ایام جوانی میں، میں نے دو بارحج اور کئی عمرے ادا کئے لیکن غارثور تک جانے کی ہمت نہ ہو سکی لیکن اس کتاب کی تحریر کے دوران یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی غیر مرئی قوت مجھے کہہ رہی ہے کہ غارثور پر اگر کچھ لکھنا ہے تو وہاں خود ضرور جائو۔غار ثور کی کٹھن چڑھائی کیلئے نماز عصر کے بعد ہم نے کمر ہمت باندھی اور تقریباً پونے دو گھنٹے کی پیدل چڑھائی کے دوران کئی بار رک کر سستانا پڑا۔زیگ زیگ راستے کے اس سفر کے دوران مکہ مکرمہ شہر اور گرد ونواح کے تقریباً سبھی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔دن کے وقت گرمی اور گرد و غبار کی وجہ سے منظر نامہ خاصی حد تک چھپا رہتا ہے شام اور رات کے وقت مکر المکرمہ کا نظارہ دیدنی ہے۔ غار ثور کے اس سفر کے دوران میں چشم تصور میں تاریخ اسلام کے وہ اوراق پلٹتا رہا کہ جب آپﷺ نے غار ثور کی جانب سفر کیا۔تاریخی کتابوں کے مطابق آپ ﷺ نے اپنے گھر سے اس سفر کا آغاز وسط جولائی میںکیا۔ آپﷺ سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر ؓکے گھر پہنچے اور انہیں نوید دی کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مکہ سے یثرت ہجرت کا حکم ہوا ہے اور آج رات کوچ ہو گا۔ ساتھ ہی ہدایت کی کہ سارے معاملے کو انتہائی رازمیں رکھا جائے احتیاط اس لیے بھی ضروری تھی کہ مکہ کے سارے کفار چوکنے تھے اور اس ٹو ہ میں تھے کہ کہیں محمدﷺ مکہ سے چلے نہ جائیں۔ کفار کی آمد سے پہلے حضور پاکﷺ ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر سورۃ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے ہجرت کیلئے روانہ ہوئے۔پہلا پڑائو یہی غار ثور تھا۔ یہاں یہ سوال آتا ہے کہ آپ نے ہجرت تو مدینہ کی طرف کرنی تھی اس لیے آپ کو مکہ سے شمال کی جانب سفر کرنا تھا چائیے تھا لیکن آپ نے ہجرت کا آغاز مخالف سمت میں جنوب کی جانب یعنی غار ثور کی طرف کیوںکیا۔ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ نے کمال دانشمندی سے کام لیتے ہوئے بالکل الٹ سمت یعنی جنوب کی جانب غار ثور میں پناہ لی۔ قریش مکہ نے حضورﷺ کو پکڑنے کیلئے سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا۔ بے شمار لوگ آپکے تعاقب میں مکہ سے یثرب کی جانب روانہ ہوئے لیکن بے نیل و مرام واپس آئے۔ غار ثور میں آپ کا قیام ایسا زبر دست جنگی حربہ تھا کہ اس نے دشمنوں کی تمام چالوں کو مات دے دی۔ کفار نے مکہ کا کونہ کونہ چھان مارا اور یثرب کے راستے پر دور دور تک جا کر نا کام لوٹتے رہے تو کفار مکہ نے دو کھو جیوں کو حضور کے قدموں کا سراغ لگانے کی ذمہ داری دی۔ کھوجی فن کے ماہر تھے۔ وہ سراغ لگاتے لگاتے غار ثور تک پہنچ گئے۔ ان میں سے ایک کھوجی نے کہا کہ یہاں سے آگے کچھ پتہ نہیں چلتا۔دوسرا کھوجی غار کے دہانے کے پاس پہنچ کر رک گیا اور بولا اس غار پر تو مکڑی نے جالا بن رکھا ہے اوریہ جالا تو محمد ﷺ کی پیدائش سے پہلے کا لگتا ہے۔یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺکو کفار سے محفوط رکھا۔چشم تصور میں تاریخی اوراق پلٹتے رہے اور ہمارا سفر جاری رہا۔ ہم جب غار ثور کی چوٹی پر پہنچے تو مغرب کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ غار ثور کے عقب میں چند فٹ بلند چوٹی پر جائے نماز بنائی گئی ہے۔ہم نے یہاں نماز مغرب ادا کی ۔میری آنکھوں کے سامنے مسجد الحرام اور مکہ ٹاور ہے۔جائے نماز اور مسجد الحرام کے درمیان غار ثور کی چھت پہاڑ کی ڈھلوانیں اور مکہ شہر کی روشنیاں نظر آ رہی ہیں۔دائیں جانب عرفات اور منیٰ کا میدان ہے تو بائیں جانب پھیلتا ہوا مکہ شہر۔ نماز مغرب کے بعد ہم غار کی زیارت کیلئے عقبی حصے سے داخل ہوئے(یہ راستہ بعد میں زائرین کی آسانی کیلئے بنایا گیا ہے)۔غار کے اندر چار افراد کی گنجائش ہے دو افراد با آسانی بیٹھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے دو افراد تنگ بیٹھتے ہیں۔ غار میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھی جا سکتی تا ہم بیٹھ کر با آسانی نماز اور نوافل ادا کئے جا سکتے ہیں۔ہم نے یہاں نوافل پڑھے۔ اس غار کے کسی بھی پہلو پر غور کریں تو کئی عقدے کھلتے ہیںجن میں سے اکثر کا ذکر سیرت طیبہ کی کتابوں میں موجود ہے۔غار ایک بہت بڑے چھتری نماپتھر سے ڈھکا ہوا ہے ۔ غار کی چھت میں بائیں جانب سر کو سمانے کیلئے بھی ایک گول کھوہ بنی ہے۔غار کے مکین سطح زمین پر کھل کر لیٹ سکتے ہیں۔غار کا دھانہ قبلہ رخ ہے اور غار میں نشست کی ترتیب بھی ایسی بنتی ہے کہ آپ کا رخ بیت اللہ کی طرف ہی ہوتا ہے۔اتفاق دیکھئیے کہ یہ ایسا مقام ہے کہ یہاں اگر آپ قبلہ رخ ہوں تو بیت اللہ شریف اور بیت المقدس دنوں ایک ہی سمت میں آپکے سامنے ہونگے۔غار ثور میں بیٹھے ہوئے جب آپکا رخ دھانے کی طرف ہوتا ہے تو آپکے دائیں جانب تقریباًایک فٹ سے زائد چوڑی اور دس بارہ فٹ لمباخلا ہے۔جس سے روشنی اور ہوا کی کراس وینٹی لیشن ہوتی ہے۔ غار کی چھت اور پتھروں کے درمیان اس جگہ سے آپ بیٹھے بیٹھے با آسانی باہر کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں غار کی بناوٹ ایسی ہے کہ ایک فٹ سے آگے غار کی چھت انسانی چھاتی سے ٹکراتی ہے وہ نہ تو جھک سکتا ہے اور نہ ہی وہ آگے قدم بڑھا سکتا ہے۔ مجھے معاً خیال آیا کہ ممکن ہے یہ ہی وہ جگہ ہو جہا ں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کفار کے پائوں دیکھ کر رسول پاکﷺ کو بتایا ہو۔اس کاذکر قرآن پاک میں یوں آیا ہے۔ترجمہ ’’جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ (رسول اللہ ﷺ) اپنے ساتھی (ابو بکر صدیق ؓ)سے کہہ رہا تھا غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
غار ثور سے واپسی کے سفر میں چڑھائی کی نسبت کم وقت لگتا ہے گھنٹے سوا گھنٹے میں آپ با آسانی نیچے اتر سکتے ہیں۔ (باقی آئندہ)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024