تقریب سنگ بنیاد ایوان قائداعظم.... نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور قوم کیلئے ایک تاریخ ساز دن
ایک ایسے علاقائی اور عالمی پس منظر میں جبکہ بھارت اور کئی مغربی طاقتیں پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ترین ملک قرار دینے کے پروپیگنڈے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترمی مجید نظامی نے دشمنوں کے غلیظ پروپیگنڈے اور سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے قائداعظم کے ویژن کو مزید ٹھوس اقدامات کی صورت میں 6 جون 2009ء بروز ہفتہ لاہور میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں سے ایوان قائداعظم کا سنگ بنیاد رکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ ایوان قائداعظم کی تعمیر سے وہ شمع آزادی مزید روشن تر ہو جائے گی۔ جس کا سنگ بنیادی انسانی تاریخ کی بے مثال جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد مسلمانان ہندوستان نے 14 اگست 1947ء کے تاریخ ساز دن قائداعظم کی قیادت میں رکھتے ہوئے دنیا کا جغرافیہ ایک نظریاتی مملکت کے وجود میں آنے کے باعث تبدیل کر دیا تھا۔ مملکت خداداد کو روز اول سے ہی جن سازشوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں نے اپنی سازشیں جاری رکھیں اور دسمبر 1971ء میں ملک کو دولخت کرنے کے بعد بھارتی وزیراعظم شیریمتی اندرا گاندھی نے اعلان کیا کہ دو قومی نظریہ کو جو محمد علی جناح کے تصور پاکستان کی اساس ہے خلیج بنگال میں غرقآب کر دیا گیا ہے۔ لیکن تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔ اہل پاکستان نے مشکلات اور نت نئے چیلنجز کے باوجود ثابت کر دیا کہ
باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
نظریاتی قافلے جب اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو اس میں کارکنوں کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جو عقل و شعور سے کام لے کر پوری دیانتداری کے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے ہیں یہی کارکن آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ قیمتی سرمایہ تھے جنہوں نے 14 اگست 1947ء کے مبارک دن یوم آزادی کی کامیابی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ان میں حمید نظامی مرحوم و مغفور کا نام نامی قائداعظم کے ساتھیوں میں ایک قابل صد احترام نام ہے لیکن ہر بڑی عوامی تحریک ہر ملک میں ایک حصہ ایسے کارکنوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جو وقتی جوش ولولے یا ایسے ہی کسی اور جذبہ محرکہ سے مغلوب ہو کر ساتھ چل پڑتا ہے۔ایسے لوگ بھی شامل سفر ہوتے ہیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سوچ اور عمل کا رخ بدل لیتے ہیں ایسے عناصر کے باعث ہی شہر لاہور میں 1952ء کا پہلا مارشل لاء لگا 1954ء میں مسلم لیگ کی حکومت پنجاب اور مشرقی پاکستان میں ختم ہوئی اور اس کے دوران مارشل لاء کے کئی ادوار آئے لیکن اپنی زندگی کے آخری سانس تک حمید نظامی اور ان کے بعد محترمی مجید نظامی ایسے قابل قدر قائدین کی صف میں آتے ہیں کہ قائداعظم کے ویژن سے لگن اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربلندی کا عزم ان کے دلوں اور رگ وپے میں اس حد تک راسخ ہو جاتا ہے کہ یہ عزم ان کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ حمید نظامی کی پوری حیات کی داستان اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اور جہاں تک مجید نظامی کے اٹل عزم کا تعلق ہے اپنے دل کے 3 عدد آپریشن ہو جانے کے باوجود وہ ہمہ وقت قائداعظم کے ویژن کے سفر کی تکمیل کے سفر پر نہایت تندہی سے گامزن ہیں۔ تائید الٰہی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
چنانچہ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ مارشل لاء کے دور کی جدوجہد سے سنبھلنے کے بعد 14 جولائی 1992ء کو مجید نظامی نے پاکستان موومنٹ کے ایک درویش صفت کارکن جناب غلام حیدر وائیں کے تعاون سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ یہ مرد مجاہد نظامی صاحب کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ابتدائی ایام میں ہی کئی مشکلات میں گہرا ہوا چھوڑ کر 29 دسمبر 1993ء کو جام شہادت نوش کر گیا لیکن محترمی مجید نظامی نے نہ صرف نظریہ پاکستان بلکہ اس کے ساتھ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں تحریک پاکستان ورکر ٹرسٹ کے فعال کردار خصوصاً تحریک پاکستان کے قابل قدر کارکنوں کو عطائے گولڈ میڈل کا مستحسن مشن آگے بڑھایا۔ محترمی مجید نظامی ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال اور ان کے دیگر مخلص ساتھیوں کے بے لوث جذبہ اور قائداعظم کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کی شبانہ روز کاوشوں نے بالآخر اپنا رنگ دکھایا اور 7 اگست 2008ء کو حکومت پنجاب نے پنجاب اسمبلی میں اتفاق رائے سے ایک متفقہ قانون منظور کرتے ہوئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو باقاعدہ قانونی شکل دیدی۔ حکومت پنجاب کی طرف سے محترمی مجید نظامی کی قومی خدمات اور نظریہ پاکستان کے فروغ کو تقویت کہ منطقی اعتراف یعنی قیام پاکستان کے بنیادی مقصد ’’ایک جدید جمہوری اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام‘‘ کے لئے بلاتاخیر کاوش کی جائے نہ صرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ بلکہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا بھی مشترکہ مشن ہونا چاہئے۔اس سلسلہ میں وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی 21 جولائی 2008ء کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں تشریف لائے اور چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ جناب مجید نظامی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں اعلان فرمایا ’’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو جوہر ٹائون لاہور میں الاٹ شدہ زمین پر ایوان قائداعظم کی تعمیر جلد از جلد شروع کر دی جائے گی۔ میں اس کے لئے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتا ہوں اور جیسا کہ جناب مجید نظامی نے خواہش کا اظہار فرمایا ہے اس منصوبے کا سنگ بنیاد عنقریب میں خود رکھوں گا۔ 10 کروڑ کا اعلان وہ پہلے کر چکے تھے۔
محترمی جناب مجید نظامی صاحب اور محترمی سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم پاکستان پوری قوم کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایوان قائداعظم کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے ہر دو اکابرین نے حضرت قائداعظم اور مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے ویژن اور افکار کی طرف متوجہ ہونے کا ایک خوبصورت قومی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا راستہ آسان کر دیا ہے۔ ایوان قائداعظم کی تعمیر کی تکمیل سے قائداعظم کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے کئی بند دروازے اندھیروں میں روشنی کے چراغ جل جانے سے خود بخود کھل جائیں گے۔مثال کے طور پر جب ہم ایک جدید جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی خواہش کا ذکر کرتے ہیں تو ہر طرف سے ان گنت اندرونی و بیرونی چیلنجز کے باعث قومی منزل کی طرف جانے والے راستوں پر قفل لگے ہوئے نظر آتے ہیں جو صورتحال آج وطن عزیز کو درپیش ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے مثال کے طور پر شعبہ تعلیم کو ہی لے لیجئے ایک سابق وزیر تعلیم قرآن کریم فرقان حمیدکے سپاروں کی تعداد سے ہی نابلد و ناآشنا تھا کسی مسلمان ملک کے مسلمان وزیر تعلیم کے شعور پر اس سے بڑا تالا اور کیا ہو سکتا ہے جو حکومت اپنے 60 فیصد ان پڑھ شہریوں پر اپنے سالانہ GDP کا ایک فیصد بھی خرچ نہ کرے وہ قائداعظم کو اور اس سے بڑھ کر اپنے رب کو یوم حساب کیا منہ دکھائی گی۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ایوان قائداعظم کی تعمیر سے ایک ایسا قومی ادارہ وجود میں آ جانے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لئے اسلامی فکر کے فروغ اور نشوو نما کے لئے ایک صحیح تجربہ گاہ اور تھنک ٹینک کا کردار ادا کر سکے گا۔ (انشاء اللہ)
باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
نظریاتی قافلے جب اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو اس میں کارکنوں کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جو عقل و شعور سے کام لے کر پوری دیانتداری کے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے ہیں یہی کارکن آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ قیمتی سرمایہ تھے جنہوں نے 14 اگست 1947ء کے مبارک دن یوم آزادی کی کامیابی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ان میں حمید نظامی مرحوم و مغفور کا نام نامی قائداعظم کے ساتھیوں میں ایک قابل صد احترام نام ہے لیکن ہر بڑی عوامی تحریک ہر ملک میں ایک حصہ ایسے کارکنوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جو وقتی جوش ولولے یا ایسے ہی کسی اور جذبہ محرکہ سے مغلوب ہو کر ساتھ چل پڑتا ہے۔ایسے لوگ بھی شامل سفر ہوتے ہیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سوچ اور عمل کا رخ بدل لیتے ہیں ایسے عناصر کے باعث ہی شہر لاہور میں 1952ء کا پہلا مارشل لاء لگا 1954ء میں مسلم لیگ کی حکومت پنجاب اور مشرقی پاکستان میں ختم ہوئی اور اس کے دوران مارشل لاء کے کئی ادوار آئے لیکن اپنی زندگی کے آخری سانس تک حمید نظامی اور ان کے بعد محترمی مجید نظامی ایسے قابل قدر قائدین کی صف میں آتے ہیں کہ قائداعظم کے ویژن سے لگن اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربلندی کا عزم ان کے دلوں اور رگ وپے میں اس حد تک راسخ ہو جاتا ہے کہ یہ عزم ان کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ حمید نظامی کی پوری حیات کی داستان اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اور جہاں تک مجید نظامی کے اٹل عزم کا تعلق ہے اپنے دل کے 3 عدد آپریشن ہو جانے کے باوجود وہ ہمہ وقت قائداعظم کے ویژن کے سفر کی تکمیل کے سفر پر نہایت تندہی سے گامزن ہیں۔ تائید الٰہی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
