
ڈاکٹر طاہر بھلر
آج میرے ذہن میں یہ خیال اس وقت آیا جب میں نے پی ٹی آئی کی ملیکہ بخاری کی کانفرنس میں اڈیالا جیل کی سختی کا ان سے ذکر سنا، تو کیوں نہ میں اپنے شہر کے مشہور سیاسی کارکن و رہنما سلیمان کھوکر صاحب سے جیل میں صعوبتوں کے بارے میں استفسار کروں کہ آیا جیل میں چکی نما کمروں کی صعوبتیں زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں یا ذہنی بے چارگی یا دہنی کرب و شکست یا کسی بھی سیاسی یا سوشل ورکر کا خالی خولی دعویدار ہونا یا جسمانی طور پر غیر متوقع درشتگی کا سامنا نہ کر سکنا ۔ اس پر میرے کالم نگار بھائی اور سیاست کے کارزار میں جیل میں مارشلا کی صعوبتیں برداشت کرنے والے میرے شہر گوجرانوالا کے ایڈوکیٹ جناب سلیمان کھوکر صاحب یا ممتاز کامنسٹ عتیق راجہ سے سے دریافت کروں کہ کیا پاکستان جس میں ستر سال سے جنگل کا قانون ہے اور ہر محکمے یا ادارے میں کسی بے سفارشی کے لئے آخر میں کوئی نہ کوئی فرعون اس کی امیدوں کا دامن تار تار کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے شائداسی لئے فرعونوں کی اشکال میں عوام سے بے حس جاگیر دار، نواب ، وڈیرے ہر ادارے میں گھس بیٹھیے ہیں تو یہ لازم نظر آتا ہے کہ جیل میں اس جنگل کے قانون میں کچھ زیادہ ہی فرعونئیت اور درشتگی ہو گی۔ ویسے میرے جاننے والے ایک جیل کے ملازم کے بقول توجیل میں صرف پیسے کا قانون ہے جوجیل کی باہر کی دنیا سے کئی گنا زیادہ جیل کے اندر پیسابولتا ہے بالکل اسی طرح جب جیل سے باہر کی دنیا میں انسانی بہبود کے نام پر چلنے والے انسانی ضرورت کو کیش کرتے ہوئے ،ویزہ لگانے والے میڈیکل سنٹرز میں بھی پیسے عام میڈکل سنٹروں سے زیاد ہ وصول کئے جاتے ہیں او ر چلچلاتی ہوی گرمی میں سائلین کے لئے سایہ کا کوئی بندوبست ارادتا نہیں کرنا کے خلق خدا ضرورور خوار ہو ۔ ایسے ہی ایک انسانی خدمت کے دعوے دار جو ڈی سی روڈ گوجرانوالا پر،، سٹی کیر ڈیاگناسٹک سنٹر،، جو کہ سیالکوٹ کے علی قریشی خاندان چلا رہا ہے یا یہ کہیں ان کی ملکئیت ہے، اور روز بروز ان کے سنٹروں میں اضافہ ہو رہا ہے کہ شائد انہیں چیک کرنے والے انہی کے ساتھ ملے ہوے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر علی قریشی صاحب سے ان سے ان کے پرانے گسے پٹے ٹیسٹ کرنے والی مشینوں کے بارے میں بہتری کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے ایک نہ سنی اور ہمیں بتایا گیا کہ وہ ہمارے جیسے انسانی ہمدردی رکھنے والوں ڈیمانڈ کرنے والوں کا بدل ڈھونڈھ رہے ہیںنہ صرف ہمیں فارغ کر دیا گیا۔بلکہ بڑی ڈھٹائی سے بتایا گیا کے کوئی ہیلتھ کیئر کمیشن یا عدالت یا سعودیہ ، کوئیت کی ایمبیسی ان کی، ان کے وکالاء کی ٹیم کی ، ان کے سیاسی روابط کی پہنچ سے ہر گز باہر نہیں ہے۔ جناب علی قریشی کے بیس سے قریب میڈیکل سنٹرز ہیں کیا کوئی اور شخص ااس نان میڈکل شخص سے سے زیادہ اچھے کوالٹی بمعنی معیاری شوکت خانم کے میڈیکل ٹیسٹ نہیں کر سکتا یقینا کر سکتا ہے ۔ ظاہر ہے ان کے ہاتھ لمبے ہیںاسی طرح ویلفیئر کے نام پر چلنے والے ہسپتال بھی سرمایہ بنانے میں مصروف ہیں۔ نام کے فلاحی یہ ادارے عام آدمی کا خون ٓو چوس ہی رہے ہیں بلکہ جیل جیسے ماحول کی طرح عوامناس کی امیدوں کا خون کرتے ہوئے ان کو دہنی شکستوریخت کا شکار کر رہے ہیں۔ستر سال بعد بھی آج عام آدمی تھانہ کچہری، ہسپتال ، کمرشل میڈیکل ویزاسنٹروں اورجیل کے ماحول میں کوئی خاص فرق نہیں محسوس کر رہا۔ ایسے نا گفتہ بہ حالات کے ہوتے ہوئے مجھے لگا کہ جیسے پی ٹی آئی کے لوگ کسی آزمائش یا اچانک کریک ڈائون کے لئے تیار ہی نہ تھے یا قانون کا شکنجہ کچھ ہم جیسوں پر زیادہ فٹ آتا ہے، یا ہم اس قسم کی سختی کو صرف اس وقت برداشت کریں گے جب ہم میں مشنری جذبہ نہ ہو گا۔افراد یا قوموں کو کچھ کھوئے بغیر کبھی کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے سامنے جنگ احد میں اپنے نبی کا خود اپنے ہاتھوں سے دشمن سے لڑنا یا منڈیلا کا کئی سالوں تک جیل میں پتھر کوٹنے کی مشقت کرنا کا ننننننقشے تو ہے لیکن ہم اخلاقی طور پر اتنے بہادر نہیں رہے کہ کسی بظاہر طاقتور کو اخلاقی طور پر درست ہو کر بھی اپنے حالات یا ضروریات کو زیادہ مد نظر رکھتے ہوے سمجھوتہ کرنے میں فخر اور چالاکی گردانتے ہوئے یہ نہیں سہچتے کہ اتنی سی محدود زندگی میں اگر ہم ہر سچ کی بجائے جھوٹ کو درست مانتے رہے تو ہم میں اور غلام کی سوچ میں کوئی فرق نہیں۔بے شک فوج کا حالیہ کریک ڈائون عمران اور اس کے سیاسی کارکنوں کے لئے اچانک اور غیر معمولی طور پر درشت ہے جس سے عمران خان عہدہ براہ نہیں ہو سکا اور تا وقتہکہ اس کے کارکن مردانہ وار اس اچانک ملیٹری کریک ڈائون کا سامنا نہ کر سکے ۔ عمران خان بھی اپنی عوامی مقبولئیت کے زعم میں ذولفقار علی بھٹو کی طرح یہ بھول گیا کہ طاقت اندھی ہوتی ہے ۔ طاقت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے یہ نہیں دیکھتی کہ کیا کیسے ہو گا۔ یہی طاقت چنگیز خان نے استعمال کی ، یہی طاقت ہٹلر مسولینی نے بیرون ملک فتوحات میں استعمال کی ، یہی طاقت جولئیس سیزر ، نپولین کام میں لائے۔ یہی طاقت کا فلسفہ لینن سٹالن ، مائو اندرون ملک بے رحمانہ نئے نظام کی پیدائش اور پرانے نظام کی تباہی میں استعمال کرتے رہے ۔ یہی اخلاقی اور بعد ازاں مادی قوت مسلمان حضور کے دور اور بعد کے سات سو سال استعمال میں لائے۔امریکا اور یورپ بھی آج کے زمانے میں اسی طاقت کا استعمال فلسطین، کشمیر ، بشمول پاکستان تمام مشرق وسطی کے ممالک میں ، افریقا اور ایشیا میں کسی انسانی حقوق کو سامنے رکھے بغیر استعمال کی اور کر رہے ہیں اور کریں گے ۔ اسی طاقت کا آج عمران خان کو بھی سامنا ہے کہ اس کی سوچ بھی اپنی ذات سے آگے نہ بڑھ سکی ، خود غرضی کا شکار ہوگئی اور اپنے آپ کو ایمان داری کا سرٹیفیکیٹ اپنے تئیں دیتے ہوئے اپنے اردگرد جہاگیر ترین ، واڈے ، نو دولتیے ، اور ایلیکٹیبلز ہی اکٹھے کرتا رہا جو آج اس کے خلاف کسی اور گروپ میں اس کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں اور فوج کے اشاروں پر سر دھن رہے ہیںیہی فوجی طاقت عمران خان کو قومی اسمبلی میںایک سیٹ سے اٹھاکر اس کو وزیراعظم تک بنانے تک استعمال ہوئی لیکن اس طاقت نے اس کے اپنی طاقت کا بیس ،بنیاد جسے پنجاب کہتے ہیں اس کو سیاسی اور فوجی طور پر عمران خان کوتقسیم کرنے کی اجازت نہ دے کر اپنی قوت کے مرکز پنجاب جہاں سے فوج کی اکثرئت ہے کو اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر ہر حالت میں عمران خان کو زمیں بوس کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے فوج کی سیاست میں مداخلت سے فوج کی اخلاقی قوت کو دھچکا لگ چکا ہے لیکن شائد فوج پنجاب میں آخر تک کوششش کریگی کہ اس کا عوامی گراف بھی نیچے نہ جائے اور اس کا اپنا بنایا ہوا عمران کا بت پاش پاش بھی ہو جائے۔طاقت کے مرکز کے کمزور ہونے سے مقروض پاکستان بلاشک کمزور ہو گا لیکن سیاسی طور پر سندھ کپھے ، بلوچ آزادی تحریک اور فاٹا میں شورش کے بعد پنجاب میں ایسٹبلشمنٹ عوامی بیس کو کمزور نہیں ہونے دے گی۔ عمران خان کا تمام مخالفوں کو ڈاکو اور چور کہنا، جیلوں میں ڈالنا، اور اپنے اور اپنے علاوہ دوسری سیاسی قوتوں کو کرپٹ قرار دینا ،عمران کے ایفٹبلشمنٹ کی مدد سے دھرنے میں گوگو نواز گو کے روزانہ کے نعرے لوگوں کو یاد ہیں اور آج وہ ہی سیاسی گروپس اس عمران خان کے سامنے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور عمران کے بیانیے کو شکست ہوتی نظر آرہی ہے۔ کاش عمران خان ایک مدبر کی طرح تمام قوتوں کواکٹھا رکھ کر ملک کو اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل کرتا اور معاشی اورسیاسی طور پر ملک کومضبوط کر جاتا ۔ پر یہ نہ ہوا ، نہ ہونا تھا کہ اس کے لئے بردباری برداشت دور اندیشی اور دشمنوں کوبھی قوم کی بہتریکے لئے اپنے ساتھ چلانے کی دوراندیشی درکار تھی جو جمہورئیت اور جمہوری سوچ کا جزو لاینفک ہوتا ہے ۔نومئی کے واقعات نے فوج پر سوالیہ نشان اٹھا دئیے اور فوج کو اپنے دفاع کے لئے طاقت کا استعمال کرنا نا گزیر ہوگیا۔ فوج نے تمام سیاسی قوتوں ایک پیج پر لانے کی مخلاصانہ کوشش نہ کی تو ملک مزید انتشار کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔کیونکہ فوج بھی ایک لمبے عرصے سے کنگ میکر کا کردار کر رہی ہے اس کو ففتھ جنریشن وار کہہ کر فوج اپنا دامن نہیں چھڑا سکتی کہ یہ کنگ میکر کا کردار تو وہ عرصے سے ادا کر رہی تھی اس وقت تو ففتھ جنریشن وار کا ذکر بھی کسی نے نہ سنا ہو گا۔