یوں گواہی بھی دیتا ہے لہو
دستِ منصف سے ٹپکتا ہے لہو
مانگنے کو آج خود اپنا خراج
شہر کی سڑکوں پر نکلا ہے لہو
زندگی کا خون دھرتی پر ہوا
آسماں سے کیوں برستا ہے لہو
عہدِ غم میں جن کے آنسو چھن گئے
اُن کی آنکھوں میں اُترتا ہے لہو
قاتلوں کے رنگ کیوں اُڑنے لگے
اُن سے کہہ دو رنگ لاتا ہے لہو
توفیق بٹ
دستِ منصف سے ٹپکتا ہے لہو
مانگنے کو آج خود اپنا خراج
شہر کی سڑکوں پر نکلا ہے لہو
زندگی کا خون دھرتی پر ہوا
آسماں سے کیوں برستا ہے لہو
عہدِ غم میں جن کے آنسو چھن گئے
اُن کی آنکھوں میں اُترتا ہے لہو
قاتلوں کے رنگ کیوں اُڑنے لگے
اُن سے کہہ دو رنگ لاتا ہے لہو
توفیق بٹ