اتوار ‘ 19؍ شعبان المعظم 1436ھ ‘ 7؍ جون 2015ء
راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پر سفر کرنے والوں کا ہجوم!
لاہور کی طرح راولپنڈی اسلام آباد میں بھی میٹرو بس کے بالا بالا سفر کا مزہ لینے والوں کا رش لگا ہوا ہے۔ عام لوگ اس خوبصورت اے سی والی آرام دہ بس سروس کا مزہ لوٹ رہے ہیں ورنہ بسوں اور ویگنوں میں دھکے کھانا عوام کے مقدر میں لکھا ہوا تھا، اب کم از کم پبلک ٹرانسپورٹ پر رش کم ہونے سے ان مسافر بسوں اور ویگنوں میں مسافروں کو مرغیوں کی طرح ٹھونسنے کا عمل بھی ختم نہ سہی کم ضرور ہو جائے گا۔
مگر کیا فرماتے ہیں اب شیخ رشید اس مسئلہ پر… انہوں نے فرزند راولپنڈی کا حق ادا کرتے ہوئے مری روڈ اور راولپنڈی کی سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ پر باقاعدہ ماتم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ یہ جنگلا بس میری لاش پر بنے گی۔
کیا اب وہ اس بس سروس کے آغاز پر
اٹھا کے لاش ہم اپنی خود اپنے کاندھے پر
تڑپتی آرزوئوں کا مزار چھوڑ چلے
والا المیہ شعر گنگناتے ہوئے راولپنڈی کی دوبارہ بننے سنورنے والی گلیوں میں زندہ لاش بنے گھومیں گے یا حویلی میں بیٹھے بیٹھے بیانات جاری فرمائیں گے۔ ویسے لاشیں بولتی نہیں ہیں۔ مگر شیخ رشید جیسے جلالی بزرگ کا کیا پتہ وہ پس مرگ بھی واویلا کرنے لگیں۔ خیر اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب تو انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں یا احتجاجی جلسوں اور مظاہروں میں شرکت کیلئے بھی اپنی گاڑی کی نسبت یہ میٹرو بس ہی زیادہ سوٹ کرے گی کیونکہ لال حویلی کے قریب ہی اسکا سٹیشن ہے جہاں سے شیخ رشید صاحب بآسانی 20 روپے میں اسلام آباد جا اور 20 روپے میں ہی واپس آ سکتے ہیں۔
اگر خیبر پی کے میں بھی یہ سروس چل پڑی تو وہاں کے لوگ بھی کم قیمت میں اعلیٰ سفر کے مزے لوٹ سکیں گے۔ بس کہیں صوبائی حکومت اور معروف ٹرانسپورٹرز بلور صاحب نہ آڑے آئیں۔ ویسے بھی بلور صاحب کو ریلوے کی دوبارہ بحالی پر غصہ تو آیا ہی ہو گا! اب کہیں وہ میٹروبس کے مسلئے پر پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر مخالفت پر نہ اتر آئیں
٭…٭…٭…٭
تحریک انصاف کا وائٹ پیپر جھوٹ کا پلندہ ہے۔ زعیم قادری
عمران خان نے تو نہیں البتہ تحریک انصاف نے حکومت پنجاب کی کارکردگی کے بارے میں وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں امن و امان کے حوالے سے جو نقشہ کشی کی گئی ہے وہ خاصی خوفناک ہے۔ اب شاید اس کے جواب میں زعیم قادری کا خاصا پھس پھسا سا روایتی بیان ان کی عاجزی اور حکومت کی ناکامی کا اعتراف معلوم ہوتا ہے۔ حکومتی ترجمان تو خاصا ’’ڈاہڈا‘‘ قسم کا ہونا چاہئے جو آئو دیکھے نہ تائو فوراً جوابی تگڑا قسم کا بیان داغ کر اپوزیشن والوں کے ہوش اڑانے میں مہارت رکھتا ہو مگر یہاں تو ’مدعی سست گواہ چست‘ والی بات سامنے آ رہی ہے۔ وائٹ پیپر جتنے بھی آج تک چھاپے گئے ہیں ہر حکومت نے ان کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے مگر کیا کریں اس میں جو اعداد و شمار درج ہوتے ہیں کیا ان سے انکار ممکن ہے۔
