sarashafiq2@hotmail.com
٭… ہماری جماعت نے جمہوریت کیلئے سینکڑوں کارکنوں کی قربانی دی ہے۔ ہم شہید بھٹو اور بینظیر بھٹو شہید کے وارث ہیں۔
٭… ہم جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنا نہیں چاہتے۔ اپنی انا کی قربانی دیکر بھی سسٹم کو بچانا چاہتے ہیں۔
درج بالا مئوقف پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک اقتدار پر قابض ہے جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہونے کے باوجود آنکھوں پر پٹی باندھے جمہوری اصولوں کی گلی کوچوں میں درگت بنتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ اقتدار میں شامل باقی جماعتیں بھی جمہوریت سے محبت کا دم بھرتی ہیں اور حصہ بقدرحبثہ کے سنہری اصول کے تحت ملکی و سائل کی بندربانٹ میں شامل ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے۔ جہاں ایک درجن کے لگ بھگ سیاسی جماعتیں بیک وقت ایک مفاہمتی فارمولے کے تحت ملک کا نظام ’’جمہوری‘‘ اصولوں کی روشنی میں چلا رہی ہیں‘ اس ’’خوبصورت‘‘ جمہوری نظام کے زمینی حقائق یہ ہیں:
o… مقتدر سیاسی جماعتیں صرف 34 فیصد ووٹ حاصل کرکے ملک پر حکمرانی کی حقدار بنی ہیں۔(66 فیصد ووٹروں کا تو کسی سیاسی مینڈیٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں) اگر ملک کی 17کروڑ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو سب سے بڑی سیاسی جماعت صرف 7 فیصد، دوسر 5 فیصد اور تیسری 4 فیصد آبادی کی نمائندہ ہیں۔
o… سیاسی جماعتوں کیلئے سیٹوں کا تعین انتخابات سے پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ اگر کیئرٹیکر حکومت کے دور میں ایک طے شدہ منصوبہ کے ذریعہ آٹے، چینی، بجلی اور گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کے مسائل پیدا نہ کئے جاتے تو مسلم لیگ (ق) بہت بڑا اَپ سیٹ کرسکتی تھی کیونکہ اس نے انتہائی طاقتور امیدوار میدان میں اتارے تھے۔
o… عام انتخابات کا انعقاد این۔آر۔او جیسے بدنام زمانہ سیاسی معاہدہ کے ذریعہ ممکن ہوا تھا جس کے تحت جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت صدر اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان پر حکومت کرنی تھی۔
o… لندن میں تحریر کردہ میثاق جمہوریت اس روز ایک کاغذ کے پرزے میں تبدیل ہوگیا تھا، جس دن امارات کے سرورپیلس میں امریکہ کی خواہش کیمطابق این۔آر۔ او پر دستخط کئے گئے تھے۔ (اب اس میثاق کا بار بار حوالہ دینا حقیقت حال کا منہ چڑانا ہے)
o… محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جناب آصف زرداری نے اپنے سیاسی کارڈز انتہائی کامیابی سے کھیل کر تمام سیاسی رہنمائوں کو ناک آئوٹ کردیا۔ ایک ’’اصلی‘‘ وصیت کے ذریعہ بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین اور خود کو شریک چیئرمین بنایا۔ کرپشن کے مقدمات لڑنے والے اپنے تین بااعتماد ساتھیوں میں سے ایک کو سینٹ کا چیئرمین، دوسرے کو اٹارنی جنرل اور تیسرے کو وفاقی وزیر بنوایا۔(ن) لیگ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرکے حلف برداری کیلئے جنرل پرویز مشرف کے حضور میں پیش کیا۔ مفاہمت کے نام پر چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں حصہ دلوایا۔ صدارتی امیدوار بن کر ایسے اچھوتے انداز میں انتخابی مہم چلائی کہ جسٹس سعید الزماں صدیقی، مشاہد حسین سید کو ہرا کر اور جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے چلتا کرکے میاں نوازشریف سے مبارکباد وصو ل کی۔
