حافظ سعید مجھے بھائیوںکی طرح عزیز ہیں مگر ان کا مرتبہ کہکشائوں سے بلند تر ہے۔ان کی افطار پارٹی کا بلاوا آیا تو کشاں کشاں ہوٹل جا پہنچا۔ ویسے میں کسی افظار پارٹی میں نہیں جاتا۔ اس گرمی میں گھر سے باہر قدم نہیں نکالا جا سکتا مگر حافظ سعید کے لئے اللہ نے رحمت نازل فرمائی۔ ابھی انہوں نے بیان شروع ہی کیا تھا کہ تیز ہوا چلی، درخت جڑوں سے اکھڑے اور سڑکیں جل تھل ہو گئیں۔ یہ رمضان کی اکیسویں شب کا آغازتھا اور گمان یہ ہوا کہ یہی لیلۃ قدر کی گھڑیاں ہیں۔
افطار پارٹی میں شہر کا شہر امڈا چلا آیا تھا، ہر طرف شناسا چہرے، میڈیا کو آج شاید کوئی اور کام یاد نہیں تھا۔ یایہ حافظ سعید کی محبت تھی کہ ہر چھوٹا بڑ اصحافی اس افطار پارٹی میں موجود تھا۔ ویسے برادرم یحییٰ مجاہد بھی خوب محنت کرتے ہیں اور وہ محفل میں خورسند انداز میں گھوم رہے تھے جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کی محنت رنگ لے آئی ہے اور وہ پھولے نہیں سماتے۔ میڈیا کے ساتھ تعلقات نبھانے کا فن کوئی یحییٰ مجاہد سے سیکھے کہ ان کی جماعت اور ان کے لیڈر سارے جہاں کے معتوب ہیں مگر یحییٰ مجاہد کی کامیابی یہ ہے کہ انہوںنے اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کو سب کا محبوب ثابت کر رکھا ہے۔ کیا مجال کوئی ان سے اس لئے آنکھ چرائے کہ امریکہ کیا کہے گا، بھارت کیا سوچے گا اور وزارت داخلہ کے اہل کار انہیں بستہ الف میں شمار کریں گے یا بستہ ب میں۔
حافظ سعید کا لب و لہجہ موسم کی طغیانی کے ساتھ ساتھ پرجوش ہوتا جا رہا تھا۔ وہ سچی بات کہنے سے کتراتے نہیں، کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے، میرا خیال ہے کہ وہ بڑے سادہ دل بندے ہیں۔ انہی کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ خدا وندا، یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں، مگر حافظ سعید اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی منزل کیا ہے اور ان کا راستہ کیا ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ مسلمان ادبار کا شکار ہیں اور اگر ہم نے اپنی حالت سدھارنے کی طرف توجہ نہ دی تو حالات مزید گھمبیر ہوتے چلے جائیں گے، میں تو اس وقت خوف زدہ ہو گیا جب انہوںنے کہا کہ شام میں کھیل ختم ہو چکا ہے، اب وہاں قتل و غارت گری میں مصروف رہنے والی داعش تنظیم کے اڈے افغانستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں، مجھے تو واقعی ڈر لگا کہ کہیں اسی افطار پارٹی پر داعش کا حملہ نہ ہو جائے۔ ہم نے چودہ برس تک بھارتی ’را‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو بھگتا ہے، پاک فوج نے قیمتی جانوںکی قربانی دے کر بھارت کے عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں اور امن لوٹ آیا ہے مگر بڑی طاقتوں کو پاکستان کی فوج ا ور اس کی ایٹمی قوت سے بیر ہے، اس نے ٹرمپ کے آنے کے بعد نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے، یہ در اصل پاکستان دشمن پالیسی ہے۔ اس میں امریکہ اور نیٹو تو براہ راست ملوث ہیں مگر مشرقی بارڈر کے علاوہ مغربی بارڈر پر بھارت کی شیطنت کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ ساتھ ہی قتل و غارت مچانے کے لئے داعش کو پاکستان کے خلاف ڈیوٹی دے دی گئی ہے، حافظ سعید نے بڑی درد مندی سے کہا کہ ہمیں ان خطرات کا احساس کرنا چاہئے اور باہمی سر پھٹول کے بجائے مشترکہ دشمن سے نمٹنے کی تیاری کرنی چاہئے۔
