بھارت کے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اکتوبر 1962 میں نیفا میں بھارت اور چین کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی، اس میں بھارت کو جو شکست ہوئی، اس نے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا دل توڑ دیا اور وہ دل کے مریض بن گئے۔ ان کی صحت اس فوجی ہزیمت کے بعد بحال نہ ہوئی اور 1964 میں وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین اور بھارت کے تعلقات بہت مثالی تھے، بھارت سرد جنگ میں اپنے آپ کو الگ کر کے غیر وابستہ ممالک کی تحریک میں شامل ہو گیا۔ اس دور میں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے۔ 1962 میں جب بھارت نے لداخ میں سرحدی تنازعہ کھڑا کیا اور اس نے تبت میں مداخلت شروع کی تو چین نے اس پر ردعمل ظاہر کیا، چین کا الزام تھا کہ بھارت تبت میں چین کیخلاف بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ تھا کہ تبت میں بغاوت کو کچلنے کیلئے جب چین نے ایکشن کیا تو باغیوں کا سرخیل دلائی لامہ فرار ہو کر بھارت آ گیا اور بھارت نے اسے اپنے ہاں پناہ دی۔ دلائی لامہ اب بھی بھارت کا مہمان ہے اور وہ انڈیا میں بیٹھ کر چین کیخلاف بیان بازی کرتا رہتا ہے۔ 1962کی جان بھارت جنگ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی، جسے امریکہ اور مغربی ممالک اس وقت ’’ سرخ فوج‘‘ یا Red Army کہتے تھے، نے بھارتی فوج کی خوب ٹھکائی کی۔ اسے سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
اس سرحدی جھڑپ میں ہزیمت کے بعد جواہر لعل نہرو کی نہ صرف صحت بگڑنے لگی بلکہ موصوف نے غیر وابستہ تحریک کا ایک اہم رکن ہونے کے باوجود امریکہ کی طرف جھکنا شروع کیا اور امریکہ سے درخواست کی کہ وہ بھارت کی مدد کرے اور اسے چین کے مقابلے میں اسلحہ فراہم کرے۔ امریکہ کے ممتاز تاریخ دان اور جنوبی ایشیاء کے لئے امریکہ کے سابق وزیر ’’ ڈینس ککس ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ The United States and Pakistan 1947 - 2000, Disenchanted Allies میں لکھا ہے کہ جب 1962 کی جنگ میں بھارت کو چین کے ہاتھوں شکست ہوئی تو نہرو نے امریکہ سے فوجی امداد مانگی۔ بھارت کی درخواست کو اس وقت کی امریکی حکومت نے، جسکے سربراہ کینڈی تھے، اس موقع کر بھارت کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کا ایک سنہری موقع سمجھا۔ ڈینس ککس نے لکھا ہے کہ کنیڈی کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’کارل کیسن‘‘ نے صدر کنیڈی کو فوری طور پر بھارت کیلئے فوجی امداد منظور کرنے کی تجویز دی جیسے صدر کنیڈی نے منظور کر لیا۔ ڈینس ککس کے مطابق اسی ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے صدر کنیڈی کو تجویز دی کہ وہ صدر پاکستان ایوب خان پر دبائو ڈالیں کہ وہ چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعہ پر مذاکرات کو فوراً ختم کر دے۔ ڈینس ککس کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو تجویز یا ’’ لالی پاپ‘‘ دیا کہ پاکستان کی طرف سے اگر بھارت کی طرف خیر سگالی کا مظاہرہ دیا گیا تو مسئلہ کشمیر حل کرنے میں آسانی ہو گی۔ صدر ایوب خان نے اس امریکی تجویز کے جواب میں لکھا کہ بطور فوجی کمانڈر وہ سمجھتے ہیں کہ چین بھارت پر کسی بڑی حملے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔ ایوب خان نے یہ بھی لکھا کہ لداخ کے جس علاقے میں چین اور بھارت کی جھڑپ ہوئی ہے وہاں شدید برفباری شروع ہونیوالی ہے اور یہ علاقہ طویل عرصہ کسی فوجی آپریشن کیلئے موزوں نہیں رہے گا۔ ڈینس ککس نے دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایوب خان نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایوب حکومت کے اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے امریکی صحافی ہاورڈ سٹیورڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس دور میں صدر ایوب خان پر سخت دبائو تھا کہ وہ کشمیر میں حملہ کر کے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرا لیں کیونکہ بھارتی فوج اس وقت چین کی سرحد پر متعین تھی اور چین کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے اس کا مورال بہت گرا ہوا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو کشمیر میں کسی کاروائی سے روکے رکھا۔
صدر کنیڈی نے صدر ایوب خان کو خط میں مطلع کیا کہ وہ بھارت کو فوجی امداد دے رہے ہیں جس پر ایوب خان بہت دکھی ہوئے اور انھوں نے اپنے امریکی ہم منصب کو جوابی خط لکھا اور بتایا کہ امریکہ جو فوجی امداد انڈیا کو دے رہا ہے وہ چین کے خلاف استعمال نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کیخلاف استعمال ہو گی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بن چکا تھا، یہ دونوں اتحاد کمیونزم کے خلاف تھے۔ پاکستان بڈبھیر میں امریکہ کو ایک فوجی اڈہ بھی دے چکا تھا۔ اس کے باوجود امریکہ نے اپنے حلیف پاکستان کو نظر انداز کیا اور اس نازک موقع پر بھارت کو فوجی امداد دینے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ اور برطانیہ جو کہ پاکستان کے حلیف تھے، انھوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، کشمیر کا تنازعہ اسی طرح باقی رہا۔
پچھلے دنوں چین اور بھارت کی فوجوں میں ایک اور چھوٹی جھڑپ ہوئی ہے جس میں ایک مرتبہ پھر چین نے بھارتی فوج کی درگت بنائی ہے، 1962 کے بعد لداخ میں بھارت چین سرحد پر کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اب تو امریکہ بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر ہے، آج کے حالات 1962 کے حالات سے یکسر مختلف ہیں۔ اگر چین اور بھارت کی مڈبھیڑ ہوتی ہے تو امریکہ اس خطے میں اپنے سٹریٹجک پارٹنر کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اب امریکہ کو کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس امر کے باوجود کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں مگر اب امریکہ یا مغربی ممالک کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024