’’ آپ کو کس نے کہہ دیا ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان سے کرکٹ سیریز کھیلنے جا رہی ہے ؟ اس حوالے سے تمام خبریں بے بنیاد ہیں بھارت پاکستان سے کرکٹ میچ کھیلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ، ہمارے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر امن ماحول میں اسی صورت میں ہی نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب پاکستان لکھوی سمیت ممبئی حملوں میں ملوث دیگر دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کریگا ۔ جہاں تک پاک چین تجارتی راہداری کا تعلق ہے تو ہم نے چین پر واضح کر دیا ہے کہ یہ ’’ ہمیں قبول نہیں ‘‘ ،مندرجہ بالا ڈائیلاگ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ اتوار کو نیو دہلی میں کی گئی پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب میں ادا کئے ، مذکورہ پریس کانفرنس کا جائزہ لیں تو اس کا بظاہر ایک ہی مقصد تھا کہ پاک چین روابط ’’ ہمیں قبول نہیں ‘‘ ۔ نریندر مودی ، اس کی جماعت بی جے پی اور اشٹریہ سیکو سنگھ کی گزشتہ انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ پاکستان دشمنی ، پاکستان کی نفی ، خط یمیں مسلمانوں کو مٹانے کا عزم رہا مہم کے دوران الفاظ و جملوں کا چنائو سب فلمی سکرپٹ کی مانند تھا پاکستان نے بھی اپنے خلاف استعمال کی جانیوالی زبان کو انتخابی مہم کا حصہ سمجھتے ہوئے در گزر سے کام لیا ۔ اس امید پر کہ برسر اقتدار آنے کے بعد مودی یا بی جے پی سرکار ذمہ داری کا مظاہرہ کریگی لیکن گزشتہ ایک سال میں بھارتی رویے نے ثابت کیا کہ وہ فلمی اسٹائل چھوڑ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ۔ کبھی بھارتی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم اور کالج ہوسٹلوں میں مقیم کشمیری طالب علموں پر تشدد تو کبھی مقبوضہ کشمیر میں یہودی بستیوں کی طرز پر ہندو پنڈتوں کی الگ سے بستیاں قائم کر کے کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے جیسے ناقابل عمل منصوبوں کا اعلان ، پاکستان کو آئے روز سبق سکھانے جیسے بازاری قسم کے بیانات ، بھارتی فوج کا سربراہ بیان دے کر ہٹنا ہے تو اسکی جگہ وزیر داخلہ لے لیتا ہے وہ تھکتا ہے تو نریندر مودی کا خصوصی مشیر اجیت کمار رورل مائیک تھام لیتا ہے اس دوران بھارتی فوج کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان کیخلاف بلا اشتعال فائرنگ ، ماٹر گولوں کی برسات کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جس میں سرحدی آبادیوں میں مقیم ہزاروں پاکستانی اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں منتقل ہونے پرمجبور ہو جاتے ہیں کروڑوں روپے کی املاک تباہ اور درجنوں کسان شہید کر دئیے جاتے ہیں ۔ پھر منظر بدلتا ہے ، بھارتی وزیر دفاع مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کا دورہ کرتے ہیں اور اگلے مورچوں پر پہنچتے ہی وزیر دفاع منوہر پاریکر کو پاکستان مخالفت کا دورہ پڑتا ہے نہ سرحدی کشیدگی نہ اشتعال اور نہ ہی ماحول لیکن موصوف پاکستان کو دھمکیاں دینے کے شوق میں جذبات کے ہاتھوں ملغوب ہو کر وہ تمام سچ کہہ ڈالتے ہیں جنکے بارے میں نوائے وقت عرصہ دراز سے لکھ رہا ہے اور ’’ امن کی آشا والے اسے CONSPIRACY THEORY قرار دیکر ہمیشہ مسترد کرتے رہے ۔ منوہر پاریکر کہتا ہے کہ ہم پاکستان کیخلاف فوج کو نہیں دہشت گردوں کو استعمال کرینگے ، منوہر پاریکر نیو دہلی واپس پہنچتے ہیں تو سشما سوراج کی ’’ انٹری ‘‘ ہوتی ہے جو مخاطب پاکستان کو کرتی ہے لیکن اس میں پیغام چین کیلئے ہوتا ہے ، گوادر سے کاشفر تک اقتصادی راہداری کی پاکستان سے زیادہ چین کو ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ راہداری منصوبے پر تمام اخراجات کی ذمہ داری چین نے اٹھائی ہے سشما سوراج کے جذباتی پیغامات کو سمجھتے اور قبول کرتے ہوئے چین نے فوری رد عمل کا اظہار کیا اور کم الفاظ میں جواب دینے کی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ’’ ہم پاک چین راہداری منصوبے پربھارتی موقف کو مسترد کرتے ہیں ‘‘ بھارت سرکار کو تو چین کا جواب سمجھ آگیا لیکن اپنے ووٹروں ، پارٹی کے انتہا پسند ہندو ورکروں اور ان دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور کاروباری حضرات کو کس طرح سمجھائیں جو نریندر مودی کو زمین پر ’’ شیوہ ‘‘ کا اوتار سمجھتے ہیں۔ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے تین روز بعد سشما سورج پھر پریس کانفرنس کے نام پر صحافیوں کو در شن دیتی ہیں اور ایک نئی بات کرتی ہیں کہ پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان بھی بھارت کا اٹوٹ رنگ ہیں وہاں 8 جون کو ہونے والے انتخابات غیر قانونی ہیں جس کے فوراً بعد شیو سینا کے چیئرمین اودھے ٹھاکرے (بال ٹھاکرے کا پوت ) لوک سبھا میں شیو سینا کے رکن آننت جیت اور راجیہ سبھا میں اپنے رکن سمیت مشترکہ پریس کانفرنس میں ’’ پاکستان کو سبق سکھانے ‘‘ کا اعلان کرتے ہیں یہ سبق کس طرح سکھایا جائیگا اور پریس کانفرنس میں بال ٹھاکرے کی اولاد نے مزید جو کچھ کہا اس سے نقطہ نظر اہم سوال یہ ہے کہ بھارت اتنا مشتعل کیوں ہے ؟ اس کی وجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیخلاف زور پکڑتی تحریک ہے یا بھارتی ووٹر نریندر مودی سے اسکے منشور ’’ پاکستان مکائو ‘‘ بارے سوال پوچھنے لگے ہیں ؟ وجہ کچھ بھی ہو اس صورتحال میں بھی آخر کار پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو مداخلت کرنا پڑی۔ انہوں نے انتہائی واضع اور دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو کشمیر سے متعلق پاکستان کی پالیسی اور پاکستان کے موقف سے آگاہ کر دیا ہے جو بھارتی اوبال اور اشتعال کا موثر جواب ہے گو اس طرح کا جواب ہمارے منتخب نمائندوں کی طرف سے آنا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی سے وہ ملک کے اندر ہو یا خارجہ سطح پر ’’ مفاہمتی پالیسی ‘‘ ترک کرنے کو تیار نہیں اور یہ ہمارے حکمرانوں کی مفاہمتی پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر ہو ، دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو۔ سیاچین و سرکریک کا مسئلہ ہو یا پانی کا تنازعہ اور اب راہداری کے حوالے سے چین و پاکستان کا اندرونی مسئلہ بھارت ’’ ہمیں قبول نہیں ‘‘ کی رٹ سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔ یہاں اپنی حکومت سے التماس ہے کہ وہ بھارتی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری طور پر مصنوعات و فلموں کی پاکستان میں استعمال و نمائش پر پابندی لگائیں ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024