2015-16ء میں حکومت پاکستان کو چلانے کیلئے 43 کھرب 13 ارب روپے خرچ کرنا ہونگے جبکہ پاکستان کی ترقی کیلئے 1514 ارب روپے فراہم کئے جائینگے جن لاکھوں ملازموں نے ریاست چلانی ہے انکی تنخواہوں میں حاتم طائی نے صرف ساڑھے 7 فیصد اضافہ تجویز کیا ہے۔ سرکار نے اپنی ضرورتوں اور خواہشات کے آگے کوئی بند باندھنے کا اعلان نہیں کیا۔ اکنامکس ضرورتوں اور خواہشات میں فرق واضح کرتی ہے۔ 4.45 کھرب روپے 20 کروڑ کے لگ بھگ پاکستانیوں کی جیبوں سے نکلوا کر ریاستی گاڑی فراٹے بھرتی جائیگی۔ بجٹ کوئی حتمی دستاویز نہیں ہے۔
تیسری باری کا چوتھا بجٹ آنے تک بجٹ کئی قلا بازیاں کھائے گا۔ حالات اور موسم تغیر پذیر رہتے ہیں اسی طرح مہنگائی بھی صارفین کو جھولا جھلاتی ہے۔ دہی اور دودھ کی قیمت 100 روپے لٹر سے تجاوز کر رہی ہے جبکہ حاتم طائی کی طرف سے اعلان ہو رہا ہے کہ افراط زر کی شرح 11 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ کتنا تضاد ہے کہنے او رکرنے میں۔ سگریٹ، موبائل فون، خوردنی تیل، ڈیری مصنوعات غیر ملکی تو استعمال نہیں کرتے۔ غریب ہی سگریٹ کے کش لگا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ کونسی ہانڈی گھی کے بغیر تیار ہو سکتی ہے؟ موبائل فون تو بچے بچے کے پاس ہے۔ ڈیری مصنوعات کس گھر کی ضرورت نہیں؟ غریب مہمان داری کیلئے مشروب بھی استعمال نہ کرے تو پھر کیا کرے۔ حاتم طائی اپنے ہی دستر خوان پر نظر ڈال لیں جہاں ہرن کے گوشت سے ہم پلہ دوستوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ زیادہ تر سرکاری ملازموں کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ ناجائز آمدنی کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ رشوت اتنی عام ہے کہ انٹی کرپشن کے محکمے مذاق دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کو اسکی اصل شکل میں دیکھنا ضروری ہے۔
بجٹ سے پہلے چار روز پہلے یکم جون سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 3.57 روپے تک اضافہ کیا گیا۔ حاتم طائی کی طرف سے کہا گیا کہ اوگرا نے تو 6 روپے 62 پیسے اضافہ کی تجویز دی تھی لیکن ہم نے آدھا بوجھ اپنے سر پر لے لیا ہے۔ ہم سے بڑا حاتم طائی اور کون ہو گا جو مہنگے لیپ ٹاپ مفت بانٹتا ہے ۔جو 20 روپے میں 23 کلومیٹر ائر کنڈیشنڈ سفر کا مزہ فراہم کرتا ہے۔ بجٹ سے دو ہفتے قبل گیس انفراسٹرکچر کے نام سے صارفین پرسالانہ سو ارب روپے کا ناروا بوجھ ڈالا گیا۔ اب تو ہر پاکستانی کا شناختی کارڈ ہی اس کا ٹیکس نمبر ہے۔پرائیویٹ سیکرٹریز کی خصوصی تنخواہ میں 100 فیصد اضافہ جبکہ عام سرکاری ملازمین کیلئے 7.5 فیصد اضافہ اتنا گہرا تفاوت کس لئے؟ عام پاکستانی کا سوال ہے کہ حکومت نے اس کیلئے کیا کیا ہے؟ 20 کروڑ میں سے 50 لاکھ خاندان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 102 ارب روپے کی خیرات لیں گے۔ بیت المال کی خیرات دو سے چار ارب روپے کر دی ہے۔ توانائی منصوبوں پر 248 ارب لٹانے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کا عفریت ہمارے سروں پر سوار رہے گا۔ 1328 ارب کا بجٹ خسارہ قرضے ہی پورا کرینگے۔ 75 ہزار سے زیادہ بجلی بل پر 10 فیصد انکم ٹیکس دینے والے چوری کا سہارا نہیں لیں گے تو اور کیا کرینگے۔ حکومت کی منطق نرالی ہے 300سے زائد یونٹ والے بجلی کے گھریلو صارفین کو خوشحال قرار دے رہی ہے۔ بجلی پر سبسڈی واپس لی جا رہی ہے۔ کسان کلرک سکول ٹیچر کئی کئی روز سڑکوں پر سراپا احتجاج رہے۔ بجٹ میں حاتم طائی نے انہیں ذرا سی گھاس نہیں ڈالی۔ محنت کش کی کم سے کم اجرت 13 ہزار مقرر کی ہے پچھلے سال یہ اجرت 12 ہزار تھی۔
