مسلم قوم کی بدقسمتی کہ ہم ”ایک مسلم قومیت“ کو فراموش بلکہ ترک کرکے علاقائی شناختوں، پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی یا بنگالی وغیرہ کو اپنی اپنی قومیت قرار دینے لگے۔ آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری میں ”فیڈریشن“ یا ”وفاق“ کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے:
”وفاق میں شامل ریاستوں (یعنی ملکوں) کا گروہ یا مختلف ریاستوں کا اپنی اندرونی خودمختاری قائم کرتے ہوئے حکومت قائم کرنا“گویا ہم پاکستانی مسلمان، قیام پاکستان کے مطالبے کے باوجود اب ایک قوم نہیں رہے، بلکہ متعدد مختلف اقوام یا ریاستیں ہیں اور ہم سب خود مختار ہیں اور محض چند علاقائی مفاد کی خاطر ایک ”فیڈریشن“ میں جمع ہو گئے ہیں۔یہ انتظام متعدد ملکوں پر مشتمل یورپی یونین سے کس طرح اور کس حد تک مختلف ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور ہرگز ایسا نہیں ہے تو ہماری ”مسلم قومیت“ کا تصور کہاں گم ہو گیا ہے!
حقیقت یہی ہے کہ وہ ”ہمارے“ یقین سے بالکل محو ہو چکا ہے اور ہم اپنے اللہ سے اپنی عہد شکنی اور ناشکری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
ایک وقت تھا کہ بنی اسرائیل بھی اللہ کی وحدانیت کو پس پشت ڈال کر گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوئے اور چالیس برس تک صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے۔ اللہ کی نعت کا من و سلویٰ بھی انہیں راس نہیں آیا۔ نافرمانی اور ناشکری کی پاداش میں انہیں حکم ہوا کہ بعض اپنے میں سے بعضوں کو قتل کریں۔
تاریخ میں ایسی مثالیں کم نہیں ہیں کہ اسکی نافرمانی اور ملت کی بدعملی کے باعث پوری کی پوری اقوام عبرت ناک سزا کے طور پر برق گرنے سے نیست و نابود ہو گئیں۔ یا انہیں سیلابوں میں غرقاب کر دیا گیا اور سینکڑوں برس کی سرسبز و شاداب سرزمینیں بنجر ہو کر رہ گئیں۔
کیا اب وقت نہیں ہے کہ ہم غور کریں کہ ہم مسلمان .... الہ واحد کو ماننے والے .... رحمت للعالمین کی امت .... نبی آخرالزماںﷺ کی شفاعت کے طلبگار۔ کیوں قوم اسرائیل والی ذلتوں اور عذابوں میں مبتلا ہیں! ایسی ہی اور بھی امتیں انہی حالات میں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کیلئے مٹ چکی ہیں!
مشہور کتاب ”نجم الامثال“ کی اشاعت بار چہارم 1925ءکے مطابق:
”کام پیارا ہے، چام پیارا نہیں“ جانے کتنی صدیوں سے یہ مثل اردو، ہندی، پنجابی اور دوسری زبانوں میں بڑے بوڑھوں سے لے کر بڑے بڑے دانش مندوں، ادیبوں اور بزرگوں میں پند و نصیحت کے طور پر وردِ زبان ہے۔ باری تعالیٰ کو بھی ہمارا ”کام“ یعنی ہمارا ”عمل“ درکار ہے، ”چام“ نہیں۔
اب وہ احساس زیاں یا ندابت کی کسک ہم محسوس یا تسلیم کریں یا نہ کریں، جس میں ہم من حیث القوم گرفتار ہیں، اور اس سے نجات کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں لیکن صد حیف کہ غلط سمتوں میں
یاد رہے جب تک ہم اس بنیادی حقیقت کی طرف نہیں لوٹتے جس کے لئے ہم نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور اسے عطا کرنے والے سے جو وعدہ و وعید کئے تھے، ان کے ایفا کے لئے قدم نہیں اٹھاتے، ہمارا حشر دوسری بے عہد اقوام اور بنی اسرائیل کی طرح صحرائے صدا میں ہی بھٹکتا رہے گا۔ کیونکہ اللہ کو بھی ہمارا چام نہیں کام (عمل) پیارا ہے۔
کیا یہ وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے خالق اور یہ وطن بخشنے والے مالک مطلق سے معافی طلب کرکے، تجدید عہد کریں اور قیام پاکستان کے معجزہ کو ایک بار پھر تازہ کرکے بھولی ہوئی راہ پر گامزن ہوں، اور کامیابی و کامرانی کی امید رکھیں۔
اب رب رحیم و کریم ہم سے بھول ہوئی، ہمیں معاف فرما، اور واپس صراطِ مسقیم پر ڈال۔ آمین۔(ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024