دوسرے مرحلہ میں اقتدار کا سرچشمہ ایوان صدر کو بنایا۔ شوکت عزیزکا درجہ یوسف رضا گیلانی کو عطا کیا۔ سندھ میں ایم۔ کیو۔ایم سے نمٹنے کیلئے وزارت داخلہ اور دوسری اہم وزارتیں پارٹی کے عقابوں کے سپرد کیں۔ میاں نوازشریف کو مذاکرات اور وعدوں میں الجھا کر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ تک آزاد عدلیہ کی بحالی کو روکے رکھا۔ امریکہ کو شیشے میں اتارنے کیلئے سوات میں آپریشن کا فیصلہ کیااور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا بدلہ لینے کیلئے پاکستان آرمی کونہ ختم ہونیوالی جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا۔
آزاد عدلیہ کی بحالی کیلئے 15 مارچ 2009ء کو جس لانگ مارچ کا سڑکوں پر اہتمام کیا گیا، اس کے نتیجہ میں افتخار محمد چودھری بحال ہوئے۔ اس کا کریڈٹ کسی ایک سیاسی جماعت کو نہیں جاتا۔ وکلاء بھائیوں کی ناقابل فراموش تحریک، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی قربانیاں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزاد عدلیہ کی بحالی امریکہ کی آشیرباد اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ٹیلیفون کال کے نتیجہ میں ہوئی۔گوجرانوالہ میں لانگ مارچ اس لئے ختم کیا گیا کہ راولپنڈی میں منتظر عمران خان اور قاضی حسین احمد سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔(یہ کیسے ممکن تھا کہ امریکی پالیسیوں کے مخالف سیاسی رہنمائوں کو ہیرو بننے کا موقع دیا جاتا۔)
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کا مفہوم وہ نہیں لیاجاتا جوکتابوں میں تحریر ہے یا مہذب ملکوں میں عملی طور پر رائج ہے۔ اقتدار کسی وزیراعظم کے حصہ میں آئے یا صدر کے قبضہ میں، وہ تمام جمہوری اصولوں کو پیروں تلے روند کر اپنے ڈھب کی جمہوریت کی آبیاری میں لگ جاتا ہے۔ کابینہ کا انتخاب کسی اہلیت یا خصوصی تجربہ کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے ذاتی دوستوں کو اہم ترین وزارتوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اپنی ذات کو مقبول بنانے کیلئے قومی خزانہ کو بے دردی سے خرچ کیا جاتا ہے۔ اقرباء پروری اور سفارش کے کلچر کو فروغ دیکر میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ پلاٹوں، پرمٹوں، ملازمتوں کے کوٹوں کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دیا جاتا ہے لیکن ایک دن جب ریت کی یہ دیوار جس پرجمہوریت کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے گرتی ہے تو ملک بھر کے گلی کوچوں میں جشن منایا جاتا ہے اور پھرایک نئے نام نہاد جمہوری دور کا انتظار کیا جاتا ہے۔ بھٹو کیخلاف فوجی انقلاب کے موقع پر پورے ملک میں دیگیں پکا کر خوشی کا اہتمام کیا گیا تھا اور 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نوازشریف کو تخت سے اتارنے پر پاکستان بھر میں جشن منایاگیا تھا۔
سیاستدان تواتر سے گلاپھاڑ کر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہیں آزادی سے حکمرانی اور ’’عوام کی خدمت‘‘ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور اقتدار کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ذلیل کرکے اقتدار سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں 1988ء سے 1999ء کے ’’جمہوری‘‘ دور کی مثال دی جاتی ہے۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو اور جناب نوازشریف کو دودو مرتبہ ملک پر حکمرانی کا موقع ملا۔ اس دور کی تاریخ پرانے اخبارات، رسالوں اور کتابوں میں محفوظ ہے۔ شرم آتی ہے سیاستدانوں کے کرتوتوں کو پڑھ کر۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کو دونوں مرتبہ کرپشن، اقرباء پروری اور غیر جمہوری رویوں کی بناء پر ڈسمس کیا گیا۔ دوسری مرتبہ تو انکی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی۔ میاں صاحب نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ 1997ء کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی لیکن وہ اسے ہضم نہ کرسکے۔ پہلے دور اقتدار میں انہوں نے جیوڈیشری کو اپنے تابع بنانے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ پر حملہ کرا کر ایک سیاہ تاریخ رقم کی اور دوسرے دور میں مغل شہزادوں کا انداز اختیار کرکے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں سے وعدہ کرکے اسے ایفاء نہ کیا اور صدرمملکت کی کرسی پر رفیق تارڑ کو بٹھا دیا۔ ہر دو قائدین نے جمہوریت کے سنہری اصولوں کو رائج کرنے، عوام کے مصائب کم کرنے اور گڈ گورننس قائم کرنے پر ذرہ بھر توجہ نہدی۔ وہ 11 سالہ دور حکومتی سطح پر فضول خرچیوں، بے ہنگم غیر ملکی دوروں، حکومت کے خرچ پر عمرہ و حج کی داستاتوں اور کھلے بندوں کرپشن کی کہانیوں سے عبارت ہے۔ اسی دور میں بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ کرکے سیاست میں گند پھیلایا گیا۔ اخلاقی اقدار کو پامال کیا گیا۔ پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرا منشاء کسی پر الزام تراشی نہیں لیکن بہت بڑی دیگ میں سے چند چاول دکھائے بغیر ریکارڈ درست کرنے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
دونوں وزرائے اعظم نے اسلام آباد میں سیاسی رشوت کے طور پر کروڑوں روپے کے پلاٹس الاٹ کئے۔ موجودہ حکومت کی ایک چہیتی خاتون جسے وزیراعظم کا حفاظتی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔ اسے 28 کنال کا پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ دوسرے کئی ممبران اسمبلی کودودوبار پلاٹ الاٹ کئے گئے۔
o… الاٹ شدہ پلاٹوںکی قیمت لگائی جائے تو وہ 6 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
o… ہر دور وزرائے اعظم نے میرٹ کے اصولوں کو روندتے ہوئے اپنے چہیتے دوستوں اور پارٹی عہدیداروں کو منافع بخش عہدوں پر لگایا اور حقداروں کے ساتھ ناانصافی کی۔
o… ایک وزیراعظم نے سیاسی بنیادوں پر 90 تقرریاں کیں۔ تیرہ افراد کو گریڈ۔22، سترہ افراد کو گریڈ۔21، اکتیس افراد کو گریڈ۔20 اور بقیہ کو دیگرگریڈز دیئے گئے۔ ملازمت کے مروجہ قوانین سے انحراف کیا گیا۔
o… دونوں وزرائے اعظم کے دور حکومت میں انتہائی کلیدی عہدوں پر تقرر کیلئے پروموشن بورڈ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کوئی مشاورت نہ کی گئی۔ تمام ٹرانسفرز ممبران اسمبلی کے دبائو پر کئے جاتے رہے۔
o… ایک وزیراعظم نے دورہ امریکہ پر جاتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کواپنے وفد کا حصہ بنا کر نئی تاریخ رقم کی۔ امریکہ نے چیف جسٹس مذکور کو مہمان کا درجہ دینے سے انکار کرکے بدسلوکی کی، جسے خاموشی سے گوارا کرلیا گیا۔
o… حیدرآباد میں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔
o… جناب آصف علی زرداری کو مسٹر ٹن پرسنٹ کہا گیا۔ آئی۔پی۔پیز کا سکینڈل منظر عام پر آیا۔ سرے محل پرنٹ میڈیا کی شہہ سرخیوں میں چھپا دفاعی ساز و سامان اور فرانسیسی آبدوزوں کی خرید میں کمیشن کے چرچے ہوئے۔ سوئس بنکوں میں چالیس اکائونٹس منجمد کی جانے کی خبروں نے ایک سیاسی جماعت کے قائدین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
جمہوری حکومتوں کی کارکردگی نے پاکستان کو معاشی ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا تھا۔ اس 11سالہ دور میں فوجی قیادت سیاستدانوں کی حماقتوں اور عیاشیوں کا تماشا دیکھتی رہی۔ پھرایک آرمی چیف نے گورننس کو بہتر بنانے کیلئے سلامتی کونسل کا نظریہ پیش کیا تو اسے مستعفی ہونے پرمجبور کردیا گیا۔ آخر کار 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے جمہوری نظام کا بستر گول کردیا۔ اقتدار پر آرمی کے قبضہ کی کوئی جمہوریت پسند شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ لیکن بدقسمتی سے سیاستدان ہر مرتبہ ایسے حالات پیدا کرتے رہے کہ آرمی کو مداخلت کرنی پڑی۔ (جاری ہے)