کیا ملک بھر کے آجر اپنے اجیروں کو ماہانہ 12 ہزار روپے دے رہے ہیں؟ کروڑوں محنت کش تو پرائیویٹ ملازمتیں کرتے ہیں۔ پرائیویٹ آجر تو ہارٹ اٹیک کے بعد ملازمت سے ہی نکال دیتے ہیں۔ پاکستان کو ترقی کیلئے 1513 ارب خرچ ہونگے جبکہ 169365 ارب کے ملکی و غیر ملکی قرضوں پر 1325 ارب روپے کا سود ادا کیا جائیگا۔ سود کی مد میں اتنی بھاری رقم سے غریبوں کی کایا پلٹی جا سکتی ہے۔ تعلیم اور صحت پر یہی رقم انقلاب لا سکتی ہے۔ اس وقت میٹرو سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے فاٹا اور بلوچستان کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے۔ ملک پہلے بھی ادھار پر چل رہا ہے آئندہ بھی ادھار پر چلتا رہے گا۔ معاشی اہداف حاصل نہ ہونے کی ساری وجہ سیلاب اور دھرنے نہیں حکومت کی اپنی نالائقی عدم دلچسپی، غیر سنجیدگی اور کرپشن ہے۔ حاتم طائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے آتے ہی حکومت کو ڈیفالٹ سے بچایا اور آئی ایم ایف کا دامن تھام لیا ۔دوسرے سال اکانومی کو مستحکم کیا اور اب تیسرے سال سے گروتھ شروع ہو گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر 19 ارب ڈالر جبکہ گروتھ ریٹ 5.1 فیصد ہو جائیگا۔
جس ملک کے بجٹ کا 40 فیصد قرضوں کی واپسی مع سود پر خرچ ہوتا ہو اس کے گروتھ ریٹ کو سمجھنا مشکل نہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح اقتصادی راہداری منصوبے ہیں۔ دوسرے نمبر پر میٹرو اور گرین بسیں اور ٹرین ہے۔ اسکے ایجنڈے پر سماجی ترقی کا نام و نشان نہیں۔ تعمیراتی کاموں کے سوا کچھ اور نہیں ہونے جا رہا اس لئے اینٹ اور بجری پر 3 سال کیلئے سیلز ٹیکس ختم کیا گیا ہے۔ نئی سے نئی ہائوسنگ سکیمیں لانے والے حاتم طائی کے شکر گزار ہوں گے۔ ترسیلات زر میں شاندار اضافہ کیلئے حکومت اور اہل وطن کو بیرون ملک پاکستانیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ 238 روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ صارفین ہی اٹھائیں گے۔ بجٹ کے نتیجے میں کون کون سی چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلے گی اس کا تو شمار ہی نہیں۔
بے روزگاری کے بارے میں حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔وفاقی اداروں میں 50 ہزار ذیلی اداروں میں 65 ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے قرضوں پر شرح سود میں 2 فیصد کمی سے کتنی بے روزگاری ہو گی۔ مردم شماری کے ساتھ بے روزگاری کا سروے ہو تو پتہ چلے کہ ہر گھر میں بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے جس میں 44 کھرب 51 ارب روپے کے بجٹ کے 39 کھرب 10 ارب روپے تو قرضوں، دفاع اور سود کی ادائیگیوں پر ہی خرچ ہو جائینگے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی حالات کو اس حقیقت پر زبان کھولنی چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت عوام سے لی گئی رقم کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی 12 کھرب 80 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کریگی۔ کیا یہ 1973 کے متفقہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟
پہلے گریڈ کی تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ 700 روپے سے کم ہو گا جبکہ 20 کلو آٹا تھیلے کی قیمت 760 روپے ہے۔ یہ اضافہ کتنا ریلیف دے سکتا ہے؟ چنے کی دال 95روپے کلو ہے پیاز اور چینی کا نرخ مساوی ہو گیا ہے۔گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا؟ بیماریوں کے مارے لوگوں سے ہسپتال بھرتے جا رہے ہیں۔ جس ملک کے عوام لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مجبور ہو کر رات کو بار بار اٹھتے ہوں، ان کی ذہنی کیفیت سوچ رویے کیسے ہو جائینگے۔ 18.5 فیصد تک بالواسطہ سیلز ٹیکس مینو فیکچررز نہیں خریدار ادا کرتے ہیں۔ غریب سرکاری ملازم کرائے کے گھر میں رہتا ہو، پانچ چھ بچے ہوں، ان کی تعلیم علاج معالجہ ٹرانسپورٹ لباس یوٹیلٹی بل کی ادائیگی کتنی مشکل ہے!
حکومتیں ہیں کہ قرضوں کا بوجھ بڑھاتی جا رہی ہیں۔ حکومت کی تعریف اور بلند و بانگ دعوے عوام کیلئے کس کام کے؟ وزراء اور انکے ہم نوائوں کا کام طبلہ بجانا ہے۔ بجٹ میں سرکاری طور پر اتنی مہنگائی ہوئی ہے تو غیر سرکاری طور پر کتنی لوٹ مار مچے گی! کاش پاکستان میں کوئی اپوزیشن ہوتی۔ 1800 صفحات پر مشتمل بجٹ دستاویزات کے بنڈل اراکین اسمبلی کیلئے ردی سے زیادہ نہیں کاش یہ فضول خرچی بھی نہ ہوتی!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38