
فکرت …ڈاکٹر اختر حسین سندھو
akhtar.sandhu@gmail.com
جامعات قومی معاملات چلانے ، نئی ایجادات ، نئے فکری زاویے، قوانین اور انتظامی مہارتیںعطا کرنے والے اذہان پیدا کرتی ہیں۔ انجینئرنگ ، میڈیکل ، آئی ٹی ، فلسفہ، قانون، سماجیات ، علاقائی ثقافتیں اور سیاسی نظام کے شعبوںمیںتحقیق کے ذریعے جدید نظریات اور ایجادات کی روشنی میں سماجی مسائل کے نئے یا متبادل حل پیش کرنا یونیورسٹیوںکا کا م ہے ۔ بظاہر ہماری جامعات ان تما م شعبوں میںانقلابی نتائج دینے میںناکام رہی ہیں مگر در حقیقت کئی جامعات کو دیکھیںتو امید کی کرن نظر آتی ہے۔ پاکستان میںآئینی ، سیاسی اور عدلیہ بحران خطرناک حد تک اداروںکی ساکھ کو تباہ کر چکا ہے۔یونیورسٹیوںکے متعلقہ شعبوں کا کا م تھا کہ کانفرنسز اور سیمینار کر کے غیر معتصب دلائل کے ذریعے نہ صرف مو جودہ بحران کو حل کرنے کی تجاویز دیتے بلکہ نوجوان ذہنوں کی تربیت بھی کرتے ۔ پاک فوج کے خلاف چند لوگوںکی نفرت نے معاشرے کو متاثر کیا ہے کاش کہ کالجزمیںاین سی سی کو بحال کیا جاتا تاکہ نوجوانوں کے ساتھ اس ادارے کا رابطہ منقطع نہ ہوتا۔ یہ تمام منصوبے دینایونیورسٹی سکالرز کا کام تھا مگر اس پر کوئی بات تک کرنے کو تیار نہیں۔ صد افسوس کہ اب جامعات میں شعبہ سیاسیات اور تاریخ میں سیاسی گفتگو کر نا بھیانک خواب بن چکا ہے ۔ مغربی ممالک کی جامعات میں باقاعدہ سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیںجو ہجوم (Mob Studies) پر بہت زیادہ تحقیق کر چکے ہیں۔ مگر ہمارے یہاںتعلیم ، تربیت اور تحقیق زوال کا شکا ر ہے۔ یو نیورسٹی تحقیق پوری دنیا کو متبادل نظریات اور ماڈل عطاکرتی ہیںمگر ہماری جامعات ابھی تک مقامی رویوں اور قوانین کو پوری طرح نہ سمجھ سکی ہیںاور نہ ہی ان کو سامنے لا سکی ہیں۔تربیتی ورکشاپوں میںآج بھی بڑے بڑے سکالر امریکہ، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک کی مثالیںاور وڈیو کلپس چلا کر لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے سماج سے متعلق کوئی ماڈل نہیں ہوتا۔ اس بد دلی کے باوجود جامعات کی عمارتوں کے علاوہ ان کے کچھ فارغ التحصیل طلبا وطالبا ت ایسے ضرور ملتے ہیںجن پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔ طلبا و طا لبا ت کا اصل مقصد آسانی سے پیسے کما نا ہے جبکہ ہمارے ملک کو ایسے طلبا و طالبات کی ضرورت ہے جوقوم کو ایجادات دے سکیںجو نئے نظریات اور نظام میں مثبت اور قابل عمل تبدیلیاںمتعارف کرنے والے بہترین کردار پیدا کر سکیں۔ مقامی صنعتوںاور ادویات کے فروغ میںحصہ ڈال سکیںجو ایماندار افسر،جج ، وکیل، ٹھیکیدار اور صحافی کا کردار ادا کر سکیں۔پاکستان کو ایسے دیانتدار اور قابل نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ جامعات کی لیڈرشپ کا فکری مرتبہ اپنے اساتذہ اور طلبا و طالبات کو باکردار اور باصلاحیت مقام تک جانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ایسی فکر ی قیادت تب ہی ممکن ہے اگر اساتذہ کا میرٹ پر تقرر کیا جائے ۔ جامعات کے بارے میں آئے دن خبریں سنتے رہتے ہیںکہیں کہیں اچھی خبریں آتی ہیں تو خوبصورت ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔ خواجہ فرید یو نیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یا رخان ایسی جامعات میں سے ایک ہے جس کی قیادت نے پسماند ہ علاقے کے لوگوںکے لئے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے طلبا وطالبات کی مالی مدد سکالرشپس کے ذریعے کی اور ساتھ ساتھ نئے پروگرامز متعارف کر ا کے علاقے کے نوجوانوںکے لیے مہارتوں کا انتظام بھی کیا تاکہ ضرورت مند روزگار کا فوری بندو بست کرنے کے قابل ہو سکیں۔ جامعات کا اصل کام تحقیق ہوتا ہے تاکہ معاشرے کو درپیش مقامی ، قومی، اور بین الاقوامی سطح کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علوم کی تخلیق کی جا سکے۔ ڈاکٹر سلیمان طاہر کی قیادت میںخواجہ فرید یونیورسٹی کے اساتذہ اور تحقیق کاروں نے تحقیق کے میدان میںاہم کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ خوبصور ت عمارتوںکی تعمیر اور ان کو یونیورسٹی کی بنائی ہو ئی مہارتوں سے سجایااور سنوارا۔ کلاس رومزاور ہوسٹل کو بین الاقوامی معیار کی طرز پر مزین کیا۔ سیلاب کی تباہ کاریوںنے جنوبی پنجاب میںکافی نقصان کیا تو خواجہ فرید یونیورسٹی کے طلبا و طالبات اور اساتذہ نے ڈاکٹر سلیمان طاہر کی قیادت میں سیلاب متاثرین کی بہت مدد کی۔ ڈاکٹر محمد نسیم ، وائس چانسلرUVAS اور ایچی سن کا لج اور باقی تعلیمی اداروں کی طرح خواجہ فرید یونیورسٹی کا کردار قابل تحسین رہا۔ کھیلوںکے میدان اور دوسری ہم نصابی سرگرمیوںمیں بھی خواجہ فرید یونیورسٹی کا نمایاںحصہ ہے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی نے پوری طرح سروے کرایاکہ سی پیک میں کس طرح کے روزگار کے مواقع موجود ہیںیا میسر آئیں گے ۔ معیشت ایک سوال تھا اور ہے ڈاکٹر سلیمان طاہر نے اس کے جواب کو تلاش کیا اور نوجوانوں کو ان مہارتوں کی طر ف راغب کیا جو سی پیک میں کا م آسکیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کی موجودگی جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے نعمت سے کم نہیں۔پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر کی جوان اور بہترین قیادت کے طفیل رحیم یار خان اور جنوبی پنجاب کے عوام اور آنے والی نسلیںفائدہ اٹھائیں گے۔ رحیم یار خان کے صحافی، تاجران اور ضلعی انتظامیہ کا بھر پور تعاون بھی وائس چانسلرکی انتطامی صلاحیت کا عکاس ہے۔ خدا کرے جنوبی پنجاب کے عوام علم اور خوشحالی کی نعمتوں سے مالامال ہوں تاکہ وہ ملکی اور پنجاب کی خوشحالی میںاہم کردارادا کرسکیں۔