اللہ جس کو دیتا ہے تو اسکی آزمائش ہے کہ وہ دئیے ہوئے رزق سے ناداروں اور محتاجوں کو کیا دیتا ہے اور جس کو اللہ نہیں دیتا تو پھر اسکا امتحان ہے کہ وہ بندہ اپنے خالق پر کتنا قانع اور صابر ہے۔ اشفاق احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ خدا بندے کے رزق میں نادار اور مہمان کا رزق ڈال کر بھیجتا ہے۔ اگر وہ خوشی سے صرف نہیں کریگا تو اللہ کسی اور طریقے سے نکلوالے گا مگر پھر اسکا اجر کوئی نہیں ہوگا۔
اسلام کی دعوت کو دیکھ لیجئے، نبی اکرم نے سب سے زیادہ زور حقوق العباد پر دیا اور حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ تلقین نادار و مساکین کے حقوق کی گئی۔ خواہ وہ ضرورت مند ہمسائے ہوں یا نادار رشتہ دار۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا“۔ مفسر قرآن حضرت اقبالؒ نے جب اسے شعری قالب میں ڈھالا تو فرمایا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندوں بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
کئی روساءہوئے کہ دولت کو حرزِ جاں بنائے دنیا سے گزر گئے۔ کئی قارون نما رئیس خزانے دبائے بیٹھے رہے اور انہیں موت نے آلیا اور خالی ہاتھ قبر تک جاپہنچے۔ نظیر اکبر آبادی کے الفاظ میں ٹھاٹھ پڑا رہ گیا اور بنجارہ اگلی منزل کو بے ساماں روانہ ہوگیا۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جو نوازے گئے ہیں اور وہ اس میں سے اوروں کو نوازتے ہیں۔
پاکستان میں جن عظیم ہستیوں نے خود کو بھلا کر فلاح انسانیت کا بیڑہ اٹھایا، قوم نے ان پر اعتماد کیا اور پلکوں پر بٹھایا۔ انہوں نے لاکھوں مانگے تو کروڑوں ملے۔ کروڑوں مانگے تو اربوں ملے، جب اعتماد کیا تو تجوریاں نچھاور کردیں۔ ایسا ہی ایک یادگار منظر میں نے گزشتہ سے پیوستہ بدھ کو لاہور میں ایک اعلیٰ ضیافت خانے میں منعقدہ تقریب میں دیکھا کہ جب میزبان نے خیراتی ہسپتال کیلئے مدد کی درخواست کی تو مخیر حضرات نے موقع پر ہی کروڑوں نقد دیدئیے اور کروڑوں روپے کے وعدے کر ڈالے۔ یہ پروقار تقریب حجاز ہسپتال گلبرگ کے کارکنان نے ذاتی جیب سے منعقد کی تھی تاکہ خیراتی پیسہ درست کام پر ہی لگے۔
ہم سر گنگا رام، گلاب دیوی، جانکی دیوی اور محترمہ ثریا عظیم کی مثالیں سنتے تھے کہ انہوں نے انسانیت کی خاطر سب کچھ وقف کردیا، مگر یقین نہ آیا کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ اس فری ہسپتال کے بانی جناب حاجی انعام الٰہی نے پہلے اپنی تمام جائیداد ہسپتال کو عطیہ کی اور پھر دوسروں سے عطیات کی درخواست کی، حتیٰ کہ بعدازاں اسی ہسپتال میں بلامعاوضہ بطور پروجیکٹ ڈائریکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ہر سال کروڑوں روپے سے ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کرنے والا حجاز ہسپتال اب تنگی¿ داماں کا شکار ہے۔ ہر سال ہزاروں مریض جگہ نہ ہونے کے باعث مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ اب توسیع ہسپتال کیلئے 15 کروڑ روپے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی مریض کی امید نہ ٹوٹے اور کسی گھر کا دیا بیماری سے بجھنے نہ پائے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف تھے جنہوں نے اپنی پہلی فرصت میں ہسپتال کا وزٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا حصہ ڈالنے کا بھی وعدہ کیا۔ مخیر حضرات اور مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب کے وعدے اپنی جگہ، مگر آپ کا اور میرا فرض بھی بنتا ہے کہ ہم بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ 18 کروڑ آبادی کے ملک میں 3 کروڑ ایسے افراد ضرور ہوں گے جو 5 روپے فی کس دیکر 15 کروڑ پورے کردیں۔ اس کا اجر صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ کسی کا عمل بے ثمر نہیں جانے دیتا۔
