پارلیمنٹ ڈی فیکٹوریاست ختم کرے ورنہ تصادم ہو گا: فرحت اللہ بابر، تمام عدلیہ عدم مداخلت کا فیصلہ سامنے رکھے: چیئرمین سینیٹ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے ایوان میں عدلیہ سے متعلق تحریری پالیسی بیان میں کہا ہے عدالتی اور پارلیمنٹ کے علیحدہ مقاصد نہیں ہیں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا مقصد آئین کا دفاع اور تحفظ ہے، عدم مداخلت کے فیصلے کو تمام عدلیہ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، یہ افسوسناک ہے اسمبلی کے ایک سپیکر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی منگوائی گئی ہائیکورٹ کا معلومات منگوانا پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی کے تصور کی خلاف ورزی ہے چند روز کے واقعات نے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے سپریم کورٹ ماضی میں طے کرچکی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی ماضی کے چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں دیا سپریم کورٹ نے یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت طے کردیا تھا موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہوں ایسے معاملات پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس میں لاچکا ہوں آئینی اداروں میں مزید خلیج پیدا کئے بغیر چیئرمین کا عہدہ چھوڑنا چاہتا ہوں عدم مداخلت کے اس فیصلے پر تمام عدلیہ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اسلام آباد ہائیکورٹ نے جوپارلیمانی ریکارڈ منگوایا وہ طے شدہ اصول کے منافی ہے امید ہے نیا چیئرمین سینٹ اس اصول کو آگے لیکر چلے گا سپیکر اسمبلی کو توہین عدالت نوٹس جاری کرنے کی بات بدقسمتی ہے چیئرمین سینٹ کا دفتر ایسے معاملات کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ریکارڈ منگوانے پر چیف جسٹس سے ملاقات کرنا وقت کی کمی کے باعث نہ کرسکا رضا ربانی نے کہا کہ یقین ہے نئے چیئرمین سینٹ اس معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے بات کریں گے ۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں الوداعی خطاب میں کہا میرے گائوں کا دانا شخص بابا رحمتے کہتا ہے آئین پارلیمان سے بالاتر ہے۔ میرے گائوں کا بابا رحمتے کہتا ہے آئین وہ نہیں جو لکھا ہوا ہے، میرے گائوں کا بابا رحمتے کا کہنا ہے آئین وہ ہے جو میں کہوں گا۔ افسوس ججز آئین و قانون لکھنے کی بجائے فیصلوں میں اشعار کا حوالہ دیتے ہیں جب 2018 کی انتخابی مہم دیکھتا ہوں تو خوف آتا ہے۔ کہیں 2018 کا سال عدلیہ پر ریفرنڈم کا سال نہ ہو، کہیں 2018 کا الیکشن کا محور عدلیہ کا ریفرنڈم نہ بن جائے۔ ججز اس راستے پر نہ چلیں جس میں انتخابات عدلیہ پر ریفرنڈم بن جائے، پارلیمان کو وارننگ دیتا ہوں کہ اس دن کے شر سے بچو۔ ریاست کے اندر ریاست بنتی جارہی ہے‘ ان میں کشمکش ہے۔ فیض آباد دھرنا ہوا تو حکومت کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ حکومت کے سرنڈر کے معاہدے کو ڈیفلیکٹو ریاست نے سائن کیا۔ پارلیمنٹ ڈی فیکٹو ریاست ختم نہیں کرے گی تو ٹکرائو کی جانب جائیں گے۔ ڈی فیکٹو ریاست احتساب سے ماورا ہے۔ صرف ڈی جیورے ریاست کا احتساب ہوتا ہے۔ احتساب کمیٹی میں سب کے احتساب کی بات آئی تو افسوس کی بات ہے۔ میری جماعت بھی پیچھے ہٹ گئی۔ افسوس ہے ہم اداروں کے درمیان ٹکرائو کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پارلیمان کی خودمختاری ختم ہو رہی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم اور صوبوں کو اختیارات کی منتقلی رول بیک کی جارہی ہے۔ ڈیوولیوشن کو رول بیک کیا تو ایسا نہ ہو چھوٹے صوبے اٹھ کھڑے ہوں۔ چھوٹے صوبے یہ نہ کہہ دیں قومی اسمبلی میں پنجاب کے برابر کرو۔ یہی برابری مشرقی پاکستان سے پنجاب نے مانگی تھی۔ خطرات منڈلا رہے ہیں، پاکستان کو بچانے کی ذمہ داری پارلیمان پر ہے۔ سینیٹر نسرین جلیل نے سینٹ میں اپنے خطاب میں کہا قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں ایک دوسرے پر ذاتی حملے نہیں کیے جاتے۔ رضاربانی کی قیادت میں سینٹ نے واقعی ہائوس آف فیڈریشن کا کردار ادا کیا۔ ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔ سینٹ الیکشن پر ساری جماعتوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے‘ اخلاقیات کہاں گئیں۔ ہر تین سال بعد سینٹ الیکشن میں خریدو فروخت کی بات ہوتی ہے۔ سینٹ الیکشن میں ووٹ کی خریدو فروخت کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی جائے۔ سینیٹر محسن لغاری نے اپنے خطاب میں کہا ممبران یہاں بیٹھ کر بات کیے بغیر چلے جاتے ہیں۔ جماعتیں دوسرے صوبوں سے امیدوار سینٹ میں منتخب کرا لیتی ہیں۔ ڈیم پنجاب کو برا بھلا کہنے سے بھر تو نہیں جائیں گے۔ پنجاب کو برا بھلا کہنا ایوان میں فیشن بن گیا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں، جن لوگوں نے اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دیئے شاید وہ اپنی قیادت سے مطمئن نہیں تھے۔آئی این پی کے مطابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ اب تک منصب کی قید کی وجہ سے بہت سی باتوں پر زباں بندی تھی،چیئرمین سینٹ کی قید سے نکلوں گا تو کھل کر بولوں گا،ملک اس وقت ایک نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے ،ایک طرف ٹرانزیشن کا وقت ہے ،جہاں پر آمریت سے جمہوریت کا سفر رواں دواں ہے ،دوسری طرف غیر جمہوری رویے اور سوچ ختم نہیں ہوئی ،کئی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہاں پر کائونٹر ریولوشن لانے کی کوشش کی جارہی ہے،ملک میں آئینی و قانون کوپامال کرنے کی کوشش ہورہی ہے، ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک کو جمہوری ملک نہ بنالیں ،چیئرمین سینٹ کی قید سے نکلنے کے بعدپھر وہی پریس کلب، وہی سڑکیں اور وہی لاٹھی ہوگی وہی نعرے ہونگے ،غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن ہمیں غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔وہ منگل کو پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی الوداعی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ2 سال سے میں سینیٹ آف پاکستان کا حصہ ہوں ،صحافیوں اور خصوصا پارلیمانی صحافیوں کے ساتھ ایک تعلق اس وقت سے ہے اور یہ سیاسی رشتہ میں استوار ہوگیا ،جس طرح صحافیوں نے سیاسی رشتہ نبھایا اسی طرح میں بھی اس رشتے کو نبھائوں گا۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ قائد اعظم نے جو پاکستان کا تصور دیکھا اور اس کا تذکرہ اپنی اگست کی تقریر میں کیا،قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کا خطاب ہی پاکستان کا مستقبل ہے ،ہمیں قائد اعظم کی تقریر کو عملی شکل دینا ہے۔انہوں نے کہا ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں لاپتہ افرادکا مسئلہ نہ ہو، عوام کو ان کے حقوق ملیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے بارہا جمہوریت اور پارلیمنٹ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا ،اگر ہم آج اس ایوان میں موجود ہیں تو یہ ان کے مرہون منت ہے جن سیاسی کارکنوں اور ورکنگ جرنلسٹوں نے کوڑے کھائے، ظلم سہے ،جمہوریت ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر نہیں دی بلکہ ہم نے آمروں سے چھینی ہے، جب ہم اپنا حق چھیننا جانتے ہیں تو اداروں اور آئین کو بچانا بھی جانتے ہیں۔
رضاربانی