حافظ سعید کے خلاف ہم جو بھی اقدام کر ڈالیں۔ اس سے ان کی بے پناہ صلاحیتوںاور ان کے استعمال پر فرق واقع نہیں ہوتا، حافظ صاحب پیش بینی کے ہنر میں یکتا ہیں، خطرات کو عشروں پہلے بھانپ لیتے ہیں اور پھر امت کو ان سے خبردار کرنے اور ان کے خلاف کمر بستہ ہونے کا درس بھی دیتے ہیں، کوئی ان کی سنے یا نہ سنے، وہ صحرا میں اذان دیئے چلے جا رہے ہیں، انہوںنے امت مسلمہ کو صہیونیوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا تھا، ہمارے کانوںپر جوں تک نہیں رینگی اور آج قبلہ اول کے سامنے امریکی سفارت خانہ کھل گیا ہے کل کو یہاں اسرائیل کا صدر مقام بھی منتقل ہو جائے گا۔ ترکی کے صدر نے رونا رویا ہے کہ ہم فلسطین کی حفاظت نہیں کر سکے تومدینہ اور مکہ کی کیسے کر پائیں گے، ترکی کے صدر جو شام میں پہلے تو بمباری کرتے ہیں، پھر بمباری کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کی خدمت کا کریڈٹ لیتے ہیں، واقعی سے ایسے لیڈروں کے ہوتے ہوئے امت کا یہی حشر نشر ہو گا جو ہو رہا ہے، پوری امت میںکوئی ایک ملک ایسا نہیں جو بھارت کی طرح کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ٹھوکر مار سکے، حافظ سعید کے خلاف یہی اقوام متحدہ ادھر ایک قرارداد منظور کرتی ہے، ادھر ہم ان کی مساجد کو، ڈسپنسریوں کو، سکولوں کو اور ایمبولنسوں کو تالے لگا دیتے ہیں یا ان پر سرکاری ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیتے ہیں کہ جیسے یہ ہمارے باپ کا مال ہو۔ اس رویئے کے ساتھ ہم نہ ظالم کا ہاتھ توڑ سکتے ہیں، نہ مظلوم کی دستگیری کر سکتے ہیں۔ ہم صرف ماتم کر سکتے ہیں، آنسو بہا سکتے ہیں، سینہ کوبی کر سکتے ہیں جو ایک ہزار برس سے کرتے چلے آ رہے ہیں، ہم غرناطہ، قرطبہ واپس نہیں لے سکے، ہمارے کابل، بغدادا ور طرابلس پر نیٹو اور امریکی فوجوں کے پٹھو بٹھا دیئے گئے، مصر کی عظمت خاک میں مل گئی۔ شام میں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں۔ اب اغیار کی نظر پاکستان پر ہے جو کہنے کو تو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے مگر اس اسلحے کا کسی کو خوف لاحق نہیں ، بھارت نہ صرف کنٹرول لائن کی آبادیوں پر گولہ باری کر رہا ہے بلکہ سیالکوٹ، شکر گڑھ اور نارووال کے پاکستانی دیہات کو بھی نشانہ بنا رہا ہے، ہمارے لیڈروں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بھارتی دہشت گردی کی مذمت بھی کر سکیں۔ اس لئے کہ انہیں اپنے اپنے مفادات عزیز تر ہیں، وہ سیاسی اور قانونی جھمیلوں میں گرفتار ہیں اور دشمن کی طرف ان کی نظر ہی نہیں جاتی، اس نفسا نفسی میں ایک حافظ سعید کی ذات ہے جو کلمہ حق کہنے کا فریضہ ادا کر ر ہی ہے مگر ہم اس آواز کو بھی دبانے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ اس ملک میںہو رہا ہے جہان دن رات بنیادی حقوق پر رٹیں ہو رہی ہیں اور عدلیہ ان پر فیصلے سنا رہی ہے مگر پاکستانیوں کے اجتماعی بنیادی حقوق پر بھارت کھلے عام ڈاکہ مار رہا ہے اور اب داعش کا لشکر پاکستان میں گھسنے اور قیامت ڈھانے کی تیاری کر رہا ہے تو کون ہے جو حافظ سعید کی وارننگ پر کان دھرے اور ملک، قوم اور امت کی سلامتی اور تحفظ کے لئے سوچ بچار تک بھی کرنے کو تیار ہو۔ میرے ذہن میں کئی ایک خدشات ہیں، کیا ہمیں کشمیریوں کی طرح چن چن کر نشانہ بنایا جائے گا، کیا ہمیں عراق کی طرح برباد کر دیا جائے گا، کیا افغانستان کی طرح ہماراتورا بورا بنا دیا جائے گا، کیا ہمارے لیڈروںکا حشر کرنل قذافی اور حسنی مبارک جیسا ہو گا اور کیا امت مسلمہ ایک نئی کربلا کا سامنا کرنے والی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024