قربانی ایک فرض اور جذبہ قربانی معاشرے کا امتحان اور انسانیت کی معراج ہوتی ہے یہ قربانی ہمیں اپنے دین کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے یادکرتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے لیے قربانی دینی ہے ریاست کے لیے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے جوان اور دھرتی کے لیے قربانی دینے والے بچوں کے ماں باپ کتنے عظیم ہوتے ہیں دوسروں کے لیے اپنے حق چھوڑ دینا اللہ کا یہ فرمانا تم میرے لیے لوگوں کو معاف کرو اس کا اجر مجھ سے لینا، اے مسلمانو اپنوں کے لیے دھرتی کے لیے امت مسلمہ کے لیے انسانیت کے لیے دیکھو ہم کدھر کھڑے ہیں
قربانی کب واجب ہوئی۔؟
9 ذی الحجہ سن 2 ہجری کو رسول اللہؐ غزوۃ السویق سے واپس تشریف لائے،اور اگلے دن 10 ذی الحج کو دو رکعت نماز عید ادا فرمائی اور دو مینڈھے قربان کئے،اور مسلمانوں کو قربانی کا حکم دیا،مسلمانوں کی یہ پہلی عید تھی،اور حج کی فرضیت سن 9 ہجری میں نازل ہوئی، اس سال آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا، اور سن 10 ہجری میں آپؐ نے خود حج ادا فرمایا۔(سیرت المصطفیٰ، 2/178)
قربانی کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن قرطؓ کہتے ہی کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنوں میں بہت بڑا دن از روئے فضیلت قربانی کا دن (یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ) ہے اور پھر قربانی کا دن ۔ حدیث کے راوی حضرت ثورؓ کہتے ہیں کہ یہ (قر کا دن ) دوسرا دن (یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ ہے) حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ (جب قربانی کے دن) آنحضرت ؐ کے قریب وہ اونٹ لائے گئے جو پانچ یا چھ کی تعداد میں تھے تو اونٹوں نے (ایک دوسرے پر سبقت کر کے) آپؐ کے نزدیک آنا شروع کیا تا کہ جسے چاہیں پہلے اسی کو ذبح کریں
راوی کہتے ہیں کہ جب یہ جانور پہلو پر گر گئے (یعنی وہ ذبح کر دئیے گئے) تو آنحضرتؐ نے آہستہ سے کچھ فرمایا جسے میں نہ سمجھ سکا، چنانچہ میں نے (اس شخص سے جو میرے پاس تھا) پوچھا کہ آپؐنے کیا فرمایا ہے ؟ اس نے کہا کہ آپؐ نے یہ فرمایا کہ جو شخص (ہدی کے) ان جانوروں میں سے (گوشت) کاٹ کرلے جائے۔ (ابوداؤد)
تشریح
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ ’’ دنوں میں بہت بڑا دن قربانی کا دن ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ قربانی کا دن ان دنوں میں ایک دن ہے جو افضل اور بزرگ ترین دن ہیں۔ یہ مراد اس لیے لی گئی ہے کہ دوسری احادیث میں (ذی الحجہ کے) عشرہ کو تمام دنوں کے مقابلہ میں افضل کہا گیا ہے لہٰذا اس اعتبار سے کہ عشرہ ذی الحجہ افضل ہے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ (جو قربانی کا دن ہے) بھی افضل ہے کیونکہ یہ دن بھی عشرہ ذی الحجہ میں شامل ہے ۔
اب رہی یہ بات کہ جس طرح احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام دنوں میں افضل ترین عشرہ ذی الحجہ ہے اسی طرح یہ بات بھی احادیث ہی سے ثابت ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ افضل ترین ہے تو اس تضاد کو یوں رفع کیا جائے کہ ان احادیث کو کہ جن سے عشرہ ذی الحجہ کا افضل ہونا ثابت ہوتا ہے اشہر حرم کے ساتھ مقید کیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ اشہر حرم کے دنوں میں افضل ترین عشرہ ذی الحجہ ہے لہٰذا حاصل یہ نکلے گا کہ عشرہ ذی الحجہ حرام مہینوں سے افضل ہے اور عشرہ رمضان مطلق طور پر تمام دنوں میں افضل ہے۔
مذکورہ بالا تضاد کو دور کرنے کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فضیلت بااعتبار حیثیت کے مختلف ہے یعنی چونکہ رمضان میں روزے رکھے جاتے ہیں، اس ماہ مقدس میں عبادت کا ثواب بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے آخر عشرہ میں اعتکاف ہوتا ہے اس اعتبار سے تو رمضان کا آخری عشرہ افضل ہے اور چونکہ ذی الحجہ میں حج کے افعال ادا ہوتے ہیں اور قربانی کی جاتی ہے اس اعتبار سے یہ افضل ہے۔
’’ قر کا دن‘‘ سے بقر عید کے بعد کا دن یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ مراد ہے، اس دن کو قر کا دن اس لیے کہتے ہیں کہ ادائے مناسک کی محنت و مشقت برداشت کرنے کے بعد منیٰ میں اسی دن حاجیوں کو سکون وقرار ملتا ہے۔
اس موقع پر بھی یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ حدیث صحیح میں تو عرفہ کے دن کو افضل کہا گیا ہے ؟ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ قر کا دن ان دنوں میں سے ایک دن ہے جو افضل ہیں ۔
’’ اونٹوں نے آپؐ کے نزدیک آنا شروع کیا الخ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ؐنے جب ان اونٹوں کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا اور وہ اونٹ آپؐ کے پاس لائے گئے تو ہر اونٹ آنحضرتؐکے دست مبارک کی برکت حاصل کرنے کے لیے اس بات کا منتظر تھا کہ پہلے مجھے ذبح کریں، اس مقصد کے لیے اونٹ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یہ دراصل آپؐ کا معجزہ تھا کہ جانوروں میں بھی حصول برکت وسعادت کا وہ جذبہ لطیف پیدا ہوگیا جو انسانوں ہی کا خاصہ ہوسکتا ہے۔