وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 16 کھرب 25 ارپ روپے کے خسارے پر مبنی موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ انہوں نے سوا دو گھنٹے پر مبنی اپنی بجٹ تقریر میں وفاقی میزانیے کی مختلف مدات کو اجاگر کرکے‘ بالخصوص بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر پیپلزپارٹی کے ارکان سے بھی ڈیسک بجوائے اور کم تنخواہوں والے ملازمین کو انکم ٹیکس کی چھوٹ دینے کا کریڈٹ لیا جبکہ عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالنے کا دعویٰ کیا مگر فی الحقیقت اس بجٹ میں غریب طبقات کو کم اور مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو زیادہ مراعات حاصل ہوئی ہیں۔ بجٹ سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے بڑھائی گئی مہنگائی کے تناظر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز حضرات کی پنشن میں صرف ساڑھے سات فیصد اضافہ کرکے انہیں لالی پاپ دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ ای او بی آئی کے زمرے میں آنیوالے ضعیف العمر مزدور طبقات کو اس ریلیف سے بھی حسب روایت محروم رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں زرعی ٹریکٹروں پر دس فیصد اور زرعی مشینری آلات پر سات فیصد ٹیکس عائد کرکے زرعی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کسانوں پر بھی اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے اور موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس استعمال کرنیوالے ملک کے کروڑوں عوام الناس پر 14 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرکے انہیں اس سہولت سے رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اسی طرح موبائل فون سیٹ پر ریگولٹری ڈیوٹی بھی بڑھا دی گئی ہے جبکہ مشروبات‘ ڈبہ بند دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ پنیر‘ منرل واٹر جیسی عام استعمال کی اشیاء پر نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی کے مارے عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان کے آگے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ مجموعی 44 کھرب 51 ارب روپے پر مبنی 2015-16ء کے اس مجوزہ بجٹ میں 253.2 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 419 ارب روپے‘ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز کی مد میں 54 ارب روپے‘ انکم ٹیکس کی مد میں 1422‘ ارب روپے کی وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں اٹھائے گئے ٹیکس اقدامات کی وجہ سے سگریٹ‘ مشروبات‘ موبائل فونز اور ڈیری مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی جبکہ بجلی کے بلوں کا ودہولڈنگ ٹیکس کیلئے تھریش ہولڈ 75 ہزار روپے کرنے سے صارفین پر بل کے بوجھ میں اضافہ ہو گا اور بجلی کے بلوں پر حاصل سبسڈی ختم ہونے کا بوجھ بھی براہ راست صارفین پر پڑیگا۔ بجٹ میں ملازمین کو 2011ء اور 2012ء میں دیا گیا ایڈہاک ریلیف انکی بنیادی تنخواہوں میں ضم کر دیا گیا ہے اور انکے میڈیکل الائونس میں 25 فیصد اضافہ کردیا گیا جسے بجٹ کے ذریعے آنیوالے مہنگائی کے نئے طوفان کے مقابلے میں تنخواہ دار طبقات کی محض اشک شوئی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مجوزہ بجٹ میں مزدوروں کی کم از کم تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کرکے یہ تنخواہ 13 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ بجٹ میں ایف بی آر کے ٹیکسوں کا ہدف 3104 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ ٹیکس ریونیو کا مجموعی ہدف 3418 ارب روپے ہوگا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ وفاقی محاصل میں 283‘ ارب روپے بنکوں سے قرض کی صورت میں حاصل کئے جائینگے‘ اس طرح بنکوں سے آئے روز قرضے لے کر روزمرہ کے معاملات چلانے اور افراط زر میں اضافہ کرنے کی حکومتی پالیسی برقرار رکھی گئی ہے جسے سٹیٹ بنک کی ہر سہ ماہی رپورٹ میں قومی معیشت کیلئے زہرقاتل قرار دیا جاتا ہے اور حکومت کو اس پالیسی پر نظرثانی کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس بجٹ کے ذریعے قابل تقسیم محاصل کے پول میں سے پنجاب کو 894‘ ارب‘ سندھ کو 482‘ ارب‘ خیبر پی کے کو 300 ارب اور بلوچستان کو 171‘ ارب روپے منتقل ہونگے۔ اس طرح وفاقی محاصل میں صوبوں کا حصہ 1849‘ ارب روپے ہوگا۔ بجٹ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ایڈورٹائزنگ سروسز اور اس مد میں ادائیگی پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں تو صرف ساڑھے سات فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور گریڈ پانچ کے ملازمین کیلئے ایک پیشگی انکریمنٹ کی منظوری دی گئی ہے جبکہ سینئر پرائیویٹ سیکرٹریوں‘ پرائیویٹ سیکرٹریوں اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹریوں کی خصوصی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جو سرکاری ملازمین کے ساتھ امتیاز برتنے کے مترادف ہے۔ بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کے جو سات اقدامات اٹھائے گئے ہیں‘ اس کے مطابق دکانداروں پر 0.1 فیصد ایڈوانس ٹیکس لگایا جارہا ہے۔ ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرانے والوں پر تین فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ سگریٹ پر ٹیکس کی شرح میں پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سالانہ پانچ لاکھ روپے تک آمدن والے تنخواہ داروں پر ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کرکے دو فیصد کر دی گئی ہے اور اس طرح کسٹم ڈیوٹی کی زیادہ سے زیادہ شرح 25 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کر دی گئی ہے۔ بجٹ میں 120 ارب روپے کے ٹیکس مستثنیٰ ایس آر اوز ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس سے برآمدات پر ٹیکس چھوٹ ختم ہو جائیگی۔ وزیر خزانہ کے بقول 2014ء میں ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی‘ اب معیشت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی ہے مگر انکے اس دعوے کے برعکس اقتصادی ماہرین‘ اپوزیشن کے سیاسی قائدین‘ تاجر‘ صنعت کار‘ مزدور طبقات اور سرکاری ملازمین اس بجٹ سے انتہائی مایوس نظر آتے ہیں جو اسے عوام دشمن بجٹ کے کھاتے میں شمار کررہے ہیں۔ بجٹ پر عوامی حلقوں میں کرائے گئے سروے کے مطابق اس بجٹ کے ذریعے امراء اور کاروباری طبقات کو نوازا گیا ہے جبکہ عام آدمی کو اس بجٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ بی بی سی کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مجوزہ وفاقی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کا جو 700 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے‘ اس سے زیادہ بیرونی قرضوں پر شرح سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جائیگا جو 1279‘ ارب روپے ہے‘ بجٹ دستاویزات کے مطابق اس وقت ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ایک لاکھ 79 ہزار 365 ارب روپے ہے اس طرح بجٹ کا تقریباً 40 فیصد حصہ قرضوں کی واپسی پر خرچ ہو جاتا ہے اور ترقیاتی منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ وفاقی میزانیوں میں انسداد دہشت گردی سپورٹ فنڈ کی مد میں بیرونی ممالک سے حاصل ہونیوالی مجوزہ امداد پر تکیہ کرکے ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقوم مختص کی جاتی رہیں مگر بیرون ملک سے مطلوبہ امداد نہ ملنے کے باعث یہ ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہوتے اور بجٹ کا خسارہ بڑھتا رہا جسے پورا کرنے کیلئے حکومت نے ہر تین چار ماہ بعد منی بجٹ لانے کی روایت قائم کی۔ اس طرح آئی ایم ایف کی ٹیکس اصلاحات کی تجاویز اور بجلی‘ تیل‘ گیس کے نرخوں میں ہر ماہ اضافہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بھی عام آدمی پر مہنگائی کے پہاڑ لادے جاتے رہے۔ موجودہ مجوزہ بجٹ میں بھی 751.5 ارب روپے کی متوقع بیرونی وصولیوں پر تکیہ کیا گیا ہے جبکہ یہ ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں بجٹ خسارہ بڑھے گا تو عوام کی جیب کاٹ کر یہ خسارہ پورا کرنے کی روایت پر ہی عمل کیا جائیگا۔
