آپا عذرا ریاض…اللہ حافظ
انہوں نے 1953-54 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پہلے اسلامک سٹڈیز اور پھر عربی میں ایم اے اور ساتھ ہی بحیثیت لیکچرر تدریس کے شعبہ کا انتخاب کیا۔ سرگودہا کی ایک زمیندار فیملی کے سرکاری ملازم سے شادی ہوئی تو کچھ ابتدائی عرصہ کراچی میں گزارا ، پھر راولپنڈی منتقل ہو گئیں راولپنڈی میں گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج سکستھ روڈ کا اپنا ایک مقام ہے بعد میں یہ پوسٹ گریجویٹ کالج بن گیا وہاں پوسٹنگ ہو گئی ۔ درمیان میں مختصر عرصہ کے لئے اسلام آباد کے ایک گرلز کالج میں تبادلہ ہوا ۔ مگر سکستھ روڈ کالج سے وابستگی کچھ اس قدر ہو گئی تھی کہ واپس چلی آئیں۔ اسی کالج میں وائس پرنسپل اور پھر یہیں سے 1991 ء میں بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئیں ان کی وائس پرنسپل اور پرنسپل تعیناتی کے زمانہ میں یہ کالج اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔ داخلوں کے معاملہ میں سفارشیں اور سرکاری پریشر آتا مگر کیا مجال کے میرٹ کی خلا ف ورزی ہو ۔ ایڈمنسٹریٹر اتنی سخت کے کالج کے باہر دور دور تک کوئی غیر ضروری شخص نظر نہ آتا۔ تعلیمی معیار بھی نہایت عمدہ اور بچیوں کو تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کا درس بھی دیا جاتا ۔ بلاشبہ اپنے زمانے کی وہ ’’ دبنگ ‘‘ پرنسپل تھیں ۔ اسلامک سٹڈیز اورعربی میں ایم اے تو ضرور کیا تھا مگر اسلامی تعلیمات ، قرآن پاک کا وسیع مطالعہ، حدیث پاک پر مکمل عبور اور تصوف میں بھی گہری دلچسپی تھی ۔ جوانی میں ہی یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہورکے شعبہ اسلامیات کے ہیڈ ڈاکٹر ابوبکر غزنوی ( جن کے بیٹے جنید غزنوی آج کل ٹی وی پروگرام کرتے ہیں) انکے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے مرکز ’شیش محل ‘‘ لاہور میں درس قرآن پاک کی محافل میں باقاعدگی سے شرکت فرماتیں ۔ انہی کی سرپرستی اور اجازت سے ماہانہ درس قرآن کا سلسلہ اپنے گھر میں شروع کردیا رفتہ رفتہ آپکی یہ محافل اتنی مقبول ہوئیں کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے خواتین کے درس کے لئے ایک پروگرام تشکیل دیا جس میں طویل عرصہ وہ میزبان رہیں۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبر بھی رہیں اور اس عرصہ میں کارکردگی بے حد مثالی رہی ۔ اسلامی سزائوں ، مثال کے طور پر چور کے ہاتھ کاٹنے کے سلسلہ میں انکی سوچ مختلف تھی،وہ دیگر ممبران کو قائل کرنے کی کوشش کرتیں کہ پہلے نظام بھی اسلامی ہونا چاہیئے ۔ ہر کسی کو روز گار ملے ۔ کوئی بھوکا پیاسا نہ سوئے ۔ ہر شہری کے حقوق کا ریاست برابر کا خیال رکھے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو بے شک چور کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں ۔ اسی طرح وہ مرکزی زکوٰۃ کونسل کی ممبر بھی رہیں اور سارے پیریڈ میں ان کی جدوجہد یہی رہی کہ اول زکوۃ کے پیسے ٹھیک طریقہ سے اکٹھے کیے جائیں، دوم کہ صرف مستحقین کے پاس ہی جائیں ۔ کونسل اور ممبران کی عشرت میں پیسے خرچ ہونے کی شدید مخالفت کرتی تھیں۔
مستقل سکونت کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ فور کو ترجیح دی اور پھر وہاں ہر بدھ کو خواتین کا درس شروع کردیا ۔ ان کے درس میں بڑے بڑ ے لوگوں کی بیویاں ۔ بڑے بڑے خاندانوں کی خواتین اور ہر چھوٹی بڑی عمر کی صاحبزادیاں شامل تھیں۔ وقت کی مناسبت سے تواضع بھی کی جاتی ۔ خواتین میں یہ ’’ آپاجی ‘‘ مشہور تھیں ۔ ذاتی لائبریری میں ہر بڑے رائٹر کی قرآن پاک کی تفیسر اور احادیث کا مکمل سیٹ معہ ترجمہ و تشریح تھا۔ جو بھی آتا فیض پاتا ۔ ہر کوئی اپنا مسئلہ بیان کرتا اور حسب توفیق مشورہ / عمل / وظیفہ لے کر جاتا ۔ سرگودہا مین کچھ موروثی زمین تھی وہاں کی آمدن اور پنشن ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا کل اثاثہ تھا مگر کوئی بھی ضرورت مند آتا تو خالی ہاتھ نہ جاتا ۔ ایک دفعہ ایک نوجوان ان کے پاس آیا ۔ اپنی مجبوریاں بتانے کے بعد دس ہزار روپے کی مدد کی درخواست کی ۔ آپ نے کہا کہ اس وقت تو رقم میرے پاس نہیں ہے مگر تم بیٹھو کھانا کھائو اللہ مسب الاسباب ہے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک سابق سیکرٹری فصیح صاحب بیگم سمیت آئے اور کہا آپا جی یہ دس ہزار روپے صدقے کی نیت سے ہیں کسی ضرورت مند کو دے دیں ۔ اسی طرح ایک اور صاحب آئے اور پچاس ہزار روپے کی مدد کاکہا ۔ آپ نے بندوبست کرکے اس کو بھیج دیا۔ کافی عرصہ بعد وہ شخص آیا اور رقم واپس دینا چاہی ۔ آپ نے پوچھا کیسے بندوبست کیا، جب اس نے تفصیل بتائی تو رقم واپس دیتے ہوئے کہا کہ تمہارا وعدہ پورا ہو گیا تم جائو اور اپنے بیوی بچوں کی فکر کرو۔
دس اگست 2012 ء دوپہر کے وقت مجھے ایک فون آیا حسب عادت میں نے السلام علیکم کہا۔ وعلیکم اسلام کہہ کر پوچھا آپ فلاں صاحب بول رہے ہیں۔ مثبت جواب سن کر کہا میں مسز عذرا رریاض اسلام آباد سے بات کررہی ہوں ابھی نوائے وقت سے نمبر لیا ہے۔ آپ کا آخری کالم تصوف پر تھا ، بے حد پسند آیا ۔ آپ سے بات کرنا چاہی، وقت ہے میں نے کہا جی ضرور۔ اپنا مکمل تعارف کروایا ۔ اپنی مصروفیات بارے آگاہ کیا اور ساتھ ایک تاکید کی کہ بیٹا راز داری بڑی اہم چیز ہے اس کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ جس نمبر سے وہ کال کر رہی تھیں وہ ان کا ذاتی موبائل نمبر تھا ۔ بتایا کہ انشا ء اللہ آپ سے بات ہوتی رہے گی اور آپ بھی جب چاہیں مجھے کال کر سکتے ہیں۔ تقریبا چھ سال ہو چلے ہیں میرا ’’ آنٹی جان ‘‘ سے مسلسل رابطہ ہے ۔ اگر ہر کالم پر نہیں تو دوسرے کالم پر صبح دس گیارہ بجے ان کی کال آجاتی ۔ سیاسی کالم پر خیالات یکساںنہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی ڈانٹ بھی کھانا پڑتی ۔ تصوف کے کالم لکھتے وقت ان سے راہنمائی بھی حاصل کیا کرتا ، مشورہ کے ساتھ حوصلہ افزائی بھی فرماتیں۔ اتفاق سے ان کی گلی سے ایک گلی آگے میری بڑی بہن رہتی ہیں ۔ وہ بھی آپا جی کی متعقد اور باقاعدگی سے ان کے درس میں شریک ہوتی ہیں ۔ میں نے دو تین بار اپنے کالم میں ’’ آنٹی جان ‘‘ کا ذکر کیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ یہ آنٹی جان کون ہیں۔ میں ہمیشہ بات کو گول کر جاتا اور آنٹی جان کی ہدایت ( راز داری ) پر سختی سے پابند رہا ۔ تقریباآٹھ ماہ قبل آنٹی جان نے ڈائی جیسٹوسسٹم کے ٹھیک نہ ہونے کا بتایا تو میں نے مشورہ دیا کہ موٹر وے پر کلر کہار سے تھوڑا آگے بابا فرید کا چشمہ ہے وہاں کا پانی منگوا کر پیئں ۔ ان کے داماد ڈاکٹر عمیر باجوہ لاہور میں رہتے ہیں اتفاق سے وہ چند دنوں بعد اسلام آباد آئے تو بطور خاص وہ پانی منگوایا اور ماشاء اللہ آفاقہ بھی ہوا۔ تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل ان کی کال آئی ، انہوں نے گھر کے نمبر پر کال کی تو میری بیگم سے بات ہوئی۔ ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔ تب تک میں بھی آگیا ۔ بہت خوش تھیں اور دعائیں دیے جا رہی تھیں اور فون پر یہی اُن سے آخری بات تھی۔4 مارچ شام بیگم نے بتایا کہ ایک بری خبر، باجی سے بات ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپا جان فوت ہو گئے ہیں اور ان کا جنازہ بھی ہو گیا ہے ۔ انتہائی دکھ ہوا ۔ اگلے دن سوموار ان کے گھر حاضر ہوا ۔ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے پوچھا انکل ریاض مظفر وڑائچ صاحب سے ملنا ہے ایک بزرگ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ تعارف کروایا تو زور سے بغلگیر ہو گئے کہنے لگے کہ جب تمارا کالم چھپتا تو پہلے خود پڑھتی، مجھے دیتیں، ہماری ڈسکشن کے بعد آپ کو فون کرتی تھیں۔ میں کافی دیر بیٹھا رہا اور ہم آنٹی جان کی باتیں کرتے رہے ۔ اٹھتے وقت انکل نے وعدہ کیا کہ اب میں تمہیں فون کیا کروں گا۔ وہاں سے اٹھ کر میں باجی کے گھر آیا اور پھر بھی راز داری قائم رکھی ۔ اب چونکہ آنٹی جان اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں تو یہ راز داری ختم کر رہا ہوں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ آنٹی عذرا ریاض کو جنت الفردوس میں جگہ دیںا ور ان کے درجات کو بلند فرمائیں۔ آمین ثم آمین