دنیا بھر سے آئے ہوئے 17 لاکھ کے قریب فرزندانِ توحید نے جمعرات 5 جون کو مناسک حج کے رکن اعظم وقوف عرفات کی ادائیگی اور جانوروں کی قربانی کا فریضہ ادا کیا۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی عازمین حج بھی شامل ہیں۔ امسال ایک لاکھ 79 ہزار 210 پاکستانی عازمین حج کا کوٹہ مقرر ہوا تھا تاہم پرائیویٹ ٹؤر اپریٹرز کی غفلت و نااہلیت کے باعث پاکستان کے ہزاروں عازمین حج اس بار حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے جبکہ بھارت سے ایک لاکھ 75ہزار، بنگلہ دیش سے ایک لاکھ 27 ہزار اور نائیجیریا سے 95 ہزار عازمین حج نے حج کی سعادت حاصل۔ حج کی سعادت حاصل کرنے والوں میں دو لاکھ کے قریب مقامی سعودی باشندے بھی شامل ہیں۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر میدان عرفات میں روح پرور مناظر دیکھنے میں آئے اور اللہ اکبر کی صدائیں مسلسل گونجتی اور فضا کو معطر بناتی رہیں۔ سخت گرمی کے باوجود فرزندانِ توحید کے جذبۂ عقیدت و عبادت میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ وہ ارکانِ حج کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف رہے۔ میدان عرفات میں لاکھوں فرزندان توحید کے علاوہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے براہِ راست نشریات کے ذریعے خطبہ حج سنا۔ امام کعبہ شیخ صالح بن حمید نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے اس امر کو اجاگر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو لوگوں کے لیے پسند کیا ہے، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اے لوگو! مصیبتوں اور فساد سے دور رہو، اسلام کی تعلیم ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچائو اور نہ ہی خود نقصان اٹھائو۔خطبہ حج میں کہا گیا کہ کوئی کسی کو اذیت نہ پہنچائے، کسی کو اذیت پہنچانا گناہ کبیرہ ہے ، مومنوں کو تکلیف دینے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ امام کعبہ نے خطبہ حج میں مظلوم فلسطینیوں پر گذشتہ اڑھائی سال سے توڑے جانے والے اسرائیلی مظالم کا بطور خاص تذکرہ کیا اور ربّ کائینات سے دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما۔ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کر دے، ان کے قدم اکھاڑ دے، ان میں تفریق ڈال دے۔ اے اللہ فلسطینیوں کے شہدا کو معاف فرما دے اور فلسطین میں ہمارے بھائیوں کا خیال رکھ۔ فلسطینی بھائیوں کی بھوک، مصائب اور تکالیف کا خاتمہ فرما دے۔ اے اللہ فلسطین کے بے گھروں کو آسرا دے، انہیں امن عطا فرما اور انہیں دشمنوں کے شر سے نجات دے۔اے اللہ مسلمان حکمرانوں کو بھائی چارے کی توفیق دے اور انہیں ہدایت اور تقویٰ عطا فرما۔ امام کعبہ نے اپنے خطبہ حج میں مسلم امہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیئے آخرت میں اچھا انجام ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو۔ اللہ فخر اور تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ شیخ صالح بن حمید نے اپنے خطبہ حج میں باور کرایا کہ اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ وہ تمہارے اندر دشمنی ڈالنا چاہتاہے۔ اس سے بچو۔ امام کعبہ نے امتِ مسلمہ کو بدّت اور غیبت سیدور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سے دعا مانگتے رہو اور اس کی عبادت کرتے رہو۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے جس نے قرآن نازل کیا، رحمت بناکر اور لوگوں کے حالات اچھے کیے، قرآن وہ کتاب ہے جس کی آیات حکمت سے بھری ہیں ،اللہ کی طرف سے، یہ قرآن لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ متقی لوگوں کو فلاح کے ساتھ نجات دیتا ہے، قیامت کے دن انھیں دکھ نہ پہنچے گا، جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا۔ اسے وہاں سے رزق ملے گا جہاں اسے گمان بھی نہیں ہوگا، جو متقی ہوگا اللہ اس کے گناہ معاف کرکے اس کا اجر بڑھا دے گا۔انھوں نے کہا کہ عبادت صرف اللہ کی اور حکم صرف اللہ کا اور یہی دین ہے، اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے والوں کو پیدا کیا، یہی توحید کی گواہی ہے۔ بے شک اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہی دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں گے، رسولﷺ کی اتباع کرنے والوں نے ہی فلاح پائی۔