چنانچہ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ مارشل لاء کے دور کی جدوجہد سے سنبھلنے کے بعد 14 جولائی 1992ء کو مجید نظامی نے پاکستان موومنٹ کے ایک درویش صفت کارکن جناب غلام حیدر وائیں کے تعاون سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ یہ مرد مجاہد نظامی صاحب کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ابتدائی ایام میں ہی کئی مشکلات میں گہرا ہوا چھوڑ کر 29 دسمبر 1993ء کو جام شہادت نوش کر گیا لیکن محترمی مجید نظامی نے نہ صرف نظریہ پاکستان بلکہ اس کے ساتھ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں تحریک پاکستان ورکر ٹرسٹ کے فعال کردار خصوصاً تحریک پاکستان کے قابل قدر کارکنوں کو عطائے گولڈ میڈل کا مستحسن مشن آگے بڑھایا۔ محترمی مجید نظامی ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال اور ان کے دیگر مخلص ساتھیوں کے بے لوث جذبہ اور قائداعظم کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کی شبانہ روز کاوشوں نے بالآخر اپنا رنگ دکھایا اور 7 اگست 2008ء کو حکومت پنجاب نے پنجاب اسمبلی میں اتفاق رائے سے ایک متفقہ قانون منظور کرتے ہوئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو باقاعدہ قانونی شکل دیدی۔ حکومت پنجاب کی طرف سے محترمی مجید نظامی کی قومی خدمات اور نظریہ پاکستان کے فروغ کو تقویت کہ منطقی اعتراف یعنی قیام پاکستان کے بنیادی مقصد ’’ایک جدید جمہوری اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام‘‘ کے لئے بلاتاخیر کاوش کی جائے نہ صرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ بلکہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا بھی مشترکہ مشن ہونا چاہئے۔اس سلسلہ میں وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی 21 جولائی 2008ء کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں تشریف لائے اور چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ جناب مجید نظامی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں اعلان فرمایا ’’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو جوہر ٹائون لاہور میں الاٹ شدہ زمین پر ایوان قائداعظم کی تعمیر جلد از جلد شروع کر دی جائے گی۔ میں اس کے لئے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتا ہوں اور جیسا کہ جناب مجید نظامی نے خواہش کا اظہار فرمایا ہے اس منصوبے کا سنگ بنیاد عنقریب میں خود رکھوں گا۔ 10 کروڑ کا اعلان وہ پہلے کر چکے تھے۔
محترمی جناب مجید نظامی صاحب اور محترمی سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم پاکستان پوری قوم کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایوان قائداعظم کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے ہر دو اکابرین نے حضرت قائداعظم اور مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے ویژن اور افکار کی طرف متوجہ ہونے کا ایک خوبصورت قومی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا راستہ آسان کر دیا ہے۔ ایوان قائداعظم کی تعمیر کی تکمیل سے قائداعظم کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے کئی بند دروازے اندھیروں میں روشنی کے چراغ جل جانے سے خود بخود کھل جائیں گے۔مثال کے طور پر جب ہم ایک جدید جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی خواہش کا ذکر کرتے ہیں تو ہر طرف سے ان گنت اندرونی و بیرونی چیلنجز کے باعث قومی منزل کی طرف جانے والے راستوں پر قفل لگے ہوئے نظر آتے ہیں جو صورتحال آج وطن عزیز کو درپیش ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے مثال کے طور پر شعبہ تعلیم کو ہی لے لیجئے ایک سابق وزیر تعلیم قرآن کریم فرقان حمیدکے سپاروں کی تعداد سے ہی نابلد و ناآشنا تھا کسی مسلمان ملک کے مسلمان وزیر تعلیم کے شعور پر اس سے بڑا تالا اور کیا ہو سکتا ہے جو حکومت اپنے 60 فیصد ان پڑھ شہریوں پر اپنے سالانہ GDP کا ایک فیصد بھی خرچ نہ کرے وہ قائداعظم کو اور اس سے بڑھ کر اپنے رب کو یوم حساب کیا منہ دکھائی گی۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ایوان قائداعظم کی تعمیر سے ایک ایسا قومی ادارہ وجود میں آ جانے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لئے اسلامی فکر کے فروغ اور نشوو نما کے لئے ایک صحیح تجربہ گاہ اور تھنک ٹینک کا کردار ادا کر سکے گا۔ (انشاء اللہ)