٭… ہماری جماعت نے جمہوریت کیلئے سینکڑوں کارکنوں کی قربانی دی ہے۔ ہم شہید بھٹو اور بینظیر بھٹو شہید کے وارث ہیں۔
٭… ہم جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنا نہیں چاہتے۔ اپنی انا کی قربانی دیکر بھی سسٹم کو بچانا چاہتے ہیں۔
درج بالا مئوقف پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک اقتدار پر قابض ہے جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہونے کے باوجود آنکھوں پر پٹی باندھے جمہوری اصولوں کی گلی کوچوں میں درگت بنتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ اقتدار میں شامل باقی جماعتیں بھی جمہوریت سے محبت کا دم بھرتی ہیں اور حصہ بقدرحبثہ کے سنہری اصول کے تحت ملکی و سائل کی بندربانٹ میں شامل ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے۔ جہاں ایک درجن کے لگ بھگ سیاسی جماعتیں بیک وقت ایک مفاہمتی فارمولے کے تحت ملک کا نظام ’’جمہوری‘‘ اصولوں کی روشنی میں چلا رہی ہیں‘ اس ’’خوبصورت‘‘ جمہوری نظام کے زمینی حقائق یہ ہیں:
o… مقتدر سیاسی جماعتیں صرف 34 فیصد ووٹ حاصل کرکے ملک پر حکمرانی کی حقدار بنی ہیں۔(66 فیصد ووٹروں کا تو کسی سیاسی مینڈیٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں) اگر ملک کی 17کروڑ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو سب سے بڑی سیاسی جماعت صرف 7 فیصد، دوسر 5 فیصد اور تیسری 4 فیصد آبادی کی نمائندہ ہیں۔
o… سیاسی جماعتوں کیلئے سیٹوں کا تعین انتخابات سے پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ اگر کیئرٹیکر حکومت کے دور میں ایک طے شدہ منصوبہ کے ذریعہ آٹے، چینی، بجلی اور گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کے مسائل پیدا نہ کئے جاتے تو مسلم لیگ (ق) بہت بڑا اَپ سیٹ کرسکتی تھی کیونکہ اس نے انتہائی طاقتور امیدوار میدان میں اتارے تھے۔
o… عام انتخابات کا انعقاد این۔آر۔او جیسے بدنام زمانہ سیاسی معاہدہ کے ذریعہ ممکن ہوا تھا جس کے تحت جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت صدر اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان پر حکومت کرنی تھی۔
o… لندن میں تحریر کردہ میثاق جمہوریت اس روز ایک کاغذ کے پرزے میں تبدیل ہوگیا تھا، جس دن امارات کے سرورپیلس میں امریکہ کی خواہش کیمطابق این۔آر۔ او پر دستخط کئے گئے تھے۔ (اب اس میثاق کا بار بار حوالہ دینا حقیقت حال کا منہ چڑانا ہے)
o… محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جناب آصف زرداری نے اپنے سیاسی کارڈز انتہائی کامیابی سے کھیل کر تمام سیاسی رہنمائوں کو ناک آئوٹ کردیا۔ ایک ’’اصلی‘‘ وصیت کے ذریعہ بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین اور خود کو شریک چیئرمین بنایا۔ کرپشن کے مقدمات لڑنے والے اپنے تین بااعتماد ساتھیوں میں سے ایک کو سینٹ کا چیئرمین، دوسرے کو اٹارنی جنرل اور تیسرے کو وفاقی وزیر بنوایا۔(ن) لیگ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرکے حلف برداری کیلئے جنرل پرویز مشرف کے حضور میں پیش کیا۔ مفاہمت کے نام پر چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں حصہ دلوایا۔ صدارتی امیدوار بن کر ایسے اچھوتے انداز میں انتخابی مہم چلائی کہ جسٹس سعید الزماں صدیقی، مشاہد حسین سید کو ہرا کر اور جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے چلتا کرکے میاں نوازشریف سے مبارکباد وصو ل کی۔
