجاب جیسا ہی حال ہے۔ پی پی پی کی موجودہ قیادت سے نالاں یا اُس سے مایوس ہونے والے لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں یا بالکل خاموش ہیں۔ سندھ میں ایم کیو ایم نے اپنا جو حشر کیا ہے گزشتہ تین دہائیوں میں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سینٹ کے حالیہ الیکشن نے اُس کے مستقبل کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ نظر آتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا ، ایم کیو ایم اپنی موت آپ مر جائے گی میں یہ تو نہیں کہتا کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ جائے گا لیکن یہ حتمی رائے ضرور رکھتا ہوںکہ ایم کیو ایم مستقبل قریب میں کئی چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہو کر بہت سے قائدین کے ہاتھ میں ہو گی جو اِسے اپنے اپنے مقصد اور مفادات کے لیے استعمال کریں گے۔ رہی مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی بات تو یہ ارمان کئی دلوں میں ٹوٹ کر رہ گیا ہے نہ اِسے اسٹیبلشمنٹ توڑ سکی ہے نہ سپریم کورٹ کا پانامہ فیصلہ پاناما فیصلے کے بعد تصور یہی کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ کے کئی ٹکڑے ہوں گے اور وہ واضح طور پر کئی حصوں میں تقسیم ہو کر اپنے انجام کو پہنچ جائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نواز شریف نے جی ٹی روڈ کا جو سفر اختیار کیا اور ’’مجھے کیو ں نکالا‘‘ کے جس بیانیے کے ساتھ ملک گیر بڑے اجتماعات اور جلسے کئے۔ اُس نے ایک بات صاف ظاہر کر دی کہ جب تک نواز شریف ہیں مسلم لیگ (ن) کو نہ کوئی توڑ سکتا ہے، نہ اس کے حِصّے بخرے کئے جا سکتے ہیں۔ حالیہ سینٹ الیکشن سے بھی ثابت ہوا کہ ن لیگ ایک ہے اور اس کی یک جہتی نواز شریف کی قیادت سے وابستہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے سیاست میں اپنی جگہ بنائی ہے 2013ء کے الیکشن میں چیئرمین تحریک انصاف ’’تبدیلی‘‘کے جس نعرے کو لے کر شہر شہر، گلی گلی گئے اُس نے عوام میں بڑی پذیرائی حاصل کی۔ نوجوانوں کو بھی عمران خان نے اپنی پارٹی کے ساتھ ملایا تو پی ٹی آئی کو ایک نئی جہت اور سمت ملی۔ مقبولیت کا ایساعالم ہوا کہ اُسے ایک صوبے میں حکومت مل گئی جبکہ وفاق میں بھی وہ ایک بھرپور اپوزیشن کے کردار میں ابھری اور سامنے آئی۔ اگرچہ نیشنل اسمبلی میں عددی اکثریت کے باعث پیپلز پارٹی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی لیکن دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف ہی تھی جس نے اپوزیشن کا وہ پازیٹو رول ادا کیا جو کسی بھی حزب اختلاف کی جماعت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی مزید پس منظر میںچلی گئی۔ لگ یہی رہا ہے کہ جب 2018ء کا الیکشن ہو گا ، پیپلز پارٹی مزید نقصان اٹھائے گی اور نیشنل اسمبلی میں جتنی نشستیں اب اُس کے پاس ہیں اُس میں مزید واضح کمی دیکھنے میں آئے گی۔ سندھ میں 2018ء کے الیکشن کے بعد اگرچہ پیپلز پارٹی ہی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی تاہم پنجاب میں اُس کا کوئی سیاسی رول نہیںہو گا۔ دوسرے معنوں میں وہ پنجاب سے بالکل ’’فارغ‘‘ ہو جائے گی۔ آصف زرداری کچھ بھی کر لیں، بلاول خود جلسوں میں آ جائیں۔ براہ راست عوام سے مخاطب بھی ہو جائیں لیکن کسی منشور اور کسی بھی جذباتی خطاب کے باوجود پی پی پی کے ووٹ بینک میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آئے گا۔ تجزیہ یہی کہتا ہے اور مکمل گمان ہے کہ پنجاب میں جو بڑا سیاسی معرکہ ہو گا اُس کے دونوں حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ہی ہوں گے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران 2018ء کی الیکشن کمپین میں کس سلوگن کو لے کر چلیں گے۔ گزرتی دہائی میں ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ اُن کا سب سے بڑا سیاسی ہتھیار تھا جسے انہوں نے بڑی کامیابی سے کیش بھی کرایا۔ بعدازاں وہ پاناما پر بھی تحریک چلاتے رہے۔ بالآخر نواز شریف کو اقتدار سے نکلوا کر دم لیا۔ لیکن 2018ء کے الیکشن میں اب اُن کے پاس کہنے کو نیا کیا ہو گا۔ عمران خان اگر پرانے ہی بیانیے کو لے کر چلے۔ پرانی ہی باتوں کو بار بار دہراتے رہے تو وہ اپنا سیاسی وزن کھو دیں گے۔ لہٰذا 2018ء کے الیکشن میں ضرور کچھ نیا ہونا چاہیے۔ نیا بیانیہ، کوئی نئی بات اور نیا منشور۔ سیاسی جماعتوں کو اب کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے یہ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ لوگ ہر بات اور ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی سیاسی پوزیشن اس لیے مضبوط ہے کہ اُس کے چیف منسٹر نے اپنے لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے، جو کچھ کہا ہے وہ ہوتا نظر بھی آیا ہے ایسے میگا ترقیاتی پراجیکٹ اپنی تکمیل کو پہنچے ہیں جن سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تھی تو لوڈ شیڈنگ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ جو، اب اِن کی حکومت کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ پنجاب بھر میں طویل سڑکوں اور پلوں کا جو جال پھیلایاگیا ہے۔ اُس نے آمدو رفت کے مسائل کو کافی حد تک کم کیا ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگی حکومت نے تمام مسائل پر قابو پا لیا ہے یا انہیں حل کر لیا ہے لیکن مجموعی طور پر حالات میں بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ عوام بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس نے کیا وعدہ کیا تھا اورکیا وہ اُس پر پور اُترا بھی ہے یا نہیں؟ اس لیے عمران خان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے بیانیے کے ساتھ انتخابی جلسوں میں اُتریں کہ لوگ اُن کے دیوانے ہو جائیں اور میںبحیثیت ایک صحافی انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کریں۔ میں نے 2016ء میں ایک نجی ٹی وی چینل پر فقرہ کہا تھا ’’اگر عمران خان 2018ء کے الیکشن تک ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند رہے تو وہ 2018ء کی اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر بن سکتے ہیں‘‘۔ جنرل الیکشن میں اب کچھ ہی وقت باقی ہے شاید ڈیڑھ دو ماہ بعد آپ سیاسی سرگرمیوں کو بہت عروج پر دیکھیں ہر کوئی اپنا اپنا زور لگانے کے درپے ہے۔ ہم ایک بہترین حکومت اور بہترین اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیںکیونکہ یہ بہتر ہوں گے تو حکومت کا نظام بھی بہتر چلے گا۔ سیاسی نظام کو مضبوط تر رہنا چاہیے۔ اس میں استحکام آئے گا تو ملک میں استحکام آئے گا یوں ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کی طرف گامزن ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں عمران خان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں اور وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں اور دیہاتی علاقوں کے دورے کریں اور اقلیتی برادری سے تعلقات استوار کریں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024