کورونا کی افتاد سے پہلے حج کے موقع پر ہر سال 25 سے 30 لاکھ فرزندانِ توحید میدان عرفات میں جمع ہو کر امتِ واحدہ کے مضبوط و متحد ہونے کا ٹھوس اور عملی پیغام اقوام عالم بالخصوص طاغوتی اور الحادی قوتوں کو پہنچاتے اور امتِ واحدہ کے جوش ایمانی سے حرمین شریفین کی مقدس دھرتی کو منور و معطر رکھتے تاہم کورونا وائرس کے باعث دو سال تک امتِ مسلمہ ذاتِ باری تعالیٰ کی کڑی آزمائش میں رہی اور فریضۂ حج کی ادائیگی بھی موقوف ہوئی۔ اب خدا تعالیٰ کے خاص انعام کے تحت فریضۂ حج کی ادائیگی سے متعلق سرگرمیاں گذشتہ تین سال سے بحال ہو چکی ہیں اور اتحاد امت کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ والا تصور بھی عملی قالب میں ڈھلتا نظر آرہاہے جس کے ساتھ ہی فریضۂ حج سے منسلک جانوروں کی قربانی کا فریضہ بھی دوبارہ مذہبی جوش و عقیدت کے ساتھ ادا کیا جارہا ہے۔ عرب ممالک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں جمعتہ المبارک کے روز عیدالاضحی کی خوشیاں مذہبی جوش و خروش سے منائی گئیں جبکہ آج بروز ہفتہ پاکستان سمیت متعدد دوسرے ممالک میں مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ عیدالاضحی منائی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں آج کھلے مقامات پر نماز عید کے اجتماعات ہوں گے جس کے بعد جانور قربان کیے جائیں گے۔ حد درجے کو پہنچی مہنگائی کے باعث اس بار اسلامیانِ پاکستان کو جانور قربان کرنے کے معاملہ میں خاصی دقتیں پیش آئی ہیں اور بیشتر لوگ استطاعت نہ ہونے کے باعث قربانی کا فریضہ ادا کرنے سے محروم رہے ہیں چنانچہ ہمارے آج کے اقتصادی اور معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ صاحب ثروت لوگ اپنے غریب و نادار بھائیوں کی معاونت کے لیے فراخدلی کے ساتھ آگے بڑھیں اور اقتصادی جکڑ بندیوں کے باعث ان میں کسی قسم کی محرومیوں کا احساس اجاگر نہ ہونے دیں۔ ناجائز منافع خوروں کو اس مقدس تہوار کے موقع پر خدا خوفی سے کام لینا اور اپنی عاقبت سنوارنا چاہیے۔ وہ اپنی حرص و ہوس کے باعث مصنوعی مہنگائی کے ذریعے بے وسیلہ لوگوں کے ارمانوں کا خون تو کرتے ہی ہیں اپنے گھر بھی ناجائز منافع خوری کی صورت میں جہنم کی آگ سے بھرتے ہیں۔ بے شک ذاتِ باری تعالیٰ تک قربانی کا گوشت نہیں آپ کا تقویٰ پہنچتا ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ آپ کسی بھی مذہبی تہوار اور خوشی کے موقع پر خلق خدا کے چہروں پر ٹپکنے والی مایوسی کا مداوا کریں اور انھیں بھی اپنی خوشیوں میں برابر کا شریک کریں۔ اس حوالے سے رنج و غم میں ڈوبے اور بے گور و کفن لاشے بنے فلسطینی بھائیوں کی کفالت کرنا اور انہیں اسرائیلی جبر و تسلط سے نجات دلانا ملتِ اسلامیہ کا اولین فریضہ ہے۔خطبۂ حج میں بھی احکام خداوندی کی روشنی میں یہی درس دیا گیا ہے کہ خیر کے کام میں لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور آپس میں جڑے رہیں کیونکہ اسلام بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتا ہے۔
خداوند کریم کی جانب سے اپنی مخلوق کے لیے آزمائش بھی یقیناً حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ نجات کا راستہ صرف اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے میں ہی ہے۔ بے شک اللہ کی رسی دراز ہے جسے سرکش انسانوں کو سبق سکھانے کے لیے کھینچنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگتی۔ قدرتی آفات، وباؤں، زلزلوں، سیلابوں اور مختلف عوارض کی شکل میں اللہ کی آزمائش بھی نخوت و تکبر میں ڈوبے سرکش انسانوں سے اللہ کی رسی مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ہی متقاضی ہوتی ہے تاکہ وہ راہ ہدایت اختیار کریں اور خداوند کریم کے خدائی وصف کو خود اختیار نہ کربیٹھیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے فریضۂ حج کی خشوع و خضوح کے ساتھ ادائیگی کی صورت میں اپنی فضیلتوں اور رحمتوں کے دروازے امتِ واحدہ کے لیے دوبارہ کھول دیے ہیں تو اس کا شکر خلقِ خدا کی محرومیوں کا ازالہ کرکے ادا کیا جائے۔ آج امتِ واحدہ اپنے اندرونی انتشار اور کمزوریوں کے باعث جس ابتلاء کا شکار ہے، وہ ہم سے مثالی اتحادِ امت کی ہی متقاضی ہے۔
اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان جس حال میں جی رہے ہیں یہ پوری مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک نے غزہ میں دہشت گرد ریاست اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف زیادہ بہتر انداز میں آواز بلند کی ہے اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے صرف کھوکھلے بیانات ہی سامنے آئے ہیں۔ خطبۂ حج کے دوران بھی اور اس کے بعد کرائی گئی دعا میں بھی امامِ کعبہ شیخ صالح بن حمید نے فلسطین کا جو خصوصی ذکر کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ذکر کو صرف تقریروں اور دعائوں تک محدود رکھا جائے بلکہ اس کے ذریعے مسلم حکمرانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کریں اور دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں ان کی عملی طور پر مدد کریں۔ ایسے اقدامات ہی سے پیغمبروں کی حق پرستی کی سنت زندہ ہوگی اور ظالموں کو یہ پیغام ملے گا کہ ظلم کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ خدا کے حضور یہی دعا ہے کہ آج عیدالاضحی کا دن امن وسلامتی کے ساتھ گذرے اور ہمارے مکار دشمن بھارت کو پاکستان پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے اور اپنی پراکسیز کے ذریعے ہماری سرزمین پر دہشت گردی کو مزید پھیلانے کی جرأت نہ ہو۔