دھن دھنا دھن
میں کوئی بھی پاکستانی ٹی وی چینل کھولوں موسیقی نما کوئی شے مع دھن دھنا دھن دھن دھنا دھن اور بے ڈھنگے ساؤنڈ ایفیکٹس اور بے شمار ایک دوسرے کو کاٹتی عجب عجب مورتیں میرے ذہن کو چھلنی کرتی شور مچاتی گزر جاتی ہیں اور میرا دماغ جھن جھنا کر رہ جاتا ہے۔ پھر کئی سیکنڈ تک مجھ پر ایک خلجا ن سا چھا جاتا ہے۔ اور پھرمیں سُنّ ہو کر رہ جاتا ہوں۔ یہ سب اتنی مرتبہ دہرایا تہرایا جاتا ہے کہ میں شل ہو جاتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا بھی یہی حشر ہوتا ہے۔سکون کا کوئی بھی لمحہ ان بے بِضاعت چینلوں سے میسر نہیں آتا۔ بڑا جی چاہتا ہے کہ کوئی چینل تو ایسا ہو جو چند گھڑیاں آرام اور چین کے ساتھ کوئی پروگرام نشر کرے! تنگ آ کر میں بی بی سی کو سلیکٹ کر لیتا ہوں۔مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار یہ سنا تھا کہ ایوب حکومت ٹی وی لا رہی ہے تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا تھا اللہ خیر کرے یہ مصیبت ہمارے ہاں بھی آ گئی۔۔۔۔ بُرا ہُوا۔لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ میرا کیریر بھی یہی ٹیلیوژن بن جائے گا۔ چنانچہ یہ ہی ہوا کہ میں اوربرادرم محمد قوی خان پاکستان ٹی وی کے پہلے اداکار بن گئے۔ ہر چند اُن دنوں یہ پی ٹی وی نہیں تھا این ای سی تھا مگر چند مہینوں کے بعد یہی این ای سی‘ پی ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلیویژن بن گیا۔پہلے تو فری لانسنگ ہوتی رہی، پھر جب کچھ مہربان پروڈیوسروں نے مجھے اس لیے بھی کاسٹ کرنا شروع کردیا کہ میں اُن کی آسانی کے لیے ہدایات بھی دیاکروں تو میں نے سوچا اس سے بہتر ہے کہ میں خود پروڈیوسر بھرتی ہو جاؤں ۔ چناں چہ میں ٹی وی میں بھرتی ہو گیا۔ یہ 15اگست 1969 کی بات ہے۔بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستا ن بنتے ہی سب سے پہلے اپنے ٹیلینٹڈ کزن کو بھرتی کیا اور پھر اور اداروں کی طرح ٹیلیویژن کے در بھی کھول دیے ۔ وہ لوگ بھی بھرتی ہو کر ریموٹ علاقوں سے آنا شروع ہو گئے جن کا آرٹ یا کلچر سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔لیکن سب سے بڑی مصیبت جو ٹیلیوژن پر پڑی وہ اس کا نیم سرکاری کے ساتھ سرکاری نوکری ہو جانا تھا۔ اس بے ہودہ حرکت میں خود ٹیلیوژن کے پرانے سرخیل بھی شامل تھے جنہوں نے عہدے حاصل کرنے کے لیے ٹیلیوژن کو سرکاری بیسوا بنادیا۔پی ٹی وی اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت تھا شروع ہی سے اس کو انتہائی ٹیلینٹڈ لکھنے والے میسّر آ گئے۔ ہر چند اُن کا ٹیلیوژن کا تجربہ نہیں تھا۔۔۔۔مگر کس کا تھا؟ سب لوگ یا ریڈیو کی پیداوار تھے یا اسٹیج اور فلم کی۔لیکن جن کے پاس خداداد صلاحتیں ہوتی ہیں وہ بے پناہ تیزی سے سیکھتے ہیں۔ سو سیکھ گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی و ی آفتاب بن کر ایک عرصے تک۔۔۔۔بہت عرصے تک چمکا۔ لیکن سرکارپناہ آ خر اس کے لے ڈوبا۔ ریٹائرمنٹ کادیو استبداد اسے نگل گیا۔کہاں تو جارج کیوکرؔ (ہالی وُڈ کا ویٹرن ہدایتکار جس نے ’’بھوانی جنکشن‘‘ بھی ڈایریکٹ کی تھی) چورا سی برس کی عمر میں بھی ہدایتکاری کا کام کررہا تھا اور یہاںپی ٹی وی ویٹرن ہدایت کاروں کو صرف ساٹھ برس کی عمر میں’ ناکارہ‘قرار دے کر ریٹائر کر دیا جاتا رہا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان ’ویٹرن ناکارو ں‘ میں سے بیشتر آج، 2018 میں بھی کام کر رہے ہیں! تُف ہے ایسی سرکاری پالیسی پر! کیسے کیسے ہیرے رُل گئے!جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کون کون بہترین لوگ اِس سرکاری پالیسی کی نذر ہو گئے اور قوم کا قیمتی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ نام گنوانا عبث ہے! اور اب یہ عالم ہے کہ ، اکا دُکا کے سوا ہر چینل پہ اناڑیوں کا راج ہے جنہیں یہ بھی نہیں پتا کہ ناظرین پر کس با ت کا سائیکلوجیکل امپیکٹ یعنی نفسیاتی اثر کیا ہو گا!کسی کو احساس نہیں کہ اگر بولنے والے بیک وقت دو، تین یا چار لوگ ہو جائیں تو کیا ہوتا ہے؟ ٹی وی میک اپ، بیوٹی پارلرز سے نہیں کرواتے!اور میک اپ کا مطلب دلہن بنانا نہیں ہوتا۔شوخ اور چیختے ہوئے رنگوں کے پیش منظر میں شوخ اور چیختے ہوئے رنگوں کے لباس نا موزوں ہوتے ہیں۔ خبر کو اگر ایک ہی وقت میں سات سات بار دہرایا جائے تو خبر کی ’’مِجھ‘‘ نکل جاتی ہے۔ کونسی آواز سننے والے کے کانوں میں رس گھولتی ہے اور کونسی کانوں میں چھید کر دیتی ہے؟اوور لیپنگ ایک قسم کا جُرم ہے۔چیخم دھاڑصرف ڈریمیٹک ڈیمانڈ پر بھلی لگتی ہے۔ ہر کردار اگر ’’خط کشیدہ‘‘ داڑھی کے ساتھ نظر آئے تو کیا ہوتا ہے؟ناظرین کو ہر خبر بتانی ضروری نہیں ہوتی۔ بُرائی کو اچھالنا خود بڑی بُرائی ہے۔زبان کی حُرمت کس چڑیا نام ہے۔ تلفظ کی کیا اہمیت ہے۔ ہجے کیوں ضروری ہیں۔ غَلَط زبان قوم پر کیا اثر ڈالتی ہے۔(مثلاً’عوام‘ جمع مذکّر کا صیغہ ہے جسے عمران خان سمیت کئی ’پڑھے لکھے واحد مؤنّث کے صیغے میں بولتے ہیں)کون سا لباس ناظرین کو کیا پیغام دیتا ہے۔ کس لفظ کا ناظرین کیا مطلب لیں گے۔مثلاً’’داغ تو اچھے ہیں ‘‘ سے کیا مطلب نکلتا ہے ؟ یا ’’جو جی چاہے کر لے‘‘ کا ناظرین کیا مطلب لیں گے!اشتہاری دنیا کا ایک سبق یہ بھی ہوتا ہے کہ"Projection is Promotion" یعنی جو شے ضرورت سے زیادہ دکھائی جائے وہ زیادہ پھیلتی ہے۔یہ جو ٹکر چلاتے ہیں اُن کا بھی عجب حال ہے۔ معلوم نہیں ناظرین نے کیا بگاڑا ہے ان چینلز کا کہ تین تین چار چار ٹکر ایک دوسرے سے متضاد اور متنوع خبروں کے ٹکر چلاتے ہیں ۔ بعض ٹکر اپنی ایک جھلک دکھلا کر اور بعض ڈیڑھ سیکنڈ مکھڑا دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں پھر فوراً ہی نمودار ہو کر پھر دفع ہو جاتے ہیں اور یہ عمل اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ طبیعت متلانے لگتی ہے۔ یہی نہیں ایک بڑا سا چوکھٹا نمودار ہوتا پھر فوراً ہی پلٹ جاتا ہے اور پھر وہ ٹی وی کے سکرین کا وافر حصہ ڈھانپ لیتا ہے اور ایک عرصے تک اسی طرح جھلکیاں دکھلاتا رہتا ہے اور پھر کوئی اور مضمون بل بورڈ کی طرح آتا جاتا رہتا ہے۔ اس بے مغز پریکٹس سے کیا حاصل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ ناظر کو جھنجلاہٹ میں مبتلا کیا جائے اور وہ گالیاں بکتا ٹی وی ہی آف کر دے۔ایک دو ایسے چینل بھی ہیں کہ یک دم اُن کی تصویر دھندلا جاتی ہے اور ایک مکروہ گاںںںںں کی بھیانک آواز کھُلی ہوئی والیوم سے سو گنا ہو کر کانوں کے پردے پھاڑنے لگتی ہے۔ آپ والیوم بالکل کم کر دیتے ہیں وہ بھیا نک آواز بالکل دب جاتی ہے اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کس وقت پروگرام آواز کے لحاظ سے اور پھر تصویر کے لحاظ سے بھی نارمل ہو چکاہے۔ جب آپ والیوم نارمل کرتے ہیں کئی تسلسل کی باتیں غتر بود ہو چکی ہوتی ہیں۔ ایسا اکثر اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی اینکر یا تجزیہ کار حکومتِ وقت کو ذلیل کر رہا ہوتا ہے۔ ناظر اس تذلیل کا بہت ہی تھوڑا سا حصہ سن پاتا ہے۔یہ چینلوں والے اپنی تعریف یا اپنے کسی کارنامے کا بھی موقع ملتے ہی ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں’’ ہمارا چینل پھر بازی لے گیا ‘‘کی ڈانڈی پٹتی رہتی ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی یہی رونا ہوتا ہے کہ ہم نے سب سے پہلے حاصل کر لی ہے۔ اُدھر خبریں سنانے والیاں اور والے بھی کم نہیں۔ پرانے زمانے کے گاؤں کے ڈھنڈورچی بن چکے ہیں۔ خوب اونچی چیختی ہوئی آواز میں اور بہت ہی بے ہودہ سُروں میں لہراتی بل کھاتی چیخو ںمیں خبر سناتے ہیں۔ حسِ لطافت ان کو چھو کر بھی نہیں گزری۔کبھی کبھار اتفاق سے کوئی ڈرامہ ایسا آجاتا ہے جس کی کہانی مختلف ہوتی ہے ورنہ جس ڈرامے کو ٹیون کرو ،نہ صرف کہانی سب کی ایک جیسی ہو گی بل کہ انداز، اینگلز، اداکاری(اگر اسے اداکاری کہہ سکیں)، کیمرہ ورک، پروڈکشن، داڑھیاں بھی ایک جیسی ہوں گی۔ ایسا لگتا ہے ایک سانچا ہے جس میں ڈھال ڈھال کر ایک ہی چیز بار بار دکھائی جا رہی ہے۔ کوئی سنجیدگی کہیں بھی نظر نہیں آتی ایسے لگتاہے یہ ملک ہی بھانڈوں کاہے۔ویسے ہمارے عوام بھی یہی ڈیزرو کرتے ہیں۔ جیسی قوم ویسے حاکم اور ویسے ہی دیگر ادارے ۔کوئی صاف ستھرا پاکستانی ڈھونڈنا
ع اسد اللہ خاں قیامت ہے!