اب تو یہ ہمارے دبنگ قسم کے صوبائی وزیر قانون ہی بتا سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے مگر وہ خود پہلے اپنی صفائی دے کر علامہ قادری کو اور انکے کارکنوں کو تو مطمئن کریں جو ان کو کلین چٹ ملنے پر برہم دکھائی دے رہے ہیں اور امکان ہے کہ مولانا قادری ان کی برہمی کو ایک مرتبہ پھر اپنے مالی مفاد کیلئے استعمال کرنے پاکستان تشریف لائیں اور دھڑن تختہ یا انقلاب کی کسی نئی ڈرامہ سیریل کا آغاز کر کے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد خاموشی سے پہلے دو ناکام ڈراموں کی طرح اس سیریل کو بھی ادھورا چھوڑ کر ایک بار پھر امریکہ یا ولایت روانہ ہو جائینگے۔ اسلئے حکومت کو چاہیے کہ اب انکے بارے میں بھی ایک وائٹ پیپر شائع کرے۔
اب دیکھنا ہے رانا ثناء اللہ المعروف رانا کلین چٹ امن و امان کے بارے میں حکومت پنجاب اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے قتل عام سے حکومتی کمشن کے ہاتھوں اپنی بریت کے بارے میں اب کیا لاف زنی کرتے ہیں اور تحریک انصاف کے اس وائٹ پیپر کے جواب میں کیا ارشاد فرماتے ہیں!
٭…٭…٭…٭
15 برس سے پاکستان میں بجلی کاکوئی منصوبہ نہیں بنا ‘ صدر ممنون حسین کا اپنے خطاب میں انکشاف
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنون حسین نے گزشتہ روز خطاب کرتے ہوئے یہ حیران کن انکشاف کر کے سب کو چونکا دیا۔ کیونکہ عوام کو گزشتہ کئی برسوں سے ہر حکومت کی طرف سے نجانے کتنے بجلی گھروں کے قیام اتنے ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے اعلان اور کہیں پانی سے کہیں ہوا سے اور کہیں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کا خوش کن اعلانات میں میڈیا پر صرف دکھائے اور سنائے ہی نہیں جاتے تھے بلکہ ان منصوبوں کے افتتاح کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بار بار دکھائی جاتی تھیں۔ مگر صدر ممنون حسین کے پارلیمنٹ میں خطاب نے ان سب منصوبوں کے غباروں سے ہوا نکال دی اب صدر کے منہ سے یہ سچ سننے کے بعد حکومت کا کیا ردعمل ہو گا یہ خدا جانے مگر ان منصوبوں کا کیا ہوگا جن کی وجہ سے 2017ء میں بجلی کے بحران کے خاتمے کی نوید سنائی جاتی تھی اب تو عوام کے امیدوں پر پھر مایوسی کی اوس پڑ گئی ہے اورانہیںنجانے کتنے سال اور اس طرح دستی پنکھا جھلتے ہوئے گزارنے ہوں گے۔
پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن کی حکومت ان کے درجنوں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تو بن کھلے مرجھا گئے ہیں۔ تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اب 2018ء کے الیکشن میں بھی بجلی کا بحران مسلم لیگ کی حکومت کو بھی اس طرح لے ڈوبے گا جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت کو لے ڈوبا ہے۔ اب عمران خان ذرا سی بھی مہارت کا مظاہرہ کریں تو بجلی کے کاندھوں پر سوار ہو کر با آسانی ایوان حکومت میں داخل ہو سکتے ہیں اس بار کوئی تیر بردار یا شیر سوار اس کے مقابلے میں نہیں آئے گا کیونکہ عوام ان دونوں کو کرنٹ لگا لگا کر مار چکے ہوں گے۔