٭٭٭
اسلام کی دعوت کو دیکھ لیجئے، نبی اکرم نے سب سے زیادہ زور حقوق العباد پر دیا اور حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ تلقین نادار و مساکین کے حقوق کی گئی۔ خواہ وہ ضرورت مند ہمسائے ہوں یا نادار رشتہ دار۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا“۔ مفسر قرآن حضرت اقبالؒ نے جب اسے شعری قالب میں ڈھالا تو فرمایا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندوں بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
کئی روساءہوئے کہ دولت کو حرزِ جاں بنائے دنیا سے گزر گئے۔ کئی قارون نما رئیس خزانے دبائے بیٹھے رہے اور انہیں موت نے آلیا اور خالی ہاتھ قبر تک جاپہنچے۔ نظیر اکبر آبادی کے الفاظ میں ٹھاٹھ پڑا رہ گیا اور بنجارہ اگلی منزل کو بے ساماں روانہ ہوگیا۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جو نوازے گئے ہیں اور وہ اس میں سے اوروں کو نوازتے ہیں۔
پاکستان میں جن عظیم ہستیوں نے خود کو بھلا کر فلاح انسانیت کا بیڑہ اٹھایا، قوم نے ان پر اعتماد کیا اور پلکوں پر بٹھایا۔ انہوں نے لاکھوں مانگے تو کروڑوں ملے۔ کروڑوں مانگے تو اربوں ملے، جب اعتماد کیا تو تجوریاں نچھاور کردیں۔ ایسا ہی ایک یادگار منظر میں نے گزشتہ سے پیوستہ بدھ کو لاہور میں ایک اعلیٰ ضیافت خانے میں منعقدہ تقریب میں دیکھا کہ جب میزبان نے خیراتی ہسپتال کیلئے مدد کی درخواست کی تو مخیر حضرات نے موقع پر ہی کروڑوں نقد دیدئیے اور کروڑوں روپے کے وعدے کر ڈالے۔ یہ پروقار تقریب حجاز ہسپتال گلبرگ کے کارکنان نے ذاتی جیب سے منعقد کی تھی تاکہ خیراتی پیسہ درست کام پر ہی لگے۔
ہم سر گنگا رام، گلاب دیوی، جانکی دیوی اور محترمہ ثریا عظیم کی مثالیں سنتے تھے کہ انہوں نے انسانیت کی خاطر سب کچھ وقف کردیا، مگر یقین نہ آیا کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ اس فری ہسپتال کے بانی جناب حاجی انعام الٰہی نے پہلے اپنی تمام جائیداد ہسپتال کو عطیہ کی اور پھر دوسروں سے عطیات کی درخواست کی، حتیٰ کہ بعدازاں اسی ہسپتال میں بلامعاوضہ بطور پروجیکٹ ڈائریکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ہر سال کروڑوں روپے سے ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کرنے والا حجاز ہسپتال اب تنگی¿ داماں کا شکار ہے۔ ہر سال ہزاروں مریض جگہ نہ ہونے کے باعث مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ اب توسیع ہسپتال کیلئے 15 کروڑ روپے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی مریض کی امید نہ ٹوٹے اور کسی گھر کا دیا بیماری سے بجھنے نہ پائے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف تھے جنہوں نے اپنی پہلی فرصت میں ہسپتال کا وزٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا حصہ ڈالنے کا بھی وعدہ کیا۔ مخیر حضرات اور مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب کے وعدے اپنی جگہ، مگر آپ کا اور میرا فرض بھی بنتا ہے کہ ہم بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ 18 کروڑ آبادی کے ملک میں 3 کروڑ ایسے افراد ضرور ہوں گے جو 5 روپے فی کس دیکر 15 کروڑ پورے کردیں۔ اس کا اجر صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ کسی کا عمل بے ثمر نہیں جانے دیتا۔
٭٭٭