یوں محسوس ہوتا ہے، ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور بجھانے والا کوئی نہیں۔ کہیں دہشت گردی، کہیں اندھیر نگری، کہیں چیرہ دستی، کہیں مجرموں کو کھلی چھوٹ، کہیںبجلی کی لوڈ شیڈنگ پر احتجاج، کہیں پانی کی قلت پر فساد، کہیں افسران کی مارا ماری، کہیں عوام کی لاچاری، کوئی چہرہ مطمئن نہیں، کوئی پیشانی تیوڑیوں سے پاک نہیں، مہنگائی کا عذاب الگ اور بدامنی سے فضائوں پر طاری خوف الگ، ہر طرف رونا ہی رونا ہے، شائد لوگ ہنسنا بھول گئے ہیں۔
یہی وہ ماحول ہے جس کا ’’نتارا‘‘ کرتے ہوئے سٹیٹ بنک نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ ترقیاتی اخراجات میں کمی سے شدت پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور عوام میں احساس محرومی بڑھے گا۔
یہ اصول فطرت ہے، جس معاشرے میں انسانوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا اور جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنے کیلئے کوئی حیلہ، کوئی چارہ نہیں بن پائے گا تو اس معاشرہ کے یہی انسان وحشی بن جائیں گے۔ بھوکے مرنے لگیں گے تو خود کو کاٹیں گے،؎ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔
فلاحی ریاست کا یہی تصور ہوتا ہے کہ اس کے کسی شہری کو فکر معاش ہو نہ وسائل کی کمی کا غم، ہر شہری کی بنیادی ضرورتیں بلاامتیاز پوری ہو رہی ہوں اور کسی کے سر پر خاندان کی کفالت نہ کرپانے کا کوئی بوجھ نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں سسٹم کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ چاہے فوجی آمریت مسلط کردی جائے یا شخصی، نظام کو سلطانی ٔ جمہور کا نام دے دیا جائے یا اسے منارقی کے کھاتے میں ڈال دیا جائے، لوگ مطمئن ہو ں گے تو اپنی زندگی میں مست رہیں گے اور اپنے حکمرانوں کی ذاتی بداعمالیوں، کج فہمیوں، اپنی تجوریاں بھرنے والی خصلتوں اور ریاست کے معاملات میں ان کی بے تدبیریوں کی جانب بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ اگر وہ بھوکے ہوں گے، بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہوں گے، بجلی، پانی، گیس کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں گے، مہنگائی سے عاجز آئے ہوں گے اور بدامنی کے مارے ہوں گے تو اپنے حاکموں کے گلے پڑنے کو دوڑیں گے چاہے وہ ذاتی طور پر کتنے ہی صاف شفاف کیوں نہ ہوں۔عوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ تبھی کرتے ہیں جب انہیں اپنی آسودگی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور کسی معاشرے میں خونیں انقلاب کی بنیاد بھی اس معاشرے کے شہریوں کی بے چینی بنتی ہے۔آپ عوام کو جتنے مرضی سہانے خواب دکھا لیں، انہیں ان کے تابناک مستقبل کی جتنی مرضی تصویریں بنا بنا کر دکھا لیں، وہ مسائل اور مصائب کا شکار ہوں گے تو اپنے حکمرانوں کے کسی وعدے، کسی نعرے سے مطمئن نہیں ہوں گے، بالخصوص میڈیا کی پیدا کردہ آگاہی کے موجودہ دور میں۔ اس لئے اب اقتدار صرف ضرب المثال کے طور پر نہیں، فی الواقع کانٹوں کی سیج ہے۔
آج فی الواقع ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی شہری مطمئن نظر نہیں آتا۔ وہ اپنے روزمرہ کے مسائل کا بھی مارا ہوا ہے اور ملک کی درگت بنتی دیکھ کر بھی مضطرب ہے۔ یہی وہ حالات ہیںجو سٹیٹ بنک کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مضطرب، مجبور اور حالات کے ستائے بے بس، بے روزگار، بھوکے انسانوں کو جرائم کی دنیا کے بھٹکاوے والے راستے کی جانب لے جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں انہیں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کے مذموم منصوبوں میں شریک ہونا، حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کے جال بننا اور ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے ارادوں کو بڑھاوا دینا اچھا لگتا ہے کیونکہ اپنے جبر کے حالات کے ردعمل میں ان کا حب الوطنی کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔
گزشتہ روز کورنگی کراچی میں پانی کی مسلسل بندش کے ستائے لوگ جس طرح بپھر کر سڑکوں پر آئے اور پولیس کی بے دریغ ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے شیلوں کی بھی پرواہ نہ کی، اس سے حکمرانوں کو بخوبی اندازہ لگا لینا چاہئے کہ وہ عوام کو وسائل سے محروم کرکے اوران کیلئے مسائل کے انبار لگا کر اپنے اقتدار کے ایوانوں میں کتنے محفوظ ہیں۔ اگر ہماری گزارشات آپ کو بھلی معلوم نہ ہوں تو اپنے سٹیٹ بنک کی سہ ماہی رپورٹ کا ہی مطالعہ اور اس کی روشنی میں اپنے ارد گرد کے حالات کا مشاہدہ فرما لیں شائد آپ کیلئے عوام کے غضب سے بچنے میں آسانی ہو جائے۔
