اوباما نے اگرچہ اعتراف کیا ہے کہ مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں لیکن وہ افغانستان میں فوج کے ذریعے جنگی کارروائیاں جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ قول و فعل کا یہ تضاد کیوں؟ اگر صدرِ امریکہ اس خطے میں واقعی پائیدار امن کے طالب ہیں۔ تو بہتر یہی ہے کہ مسئلہ افغانستان کا سیاسی حل نکالا جائے۔ طالبان کی قوت کو امریکہ ختم کر سکا ہے نہ پاکستان کی فوج‘ نہ یہ کسی تیسری طاقت کے بس کا روگ ہے اس لئے کہ افغان عوام کی اکثریت کے اندر انہیں پذیرائی حاصل ہے۔ وہ انہی میں سے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لوگ بھی انہیں اجنبی نہیں سمجھتے‘ لہٰذا واحد اور مؤثر ترین راہ عمل یہی ہے کہ طالبان کے نمائندہ گروہوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔ افغان عوام کے جمہوری حق کو تسلیم کیا جائے۔ آئندہ ماہ اگست میں صدر کرزئی یا ان جیسے کسی اور امریکی پٹھو کو صدر منتخب کرانے کی بجائے حقیقی نمائندہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔ اسی کے ساتھ قیام امن کے معاہدے کئے جائیں اور عراق کی مانند امریکہ افغانستان سے بھی اپنی اور ناٹو کی افواج کی جلد از جلد واپسی کا ٹائم ٹیبل دے۔ اگر صدر اوباما کی تقریر ایسے اقدامات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے تو بلاشبہ تاریخی کہلائے گی۔ بصورت دیگر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بے اثر ہوتی جائے گی۔
صدر اوباما تقریر کے دوران مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب بہت زیادہ متوجہ ہوئے۔ انہوں نے اسرائیل کے زندہ رہنے کے ’’حق‘‘ کا بھرپور دفاع کیا۔ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کی دو ریاستی نظرئیے کے حق میں آواز بلند کی اہل فلسطین خاص طور پر حماس سے تشدد ترک کر دینے کی اپیل کی لیکن انہیں اسرائیل سے یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ بے گناہ فلسطینی عوام کے خلاف ریاست کی طاقت کے بے محابا استعمال اور وحشیانہ طریقے سے ارض فلسطین کے بچوں‘ بوڑھوں عورتوں کی ہلاکت والی پالیسیاں بند کرے۔ اگر اسرائیل اندھا دھند بم برساتا رہے تو کیا فلسطینیوں کو جواب میں پتھر مارنے کا بھی حق نہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ نازی جرمنی نے 60 لاکھ یہودیوں کو مار ڈالا۔ اگر اس تعداد کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا اس ظلم کا ذمہ دار کوئی ایک بھی فلسطینی‘ عرب‘ یا دنیا کے کسی بھی مقام پر رہنے والا مسلمان ہے جس کا بدلہ ان سے اب تک لیا جا رہا ہے۔ نازی جرمنی یورپ کا حصہ
تھا۔ ہٹلر کی قوم سو فیصد عیسائیوں پر مشتمل تھی یا وہاں پر یہودیوں کی اقلیت آباد تھی۔ اگر کوئی تنازعہ تھا تو ان کے درمیان تھا مسلمان‘ عرب یا فلسطینی ہرگز بیچ میں نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ صدر اوباما نے مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کو بھی غلط کہا لیکن اسرائیل کو انہیں ختم کرنے کا کوئی الٹی میٹم نہیں دیا اگر ان میں اتنے سے اقدام کی جرات نہیں تو وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں کیسے مددگار ثابت ہونگے۔ آج سے کچھ 53 برس پہلے ایک امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے سویز کی جنگ کے دوران اسرائیل کو متنبیٰ کیا تھا کہ وہ صحرائے سینا کو خالی کر دے۔ یہودی ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گی۔ برطانیہ اور فرانس کو بھی جنگ ختم کرنا پڑی۔ اس کے بعد یہودیوں نے امریکہ کے اندر ایسی موثر لابی قائم کی۔ وہاں کی پے درپے حکومتوں اور کانگرس کے اندر اس حد تک نفوذ حاصل کر لیا کہ پھر کسی امریکی صدر کو اسرائیل کے ظلم اور جارحیت کے خلاف ایک لفظ کہنے کا یارا نہ ہوا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی صدر اور حکومت اپنی کانگریس سمیت یہودی لابی کی جادونگری سے نکل کر باہر آ جائیں۔ عالمِ اسلام اور دنیائے عرب کو اسرائیل کی بجائے اپنی اور حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھیں۔ مسئلہ فلسطین کے پائیدار اور پرامن حل تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ (جاری ہے)