دوسرے مرحلہ میں اقتدار کا سرچشمہ ایوان صدر کو بنایا۔ شوکت عزیزکا درجہ یوسف رضا گیلانی کو عطا کیا۔ سندھ میں ایم۔ کیو۔ایم سے نمٹنے کیلئے وزارت داخلہ اور دوسری اہم وزارتیں پارٹی کے عقابوں کے سپرد کیں۔ میاں نوازشریف کو مذاکرات اور وعدوں میں الجھا کر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ تک آزاد عدلیہ کی بحالی کو روکے رکھا۔ امریکہ کو شیشے میں اتارنے کیلئے سوات میں آپریشن کا فیصلہ کیااور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا بدلہ لینے کیلئے پاکستان آرمی کونہ ختم ہونیوالی جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا۔
آزاد عدلیہ کی بحالی کیلئے 15 مارچ 2009ء کو جس لانگ مارچ کا سڑکوں پر اہتمام کیا گیا، اس کے نتیجہ میں افتخار محمد چودھری بحال ہوئے۔ اس کا کریڈٹ کسی ایک سیاسی جماعت کو نہیں جاتا۔ وکلاء بھائیوں کی ناقابل فراموش تحریک، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی قربانیاں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزاد عدلیہ کی بحالی امریکہ کی آشیرباد اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ٹیلیفون کال کے نتیجہ میں ہوئی۔گوجرانوالہ میں لانگ مارچ اس لئے ختم کیا گیا کہ راولپنڈی میں منتظر عمران خان اور قاضی حسین احمد سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔(یہ کیسے ممکن تھا کہ امریکی پالیسیوں کے مخالف سیاسی رہنمائوں کو ہیرو بننے کا موقع دیا جاتا۔)
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کا مفہوم وہ نہیں لیاجاتا جوکتابوں میں تحریر ہے یا مہذب ملکوں میں عملی طور پر رائج ہے۔ اقتدار کسی وزیراعظم کے حصہ میں آئے یا صدر کے قبضہ میں، وہ تمام جمہوری اصولوں کو پیروں تلے روند کر اپنے ڈھب کی جمہوریت کی آبیاری میں لگ جاتا ہے۔ کابینہ کا انتخاب کسی اہلیت یا خصوصی تجربہ کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے ذاتی دوستوں کو اہم ترین وزارتوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اپنی ذات کو مقبول بنانے کیلئے قومی خزانہ کو بے دردی سے خرچ کیا جاتا ہے۔ اقرباء پروری اور سفارش کے کلچر کو فروغ دیکر میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ پلاٹوں، پرمٹوں، ملازمتوں کے کوٹوں کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دیا جاتا ہے لیکن ایک دن جب ریت کی یہ دیوار جس پرجمہوریت کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے گرتی ہے تو ملک بھر کے گلی کوچوں میں جشن منایا جاتا ہے اور پھرایک نئے نام نہاد جمہوری دور کا انتظار کیا جاتا ہے۔ بھٹو کیخلاف فوجی انقلاب کے موقع پر پورے ملک میں دیگیں پکا کر خوشی کا اہتمام کیا گیا تھا اور 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نوازشریف کو تخت سے اتارنے پر پاکستان بھر میں جشن منایاگیا تھا۔
سیاستدان تواتر سے گلاپھاڑ کر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہیں آزادی سے حکمرانی اور ’’عوام کی خدمت‘‘ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور اقتدار کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ذلیل کرکے اقتدار سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں 1988ء سے 1999ء کے ’’جمہوری‘‘ دور کی مثال دی جاتی ہے۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو اور جناب نوازشریف کو دودو مرتبہ ملک پر حکمرانی کا موقع ملا۔ اس دور کی تاریخ پرانے اخبارات، رسالوں اور کتابوں میں محفوظ ہے۔ شرم آتی ہے سیاستدانوں کے کرتوتوں کو پڑھ کر۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کو دونوں مرتبہ کرپشن، اقرباء پروری اور غیر جمہوری رویوں کی بناء پر ڈسمس کیا گیا۔ دوسری مرتبہ تو انکی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی۔ میاں صاحب نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ 1997ء کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی لیکن وہ اسے ہضم نہ کرسکے۔ پہلے دور اقتدار میں انہوں نے جیوڈیشری کو اپنے تابع بنانے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ پر حملہ کرا کر ایک سیاہ تاریخ رقم کی اور دوسرے دور میں مغل شہزادوں کا انداز اختیار کرکے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں سے وعدہ کرکے اسے ایفاء نہ کیا اور صدرمملکت کی کرسی پر رفیق تارڑ کو بٹھا دیا۔ ہر دو قائدین نے جمہوریت کے سنہری اصولوں کو رائج کرنے، عوام کے مصائب کم کرنے اور گڈ گورننس قائم کرنے پر ذرہ بھر توجہ نہدی۔ وہ 11 سالہ دور حکومتی سطح پر فضول خرچیوں، بے ہنگم غیر ملکی دوروں، حکومت کے خرچ پر عمرہ و حج کی داستاتوں اور کھلے بندوں کرپشن کی کہانیوں سے عبارت ہے۔ اسی دور میں بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ کرکے سیاست میں گند پھیلایا گیا۔ اخلاقی اقدار کو پامال کیا گیا۔ پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرا منشاء کسی پر الزام تراشی نہیں لیکن بہت بڑی دیگ میں سے چند چاول دکھائے بغیر ریکارڈ درست کرنے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
دونوں وزرائے اعظم نے اسلام آباد میں سیاسی رشوت کے طور پر کروڑوں روپے کے پلاٹس الاٹ کئے۔ موجودہ حکومت کی ایک چہیتی خاتون جسے وزیراعظم کا حفاظتی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔ اسے 28 کنال کا پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ دوسرے کئی ممبران اسمبلی کودودوبار پلاٹ الاٹ کئے گئے۔
o… الاٹ شدہ پلاٹوںکی قیمت لگائی جائے تو وہ 6 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
o… ہر دور وزرائے اعظم نے میرٹ کے اصولوں کو روندتے ہوئے اپنے چہیتے دوستوں اور پارٹی عہدیداروں کو منافع بخش عہدوں پر لگایا اور حقداروں کے ساتھ ناانصافی کی۔
o… ایک وزیراعظم نے سیاسی بنیادوں پر 90 تقرریاں کیں۔ تیرہ افراد کو گریڈ۔22، سترہ افراد کو گریڈ۔21، اکتیس افراد کو گریڈ۔20 اور بقیہ کو دیگرگریڈز دیئے گئے۔ ملازمت کے مروجہ قوانین سے انحراف کیا گیا۔
o… دونوں وزرائے اعظم کے دور حکومت میں انتہائی کلیدی عہدوں پر تقرر کیلئے پروموشن بورڈ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کوئی مشاورت نہ کی گئی۔ تمام ٹرانسفرز ممبران اسمبلی کے دبائو پر کئے جاتے رہے۔
o… ایک وزیراعظم نے دورہ امریکہ پر جاتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کواپنے وفد کا حصہ بنا کر نئی تاریخ رقم کی۔ امریکہ نے چیف جسٹس مذکور کو مہمان کا درجہ دینے سے انکار کرکے بدسلوکی کی، جسے خاموشی سے گوارا کرلیا گیا۔
o… حیدرآباد میں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔
o… جناب آصف علی زرداری کو مسٹر ٹن پرسنٹ کہا گیا۔ آئی۔پی۔پیز کا سکینڈل منظر عام پر آیا۔ سرے محل پرنٹ میڈیا کی شہہ سرخیوں میں چھپا دفاعی ساز و سامان اور فرانسیسی آبدوزوں کی خرید میں کمیشن کے چرچے ہوئے۔ سوئس بنکوں میں چالیس اکائونٹس منجمد کی جانے کی خبروں نے ایک سیاسی جماعت کے قائدین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
جمہوری حکومتوں کی کارکردگی نے پاکستان کو معاشی ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا تھا۔ اس 11سالہ دور میں فوجی قیادت سیاستدانوں کی حماقتوں اور عیاشیوں کا تماشا دیکھتی رہی۔ پھرایک آرمی چیف نے گورننس کو بہتر بنانے کیلئے سلامتی کونسل کا نظریہ پیش کیا تو اسے مستعفی ہونے پرمجبور کردیا گیا۔ آخر کار 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے جمہوری نظام کا بستر گول کردیا۔ اقتدار پر آرمی کے قبضہ کی کوئی جمہوریت پسند شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ لیکن بدقسمتی سے سیاستدان ہر مرتبہ ایسے حالات پیدا کرتے رہے کہ آرمی کو مداخلت کرنی پڑی۔ (جاری ہے)