یہی وہ ماحول ہے جس کا ’’نتارا‘‘ کرتے ہوئے سٹیٹ بنک نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ ترقیاتی اخراجات میں کمی سے شدت پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور عوام میں احساس محرومی بڑھے گا۔
یہ اصول فطرت ہے، جس معاشرے میں انسانوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا اور جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنے کیلئے کوئی حیلہ، کوئی چارہ نہیں بن پائے گا تو اس معاشرہ کے یہی انسان وحشی بن جائیں گے۔ بھوکے مرنے لگیں گے تو خود کو کاٹیں گے،؎ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔
فلاحی ریاست کا یہی تصور ہوتا ہے کہ اس کے کسی شہری کو فکر معاش ہو نہ وسائل کی کمی کا غم، ہر شہری کی بنیادی ضرورتیں بلاامتیاز پوری ہو رہی ہوں اور کسی کے سر پر خاندان کی کفالت نہ کرپانے کا کوئی بوجھ نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں سسٹم کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ چاہے فوجی آمریت مسلط کردی جائے یا شخصی، نظام کو سلطانی ٔ جمہور کا نام دے دیا جائے یا اسے منارقی کے کھاتے میں ڈال دیا جائے، لوگ مطمئن ہو ں گے تو اپنی زندگی میں مست رہیں گے اور اپنے حکمرانوں کی ذاتی بداعمالیوں، کج فہمیوں، اپنی تجوریاں بھرنے والی خصلتوں اور ریاست کے معاملات میں ان کی بے تدبیریوں کی جانب بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ اگر وہ بھوکے ہوں گے، بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہوں گے، بجلی، پانی، گیس کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں گے، مہنگائی سے عاجز آئے ہوں گے اور بدامنی کے مارے ہوں گے تو اپنے حاکموں کے گلے پڑنے کو دوڑیں گے چاہے وہ ذاتی طور پر کتنے ہی صاف شفاف کیوں نہ ہوں۔عوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ تبھی کرتے ہیں جب انہیں اپنی آسودگی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور کسی معاشرے میں خونیں انقلاب کی بنیاد بھی اس معاشرے کے شہریوں کی بے چینی بنتی ہے۔آپ عوام کو جتنے مرضی سہانے خواب دکھا لیں، انہیں ان کے تابناک مستقبل کی جتنی مرضی تصویریں بنا بنا کر دکھا لیں، وہ مسائل اور مصائب کا شکار ہوں گے تو اپنے حکمرانوں کے کسی وعدے، کسی نعرے سے مطمئن نہیں ہوں گے، بالخصوص میڈیا کی پیدا کردہ آگاہی کے موجودہ دور میں۔ اس لئے اب اقتدار صرف ضرب المثال کے طور پر نہیں، فی الواقع کانٹوں کی سیج ہے۔
آج فی الواقع ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی شہری مطمئن نظر نہیں آتا۔ وہ اپنے روزمرہ کے مسائل کا بھی مارا ہوا ہے اور ملک کی درگت بنتی دیکھ کر بھی مضطرب ہے۔ یہی وہ حالات ہیںجو سٹیٹ بنک کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مضطرب، مجبور اور حالات کے ستائے بے بس، بے روزگار، بھوکے انسانوں کو جرائم کی دنیا کے بھٹکاوے والے راستے کی جانب لے جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں انہیں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کے مذموم منصوبوں میں شریک ہونا، حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کے جال بننا اور ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے ارادوں کو بڑھاوا دینا اچھا لگتا ہے کیونکہ اپنے جبر کے حالات کے ردعمل میں ان کا حب الوطنی کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔
گزشتہ روز کورنگی کراچی میں پانی کی مسلسل بندش کے ستائے لوگ جس طرح بپھر کر سڑکوں پر آئے اور پولیس کی بے دریغ ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے شیلوں کی بھی پرواہ نہ کی، اس سے حکمرانوں کو بخوبی اندازہ لگا لینا چاہئے کہ وہ عوام کو وسائل سے محروم کرکے اوران کیلئے مسائل کے انبار لگا کر اپنے اقتدار کے ایوانوں میں کتنے محفوظ ہیں۔ اگر ہماری گزارشات آپ کو بھلی معلوم نہ ہوں تو اپنے سٹیٹ بنک کی سہ ماہی رپورٹ کا ہی مطالعہ اور اس کی روشنی میں اپنے ارد گرد کے حالات کا مشاہدہ فرما لیں شائد آپ کیلئے عوام کے غضب سے بچنے میں آسانی ہو جائے۔