صدر اوباما نے ایک اہم مسلمان مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچ کر وہاں کی دنیوی علوم کی یونیورسٹی اور عالمِ اسلام کی سب سے مشہور اور پرانی دینی درسگاہ جامع الازھر کے مشترکہ پلیٹ فارم سے مسلمانانِ عالم سے مخاطب ہو کر عملاً ایک اہم حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ وہ یہ کہ امت مسلمہ اپنا وجود بھی رکھتی ہے۔ اسے منوانا بھی جانتی ہے اور وائٹ ہاؤس کے حکمران اس کی طاقت کو محسوس بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ صدر بش اور ان کے نوقدامت پسند ساتھیوں نے آج سے 8 سال پہلے جب عالم اسلام کے خلاف کروسیڈی جنگ کا آغاز کیا تھا تو واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپان پر ایٹم بم برسا کر اسے تابع فرمان بنا لیا۔ بیسویوں صدی کے اختتام پر پاکستان کے ذریعے افغانستان کی جنگ لڑ کر سوویت یونین جیسے مقابلے کے رقیب کو نیچا دکھا دیا۔ کمیونسٹ سپر طاقت کے اجزائے ترکیبی منتشر ہو گئے۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کے خلاف تہذیبی تصادم برپا کر کے اسلام کی سیاسی طاقت کو ختم کر دیں گے۔ اوباما کی تقریر نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کو اس مشن میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ عالم اسلام جاپان ہے نہ کمیونسٹ طاقت یہ ایک پائیدار حقیت ہے جس کے پاس دنیا کی ایک تہائی آبادی اور زندہ و توانا تہذیب یہ دبنے یا ٹوٹنے والی چیز نہیں۔ صدر امریکہ نے اسلام کی تہذیبی برتری اور امت مسلمہ کے تشخص کو کھلے عام تسلیم کیا ہے۔ کیا ہمارے نام نہاد لبرل دانشور بھی اس منہ بولتی حقیقت کا اعتراف کر لیں گے؟ وہ دانشور جن کے لئے واشنگٹن اور نیویارک سے نازل ہونے والا ہر لفظ جملہ اور ترکیب وحی کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح صدرِ امریکہ نے دورانِ تقریر دہشت گردی کی ترکیب کو زبان پر نہ لا کر واضح لفظوں میں پیغام دیا ہے کہ یہ اصطلاح بے معنی‘ فضول اور الٹے نتائج کی حامل ہے۔ کیا پاکستان میں بھی امریکہ کے مقلدین‘ خواہ وہ ہماری حکومت ہو یا اپنے آپ کو روشن خیال کہنے والا دانشور طبقہ‘ نئے امام کی پیروی میں زبان و دھن کی اصلاح کریں گے جو بہت بگڑ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں کمیونسٹوں کو ماسکو سے لائن ملا کرتی تھی۔ اس عہد کے ذرائع ابلاغ آج کی مانند بہت زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے۔ بسااوقات لائن کے یہاں پہنچتے پہنچتے ماسکو میں پالیسی تبدیل ہو جاتی تھی۔ ان بیچاروں کو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آج پرانے کمیونسٹوں اور نئے دانشوروں کا قبلہ واشنگٹن ہے۔ وہاں سے تبدیل شدہ لائن کے پہنچنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگتی۔ لہٰذا توقع کرنی چاہئے کہ ہمارے یہ خواتین و حضرات نئی زمین پر غزلیں کہیں گے اور شاعری میں ان ترکیبوں کا استعمال بند کر دیں گے جو امریکہ میں متروک ہو گئی ہیں۔
صدر اوباما تقریر کے دوران مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب بہت زیادہ متوجہ ہوئے۔ انہوں نے اسرائیل کے زندہ رہنے کے ’’حق‘‘ کا بھرپور دفاع کیا۔ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کی دو ریاستی نظرئیے کے حق میں آواز بلند کی اہل فلسطین خاص طور پر حماس سے تشدد ترک کر دینے کی اپیل کی لیکن انہیں اسرائیل سے یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ بے گناہ فلسطینی عوام کے خلاف ریاست کی طاقت کے بے محابا استعمال اور وحشیانہ طریقے سے ارض فلسطین کے بچوں‘ بوڑھوں عورتوں کی ہلاکت والی پالیسیاں بند کرے۔ اگر اسرائیل اندھا دھند بم برساتا رہے تو کیا فلسطینیوں کو جواب میں پتھر مارنے کا بھی حق نہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ نازی جرمنی نے 60 لاکھ یہودیوں کو مار ڈالا۔ اگر اس تعداد کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا اس ظلم کا ذمہ دار کوئی ایک بھی فلسطینی‘ عرب‘ یا دنیا کے کسی بھی مقام پر رہنے والا مسلمان ہے جس کا بدلہ ان سے اب تک لیا جا رہا ہے۔ نازی جرمنی یورپ کا حصہ
