اقتدار کا کھیل بھی بہت عجیب ہے۔ جس میں آج اگر کوئی عوام کے اعتماد بھروسے سے منصب حکمرانی پر جاتا ہے تو کل وہی عوام ان حکمرانوں کو اپنی امیدوں، آسوں اور امنگوں کو پورا نہ کرنے کی پاداش میں جن کو زمین سے آسمان تک عروج دیتے ہیں، آسمان سے زمین پر بھی لے آتے ہیں۔بات سیدھی اور سچی ہے کہ وہی عوام جو اپنے نمائندے اپنے اور ملکی مسائل کے حل کیلئے ایوان اقتدار تک لے جاتے ہیں۔ اپنے ارمانوں کا خون ہونے پر انہیں ایوانوں میں بھلا کیسے برداشت کر سکتے ہیں اسلئے جو بھی حکمران آئے۔ اگر عقل و شعور رکھتے ہوں تو وہ ہمیشہ عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے اعمال، کام کی بدولت امر ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر عوام راضی تو سمجھو رب راضی۔ پوری قوم تو میاں نواز شریف صاحب جب پہلی بار وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں مخاطب ہوئے تو انہوں نے فرمایاکہ ”جب انسان برے کام کرتا ہے تو حقیقت میں اپنی ذات کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے کیونکہ ہمیشہ برے کاموں کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے“۔مجھے ان کے یہ الفاظ یاد ہیں اور یہ بھی کہ ایسی سوچ کسی عام انسان کی نہیں ہو سکتی۔ جو شخص زندگی کی اس حقیقت سے واقف ہو تو وہ ہمیشہ پھونک پھونک کر ہی قدم رکھتا ہے کہ اگر وہ غلط کام کرے گا بھی تو اس کا نتیجہ بھی اسے ہی بھگتنا ہو گا۔ میاں نوازشریف صاحب نے 5جون کووزیراعظم کا حلف اُٹھایا۔ عوام میں ایک عام رائے پائی جا رہی ہے کہ انشاءاللہ میاں محمد نواز شریف ڈوبتی ناﺅ کو منجدھار سے نکالنے میں کامیاب ہو کر نجات دہندہ ثابت ہونگے۔ اس سلسلے میں میاں صاحب کو انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہونگے۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہونگے۔ عوام کو فوری ریلیف دینے کا بندوبست کرنا ہو گا۔ لوڈ شیڈنگ میں فوری کمی، رمضان المبارک میں عوامی توقعات اور امنگوں پر پورا اتریں کشمیر سمیت دیگر مسائل، طالبان سے مذاکرات کو عملی شکل دینا ہو گی۔ ایک کم ظرف اور اعلیٰ ظرف انسان میں فرق واضح ہوتا ہے کہ کم ظرف انسان کوئی عہدہ یا مقام ملنے پر پھوں پھاں کرتا پھرتا ہے۔ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ دولت، شہرت، عزت ، عہدہ سب عارضی اور چار دن کی چاندنی ہے جو آج کسی کے پاس کل کسی کے پاس ۔ جبکہ باشعور، اعلی ظرف انسان عزت، شہرت، عہدہ ہر چیز کو فانی سمجھ کر انکساری سے کام لیتا ہے اور قوم کے دردوں کا درماں بننے کی کوشش کرتا اور ہمیشہ کےلئے امر ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ جیسا کہ میاں نوازشریف صاحب نے بلوچستان میں ایثار و قربانی کی مثال قائم کرکے ثابت کیا کہ وہ اقتدار نہیں اقدار کی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔آخر میں میاں محمد نواز شریف سے گزارش ہے کہ وہ مشکل وقت کے ساتھیوں کو بھول نہ جائیں وہ ساتھی جنہوں نے ان کو اس مقام تک لے جانے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلچلاتی دھوپ میں، دماغ پگھلانے والی گرمی میں، مزدوروں کی طرح کام کیا اور انہیں منصب اقتدار تک پہنچانے کےلئے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی۔ ایسے کارکنوں اور ساتھیوں کے بارے میں منفی پروپیگنڈے پر یقین کئے بغیر ان کی دادرسی کریں۔ ان کی اپنے تک رسائی میں رکاوٹوں کو نہ آنے دیں کیونکہ انکے اور شہباز شریف صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر کارکن کے بارے میں خبر رکھتے ہیں تو پھر اس بار ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024