عید مبارک (بہت زیادہ)

سب قارئین کو بکرا عید مبارک۔ اس بڑی عید پر بھی وہی ہوا جو ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قربانی کرنا چاہتے تھے، قوت خرید ندارد ہونے کی وجہ سے ان میں سے بہت سارے قربانی نہ کر سکے ، کچھ نے گائے میں حصہ ڈالا، اکا دکا لاغر قسم کے بکرے خریدنے میں کامیاب ہوئے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں نہیں، ریاکاری اور اپنی امارت ظاہر کرنے کیلئے عید کے منتظر تھے، انہوں نے خوب پلے ہوئے بکرے بھاری مالیت میں خریدے اور پھر سب کو بتایا کہ یہ ہم نے اتنے لاکھ کا لیا ہے۔ دو تین روز تو ’’نمائش‘‘ کے آخری روز ہوتے ہیں، چنانچہ جم کے نمائش کی گئی اور بے زور کمزور لوگوں کا دل جلایا، ان کے بچوں کو رلایا۔ 
کیسی مزے کی بات ہے کہ ریاکاری اور نمود و نمائش کی سب سے زیادہ مناھی اسلام نے کی ہے اور سب سے زیادہ دنیا بھر میں، ریاکاری اور نمود و نمائش اسلام ہی کو ماننے والے کرتے ہیں۔ مذہب کا تماشا دیگر اہل مذاہب کم، مسلمان زیادہ کرتے ہیں۔ کل رات ایک صاحب نے بتا کر حیران کر دیا کہ ایک بہت ہی مشہور مولانا صاحب نکاح کرانے کی فیس ایک کروڑ روپیہ لیتے ہیں، جن کے ہاں وہ نکاح پڑھاتے ہیں ، ظاہر ہے وہ بہت مالدار ہوتے ہوں گے، ایک کروڑ کی قیمت ان کے ہاں اتنی ہی ہو گی جتنے مڈل کلاس (لوئر) والوں کے ہمراہ چکن کھا کر پھینکی گئی ہڈی کی۔ اس ایک کروڑ کے عوض انہیں کیا ملتا ہے، اس بات کا چرچا کہ مولانا ’’مشہور عالم‘‘ نے ان کے ہاں نکاح پڑھایا تھا۔ یعنی وہی ریاکاری اور نمود و نمائش کا جذبہ، دولت کے بل پر یہ بتانا کہ مذہب پر بھی ہمارا ’’کنٹرول‘‘ ہے۔ سوئے اتفاق سے یہ مولانا مشہور عالم ان دنوں گردش دوراں کا شکار ہیں، عقیدت مندوں کی منڈی میں لگ بھگ 50 فیصد کا مندا ہو گیا، سنا ہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کسی نکاح والوں کا دعوت نامہ نہیں آیا، اب تک کئی کرڑو کا نقصان ہو گیا۔ 
_____
ایک بات اور بھی ہوئی۔ یہ کہ عالمی بنک نے رپورٹ جاری کی جس سے پتہ چلا کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 44 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔ برق رفتار اضافہ، 50 فیصد ہونے میں مہینے لگیں گے یا ہفتے، یہ ماہرین رفتار معیشت ہی بتا سکیں گے۔ 
یہ ورلڈ ریکارڈ ہے۔ کریڈٹ کسے جاتا ہے۔ بظاہر زیادہ کریڈٹ تو مرشد خاں اور ’’رشکِ کمر‘‘ والے قمر باجوے کو جاتا ہے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ کچھ حصہ اس کریڈٹ کا موجودہ حکومت کو بھی دیا جانا چاہیے۔ موجودہ دور حکومت میں ملکی معیشت کی حالت تو قدرے بہتر ہوئی لیکن عوامی معیشت کا کچومر بھی خوب نکلا۔ ملکی معیشت کی بہتری کے چساب سے یہ کچومر کچھ زیادہ ہی غیر متناسب رہا۔ معلوم ہوا ہے کہ انٹیلی جنس والوں نے یہ خفیہ اطلاع حکومت کو دی کہ کچومر نکلے عوام کی جیب میں اب بھی کچھ پیسے ہیں چنانچہ یہ ’’فالتو دولت‘‘ نکلوانے کیلئے حکومت نے تیزی سے کچھ پالیسیاں بنائی ہیں مثلاً 200 یونٹ سے زیادہ بجلی خرچ کرنے والوں کو چھ ماہ تک ’’ڈنڈ‘‘ بھرنا پڑے گا، ایک ہی مکان میں رہائش پذیر دو گھرانوں نے اگر دو میٹر لگوائے ہیں تو ان کا مالیاتی حشر وہ ہو گا جو پولیس کے ہاتھوں کسی اشتہاری کا بند روڈ پر یا کچا راوی روڈ پر یا کالا شا کاکو کے مضافات میں ’’مقابلے‘‘ میں ہوتا ہے۔ اگلی عید پر خط غربت کا کیا عالم ہو گا، اب کیا بتایا جائے، بچ رہے تو دیکھ ہی لیں گے۔ 
_____
پاکستان میں ہر حکمران نے غربت بڑھائی لیکن دو ادوار میں غربت کم ہوئی۔ ایک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ ان کی معاشی پالیسیاں تو ناکام تھیں بلکہ نقصان ہی ہوا لیکن ان کے دور میں کئی لاکھ پاکستانی گھرانوں کی قسمت یوں بدلی کہ ان کے بچے خلیجی ملکوں میں، اچھے مشاہروں پر، مڈل ایسٹ چلے گئے۔ یوں غربت کم ہونے میں مدد ملی۔ 
دوسرا دور نواز شریف کا تھا جس میں غربت کی شرح حیران کن حد تک کم ہوئی اور کچھ خوش فہم عناصر نے یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ اتنے عرصے کے بعد پاکستان سے غربت ختم ہو جائے گی۔ یہ خوش فہم بھول گئے کہ اشرافیہ کے پاسبان غلام اسحاق خاں جیسے اور رشک کمر والے باجوہ جیسے اس ملک میں کم نہیں ہیں چنانچہ نواز شریف کا تیسرا دور جنرل پاشا، راحیل شریف اور ظہیر السلام نے سبوتاڑ کر ڈالا، آخری کیل رشک کمر نے ٹھونک دی اور ’’تباہی خان‘‘ کو لے آئے اور یوں 44 فیصد خط غربت والا ہدف حاصل کرنے کا معرکہ مارا گیا۔ 
____
بجلی کا ذکر چھڑا ہے تو جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا بیان نظر سے گزرا۔ فرماتے ہیں کہ آئی پی پیز کو ٹیکس سے چھوٹ دی جا رہی ہے۔ 
اگر دی جا رہی ہے تو اس میں قومی خزانے کا کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ یہ چھوٹ، جیسا کہ اوپر بتایا، لوئر مڈل کلاس کے دولت مندوں سے وصول کی جائے گی۔ مطلب قومی مفاد محفوظ کا محفوظ ہی رہے گا، پھر کاہے کا غم۔ البتہ ایک چھوٹی سی گڑ بڑ ضرور ہوئی یا ہو گی۔ یہ کہ اطلاعات کے مطابق حکومت آئی پی پیز کو 2 ہزار ارب روپے کی ’’عیدی‘‘ دے رہی ہے لیکن لوئر مڈل کلاس کے ’’دولت مندوں‘‘ سے جو رقم وصول کی جائے گی، وہ دو ہزار ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اضافی ’’آمدنی‘‘ کسے دی جائے گی؟۔ شاید مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں کچھ کمی رہ گئی ہو گی، وہ پوری کی جائے گی۔ 
بہرحال ، سب کو عید مبارک، بالخصوص لوئر مڈل کلاس کے ’’دولت مندوں‘‘ کو بہت زیادہ عید مبارک۔

ای پیپر دی نیشن