تھا۔ ہٹلر کی قوم سو فیصد عیسائیوں پر مشتمل تھی یا وہاں پر یہودیوں کی اقلیت آباد تھی۔ اگر کوئی تنازعہ تھا تو ان کے درمیان تھا مسلمان‘ عرب یا فلسطینی ہرگز بیچ میں نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ صدر اوباما نے مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کو بھی غلط کہا لیکن اسرائیل کو انہیں ختم کرنے کا کوئی الٹی میٹم نہیں دیا اگر ان میں اتنے سے اقدام کی جرات نہیں تو وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں کیسے مددگار ثابت ہونگے۔ آج سے کچھ 53 برس پہلے ایک امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے سویز کی جنگ کے دوران اسرائیل کو متنبیٰ کیا تھا کہ وہ صحرائے سینا کو خالی کر دے۔ یہودی ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گی۔ برطانیہ اور فرانس کو بھی جنگ ختم کرنا پڑی۔ اس کے بعد یہودیوں نے امریکہ کے اندر ایسی موثر لابی قائم کی۔ وہاں کی پے درپے حکومتوں اور کانگرس کے اندر اس حد تک نفوذ حاصل کر لیا کہ پھر کسی امریکی صدر کو اسرائیل کے ظلم اور جارحیت کے خلاف ایک لفظ کہنے کا یارا نہ ہوا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی صدر اور حکومت اپنی کانگریس سمیت یہودی لابی کی جادونگری سے نکل کر باہر آ جائیں۔ عالمِ اسلام اور دنیائے عرب کو اسرائیل کی بجائے اپنی اور حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھیں۔ مسئلہ فلسطین کے پائیدار اور پرامن حل تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ (جاری ہے)
صدر اوباما نے ایک اہم مسلمان مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچ کر وہاں کی دنیوی علوم کی یونیورسٹی اور عالمِ اسلام کی سب سے مشہور اور پرانی دینی درسگاہ جامع الازھر کے مشترکہ پلیٹ فارم سے مسلمانانِ عالم سے مخاطب ہو کر عملاً ایک اہم حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ وہ یہ کہ امت مسلمہ اپنا وجود بھی رکھتی ہے۔ اسے منوانا بھی جانتی ہے اور وائٹ ہاؤس کے حکمران اس کی طاقت کو محسوس بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ صدر بش اور ان کے نوقدامت پسند ساتھیوں نے آج سے 8 سال پہلے جب عالم اسلام کے خلاف کروسیڈی جنگ کا آغاز کیا تھا تو واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپان پر ایٹم بم برسا کر اسے تابع فرمان بنا لیا۔ بیسویوں صدی کے اختتام پر پاکستان کے ذریعے افغانستان کی جنگ لڑ کر سوویت یونین جیسے مقابلے کے رقیب کو نیچا دکھا دیا۔ کمیونسٹ سپر طاقت کے اجزائے ترکیبی منتشر ہو گئے۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کے خلاف تہذیبی تصادم برپا کر کے اسلام کی سیاسی طاقت کو ختم کر دیں گے۔ اوباما کی تقریر نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کو اس مشن میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ عالم اسلام جاپان ہے نہ کمیونسٹ طاقت یہ ایک پائیدار حقیت ہے جس کے پاس دنیا کی ایک تہائی آبادی اور زندہ و توانا تہذیب یہ دبنے یا ٹوٹنے والی چیز نہیں۔ صدر امریکہ نے اسلام کی تہذیبی برتری اور امت مسلمہ کے تشخص کو کھلے عام تسلیم کیا ہے۔ کیا ہمارے نام نہاد لبرل دانشور بھی اس منہ بولتی حقیقت کا اعتراف کر لیں گے؟ وہ دانشور جن کے لئے واشنگٹن اور نیویارک سے نازل ہونے والا ہر لفظ جملہ اور ترکیب وحی کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح صدرِ امریکہ نے دورانِ تقریر دہشت گردی کی ترکیب کو زبان پر نہ لا کر واضح لفظوں میں پیغام دیا ہے کہ یہ اصطلاح بے معنی‘ فضول اور الٹے نتائج کی حامل ہے۔ کیا پاکستان میں بھی امریکہ کے مقلدین‘ خواہ وہ ہماری حکومت ہو یا اپنے آپ کو روشن خیال کہنے والا دانشور طبقہ‘ نئے امام کی پیروی میں زبان و دھن کی اصلاح کریں گے جو بہت بگڑ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں کمیونسٹوں کو ماسکو سے لائن ملا کرتی تھی۔ اس عہد کے ذرائع ابلاغ آج کی مانند بہت زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے۔ بسااوقات لائن کے یہاں پہنچتے پہنچتے ماسکو میں پالیسی تبدیل ہو جاتی تھی۔ ان بیچاروں کو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آج پرانے کمیونسٹوں اور نئے دانشوروں کا قبلہ واشنگٹن ہے۔ وہاں سے تبدیل شدہ لائن کے پہنچنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگتی۔ لہٰذا توقع کرنی چاہئے کہ ہمارے یہ خواتین و حضرات نئی زمین پر غزلیں کہیں گے اور شاعری میں ان ترکیبوں کا استعمال بند کر دیں گے جو امریکہ میں متروک ہو گئی ہیں۔