بجٹ کے مثبت پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں زرعی‘ تعمیراتی اور ٹیکسٹائل شعبوں کیلئے مراعات موجود ہیں۔ اینٹیں اور بجلی سستی کی گئی ہے‘ خیبر پی کے میں صنعتی یونٹ لگانے پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے‘ چاول‘ مچھلی‘ خشک دودھ‘ سولرونڈ انرجی اور گاڑیاں سستی کی گئی ہیں‘ شعبہ تعلیم کیلئے 71.5 ارب روپے مختص کرکے 50 ہزار نوجوانوں کیلئے 12 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کی انٹرن شپ نکالی گئی ہے۔ رمضان پیکیج کیلئے 3ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو سات ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے اور خودکش حملوں میں شہید ہونیوالوں کی بیوگان کے ذمہ دس لاکھ روپے تک واجب الادا قرضے کی ادائیگی کی ذمہ داری حکومت نے خود قبول کرلی ہے جس کی بنیاد پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے مجوزہ وفاقی بجٹ کو عوام دوست اور متوازن بجٹ قرار دیا ہے اور دوسرے حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی اس بجٹ کی ستائش کی جا رہی ہے جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بھی بجٹ کو عوام دوست قرار دیکر موبائل فونز اور دودھ پر ٹیکسوں میں اضافہ سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے تاہم اس بجٹ کا مجموعی تاثر مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو ہی سہولتیں دینے والے بجٹ کا ابھرا ہے اور اسی بنیاد پر گزشتہ روز پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی الزام لگایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہمیشہ عام آدمی پر بوجھ ڈالتی اور امراء کو سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ وزیراعظم آفس کے اخراجات میں اضافہ اسکی ایک مثال ہے۔
دفاعی بجٹ:
اس بار توقع تھی کہ بھارتی جنگی جنون سے ملک کی سلامتی کو لاحق ہونیوالے خطرات اور اسکے دفاعی بجٹ میں اضافے کے پیش نظر پاکستان کے دفاعی بجٹ میں بھی معقول اضافہ کیا جائیگا مگر مجوزہ وفاقی بجٹ میں گزشتہ سال کے دفاعی بجٹ سے صرف73‘ ارب روپے زیادہ مختص کئے گئے ہیں اس طرح دفاعی بجٹ میں صرف گیارہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے جسے دفاعی ماہرین ملک کی دفاعی ضروریات کے پیش نظر ناکافی قرار دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو اس حوالے سے کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی دفاعی بجٹ بڑھ رہا ہے جبکہ ہمارا کم ہو رہا ہے مگر ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مکار دشمن کی جنگی تیاریوں کے مقابلے میں اپنے دفاعی بجٹ کو کم کرنا کیا قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟
اقتصادی راہداری منصوبہ:
مجوزہ بجٹ میں اقتصادی راہداری منصوبے کیلئے 58 ارب دس کروڑ روپے مختص کرکے اس منصوبے کے اجراء و تکمیل میں حکومتی سنجیدگی ظاہر کی گئی ہے جو خوش آئند ہے۔ چین کے تعاون سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے گا تو یہاں ترقی و خوشحالی کا راج ہوگا۔ اسی بنیاد پر تو اس منصوبے کے حوالے سے بھارت کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور وہ اسکی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ حکومت کو اس منصوبے کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام:
بے شک سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی سہی‘ تاہم حکومت نے اپنی حریف پیپلزپارٹی کی حکومت کے جاری کردہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو برقرار رکھ کر اور اب اسے وسعت دے کر ایک اچھی روایت ڈالی ہے۔ مجوزہ بجٹ میں اس مد میں 1.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے تین کروڑ ایک لاکھ خاندان مستفید ہونگے۔ اس پروگرام میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوتی رہی‘ ان سے اس سکیم کو پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ اس سکیم سے صحیح معنوں میں مستحقین ہی مستفید ہو ں۔
تعلیم اور صحت:
بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں پر اس جواز کے تحت توجہ نہ دینا افسوسناک ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یہ شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت ایک صوبے کے میٹروبس پراجیکٹ کیلئے وفاقی میزانیہ میں رقم مختص کر سکتی ہے تو تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظرانداز کرنا کسی صورت مناسب نہیں جبکہ ہمارے مستقبل کا دارومدار ہی ان دونوں شعبوں پر ہے۔ حکومت کو بجٹ میں اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں سے ہی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ عوام کی بہتری اور انہیں غربت‘ مہنگائی‘ روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل سے نجات دلانے کے عملی اقدامات بھی اٹھانا چاہئیں۔ بجٹ کو عوامی امنگوں کا حقیقی معنوں میں ترجمان بنا کر ہی عوام دوست بجٹ کا کریڈٹ لیا جا سکتا ہے۔